بے سکونی کا علاج۔۔شاہد محمودایڈووکیٹ

بسا اوقات ہم اپنے حالات و واقعات یا کسی کے نامناسب رویہ کی وجہ سے اندر ہی اندر کڑھتے ہیں اور بے سکون رہتے ہیں۔ لوگوں کی باتیں جینا دوبھر کر دیتی ہیں۔ انسان کو سمجھ نہیں آتی کہ وہ کیا کرے۔ تو پہلے ایک مثال دیتا ہوں اس بے سکونی کی کیفیت سے بچنے کے عملی طریقے کی۔ برصغیر پاک و ہند کی ایک مشہور شخصیت کی بابت ایک واقعہ مشہور ہے کہ ان پر بہت تنقید ہوتی تھی لیکن وہ تنقید کا جواب نہیں دیتے تھے۔ بس اپنے کاموں میں مگن رہتے تھے۔ ایک مرتبہ کسی محفل میں ان سے سوال کیا گیا کہ لوگ تو آپ کے خلاف اتنی تنقید کرتے ہیں، آپ کے خلاف باتیں کرتے بھی ہیں، اخبارات میں شائع بھی کرتے ہیں لیکن آپ کسی کا جواب نہیں دیتے تو انہوں نے کہا کہ اگر میں اپنے خلاف کی جانے والی تنقید یا باتوں کا جواب دینے لگ جاوں تو جو تعمیری کام میں کرتا ہوں وہ نہ کر سکوں۔ اس لئے میں اپنی توجہ اپنے کاموں پر اور اپنے مقصد کے حصول پر مرکوز رکھتا ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مانا کہ لوگوں کے رویے اور الفاظ نشتر کی طرح دل میں پیوست ہو کر ہمارے جذبات و احساسات کو زخمی کر جاتے ہیں لیکن اس سے پہلے کہ یہ زخم سارے جسم میں پھیل کر ناسور بن جائے ہمیں لوگوں کو معاف کر کے اپنا آپ آزاد کروا لینا چاہیئے ورنہ لوگ تو اپنا رویہ دکھا اور باتیں کر کے آرام کی نیند سو جائیں گے اور ہم اپنا آپ جلاتے رہیں گے۔ اس لئے لوگوں کو معاف کر دیجئے اور منفی رویہ والے لوگوں سے احتراز برتتے ہوئے رجوع الی اللہ کیجئے اور اپنی فکروں کو اللہ کے ذکر میں convert کر کے پرسکون ہو جائیے۔ اللہ کریم کا عملی ذکر سکون کے حصول کے لئے زیادہ موثر ہے۔ اللہ کریم کے ذکر کی عملی صورت دوسروں کی مدد کرنا، کسی کو پانی پلا دینا، کسی کو کھانا کھلا دینا، کسی کو پڑھا دینا، کسی کو کوئی ہنر سکھا دینا بھی ہے۔ مثبت و تعمیری کام اللہ کریم کے عملی ذکر اور سکون کا ذریعہ ہیں۔

Facebook Comments

شاہد محمود
میرج اینڈ لیگل کنسلٹنٹ ایڈووکیٹ ہائی کورٹ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply