• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • گول روٹی، مشترکہ خاندانی نظام، ہندو کلچر یا اسلام۔۔منصور ندیم

گول روٹی، مشترکہ خاندانی نظام، ہندو کلچر یا اسلام۔۔منصور ندیم

مہذب دنیا کی تمام تہذیبوں، ملکوں اور خطوں میں انسان خاندانی نظام کے تحت زندگی گزار رہے ہیں۔
خطہ ہندوستان بھی زمانۂ قدیم سے مقامی مذاہب اور اپنے مقامی مروجہ اخلاقی روایات  کے مطابق خاندانی نظام کی مخصوص تشکیل کر رہا ہے۔ یہاں مختلف مذاہب، اقوام و قبائل اور ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ رہتے بستے ہیں۔ ہندوستان کی روایات سے جڑے تقریباً ہر مسلک ومذہب نے عموماً ہندو مذہب کے خاندانی نظام کو ہی    معاشرت کے لئے قابل قبول سمجھا ہوا ہے۔ مگر یہاں خاندانی نظام کی ایک الگ شکل ہے جو کہ مشترکہ خاندانی نظام ہے۔ مثلا ً پوری دنیا میں خاندانی نظام تو موجود ہیں ، مگر یہاں  کثرت خاندان کا مجموعہ یعنی مشترکہ خاندانی نظام بھی ہے۔

ہندوستانی سماجیات کے زیر اثر پاکستان ،نیپال ،بنگلہ دیش اور خود آج کا ہندوستان اکثریت میں مشترکہ خاندانی نظام کو اپنائے ہوئے ہے اور اگر ان ملکوں کے ترقی پذیر ہونے میں اس نظام کا حصہ دیکھا جائے تو بہت آسانی سے سمجھ جائے گا کہ یہ مشترکہ خاندانی نظام جبر اور استحصال کا ایک ایسا بازار ہے ، جو زمانوں سے یہاں کے لوگوں کی وقت کے ساتھ چلنے کی ذہنیت تک بدلنے میں سازگار و معاون ہونے نہیں دینا، یہ نظام جھوٹی انا کی تسکین کی خاطر ہمیں اسی جامد ثقافت اور رسم و رواج کا حصہ اپنائے رکھنے پر مجبور رکھتا ہے، اس انانیت پرستی نے تو بسا اوقات ہمارے انسان ہونے کی شناخت تک کو مسخ کردیا ہے، جب مشترکہ خاندانی نظام کی خرابیوں پر بات کی جاتی ہے تو سب سے بھونڈی دلیل یہ دی  جاتی ہے کہ یہ خاندانی نظام کے خلاف سازش ہے، حالانکہ یہ تنقید مشترکہ خاندانی نظام پر ہوتی ہے نا کہ خاندانی نظام پر، جبکہ جس ثقافت کی بنیاد پر مشترکہ خاندانی نظام کے فوائد کا دعویٰ کیا جا رہا ہوتا ہے اس ثقافت کی بنیاد تو خالصتاً ہندوانہ مذہب ہے۔

ہندومذہب میں “اسمرتیوں جیسے منواسمرتی میں ہندو مت میں خواتین کا کردار ملا جلا اور متضاد ہے۔ منواسمرتی کے بیان کے مطابق ” بحیثیت ایک بچّی، عورت کو باپ کے ہی تابع رہنا ہے”
” بحیثیت ایک نوجوان عورت کو شوہرکے تابع رہنا ہے” اور
” بحیثیت ایک بیوہ، اپنے بیٹے کا فرماں بردار رہنا ہے”
اور درحقیقت عورت کو شادی کے بعد یعنی “ساس نندوں اور بڑی بھابیوں کے تابع رہنا ہے اور بہوؤں کو سسرال میں اس وقت تک قبول نہیں کیا جاتا جب تک وہ بیٹا پیدا نہ کریں۔ کیونکہ بیٹے خاندان کی نسل کو برقرار رکھتے ہیں”۔

حالانکہ بالاصل تو ثقافت کی خوبصورتی اور بقا ہی یہ ہوتی ہے کہ وہ ہر آنے والے وقت کے ساتھ اپنے رنگوں کو بدلے اور وقت کے ساتھ ہونے والی تبدیلیوں کو نیا شعور بخشے۔

برصغیر کے اس مشترکہ خاندانی نظام کے بظاہر کچھ فوائد ہوسکتے ہیں، مگر بدقسمتی سے ہم ان شدید نقصانات کا اندازہ لگانے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔ اصولی بات یہ ہے کہ مشترکہ خاندانی نظام فرد کی مرضی سے ایک بالا سسٹم ہے، ہمارے مسائل کچھ اور ہیں ، جنہیں ہم مشترکہ خاندانی نظام کی بقاء سے جوڑ کر حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

کبھی بھی دیکھ لیجیے ، جو لوگ مشترکہ خاندانی نظام کو برقرار رکھنے کے لیے رسم وراج سے بنائی گئی دیواروں کے آج بھی قائل ہیں ، وہ کبھی اس کو بطور معاشرے کا استحکام اور کبھی خود ساختہ فیمنزم کے الزام اور کبھی اسلام کی غلط خود ساختہ تعبیرات سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں، مشترکہ خاندانی نظام کو صرف اور صرف برصغیر کے علماء ماں باپ کی فضیلت اور حقوق کے مسائل کو زبردستی مشترکہ خاندانی نظام سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مشترکہ خاندانی نظام کو آئیڈیلاز صورت میں پیش کرنے کے لئے جو مذہںی دلائل دئے جاتے ہیں وہ انتہائی خود ساختہ اور غلط تعبیرات پر مبنی ہوتے ہیں۔

اسلام کا نام لے کر مشترکہ خاندانی نظام کو اسلامی بنانے والے کیا بتا سکتے ہیں کہ وہ دعویٰ کہ “اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ماں کی گود سے لے کر قبر تک کا دین بتا دیا ہے” کیا وہ قرآن کی کسی آیت سے، کسی حدیث کے ریفرنس سے، آئمہ کے کسی قول سے، اللہ کے رسول صل اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے، صحابہ کرام کی زندگی سے، تابعین کی زندگی سے، سلف صالحین کی زندگی سے، بلکہ پورے چودہ سو بیالیس سالہ اسلامی دور میں ، عرب ممالک میں نئی رہائش کے بغیر شادی کا تصور ہی نہیں پایا جاتا ۔ میں یہ نہیں کہتا کہ نئے مکان کے بغیر شادی نہیں ہوتی مگر پرانے مکان میں ہی سہی مشترکہ خاندانی نظام نہ ہو۔ عرب ممالک کے انفرادی نظام سے جہاں ان کے یہاں بھائی بہنوں میں تاحیات الفت ومحبت قائم رہتی ہےوہیں والدین کی نگہداشت کا بھی اعلی نمونہ دیکھنے کو ملتا ہے جبکہ ہمارے سماج میں اس کے برعکس ماحول ہے ۔ کسی عرب ملک میں جہاں اللہ تعالی نے نے کم و بیش دو لاکھ چالیس ہزار انبیاء کو مبعوث فرمایا، کوئی ایک مثال بھی پیش کر سکتے ہیں؟

اگر نہیں بتا سکتے تو کیا وہ اس کا انکار کرسکتے ہیں کہ
اسلام میں شادی کے بعد سے عورت کی کفالت کا ذمہ دار اس کا شوہرہوتا ہے ۔ اس لئے شوہر کے ذمہ ہے بیوی کی رہائش، خوراک اور پوشاک کا بندوبست کرے۔

اگر اسلام میں مشترکہ خاندانی نظام کا تصور ہوتا تو گھریلو اعتبار سے سب کے الگ الگ حقوق کا بیان ضرور موجود ہوتا جبکہ اسلام نے ساس ،سسر، بہو، نند، دیور، بھابھی ، جیٹھ وغیرہ کے حقوق کا الگ سے ذکر تک نہیں ہے۔ بلکہ عربی زبان کو جو فصاحت و بلاغت کا اعلی درجہ دیا جاتا ہے، جس زبان میں اونٹ کے 900 سے زائد نام موجود ہوں، جس زبان میں عورت کے حمل کے 9 ماہ کے ہر دن کا علیحدہ نام موجود ہو، وہ زبان ان رشتوں کے علیحدہ نام لینے سے ہی بانجھ کیوں کر ممکن ہو سکتی ہے، اس کی بہت سادہ سی وجہ یہی ہے کیونکہ ان رشتوں کی اسلام میں مشترکہ خاندانی نظام یا اس معاشرت میں وہ اہمیت ہرگز نہیں تھی جو ہندوانہ معاشرت میں ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فلم کی متعدد ازواج مطہرات تھیں جنہیں اللہ کے رسول چاہتے تو ایک چھت تلے جمع کرسکتے تھے، کیونکہ ان سب کا شوہر ایک ہی تھا پھر بھی ان سب کا رہن سہن ،کھانا پینا اور سازوسامان تک الگ الگ تھا۔ لیکن مشترکہ خاندانی نظام چونکہ  ہندو مذہب سے  ہے، اس لئے ہندو مذہب کی  مقدس شخصیات کی روایت اور زندگی دیکھ لیجیے، انہوں نے ایک ہی چھت تلے کئی کئی بیویاں اور داسیاں جمع کی ہوئی تھیں۔

اللہ تبارک و تعالی کا فرمان ہے :
وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ ۖ (الاحزاب : 33)

ترجمہ : اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو، اور قدیم جاہلیت کے زمانے کی طرح اپنے بناؤ کا اظہار نہ کرو۔
اس آیت میں عورت کو اپنے گھر یعنی شوہر کے گھر کو لازم پکڑنے کا حکم دیا گیاہے ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
إياكم والدخولَ على النساءِ . فقال رجلٌ من الأنصارِ : يا رسولَ اللهِ ! أفرأيتَ الحموَ ؟ قال : الحموُ الموتُ(صحيح مسلم:2172)

ترجمہ : اجنبی عورتوں کے پاس جانے سے بچو، ایک انصاری نے عرض کیا: یا رسول اللہ حمو(دیور) کے بارے میں صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حکم ہے؟ آپ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ حمو(دیور) تو موت ہے۔
اس حدیث سے واضح مفہوم ملتا ہے کہ مشترکہ خاندانی نظام صحیح نہیں ہے جس میں دیور و بھابھی کا اختلاط ہو کیونکہ دیور عائلی نظام کے لئے موت ہے۔

برصغیر میں میں مشترکہ خاندانی نظام نے ہمیں یہ سب تحفے دیئے ہیں ، ساس و سسر کی خدمت کا مسئلہ، ساس وبہو کے تنازعات، دیور و بھابھی کا رنگین فسانہ، گھر کے افراد اور رشتہ داروں کے درمیان ناچاقی، مالی نظام کی غیر مساوی معاملات، والدین کا اولاد کے درمیان عدم مساوات، نتیجہ میں اولاد کی نافرمانی ہی ملتی ہے، اولاد کی ترقی میں رکاوٹ، صالح معاشرہ کی تشکیل میں رخنہ، سماج میں برے اثرات جیسے طلاق، غیبت، بے پردگی، خیانت، تنازع، استہزاء، عدم تعاون وغیرہ وغیرہ۔

انسانی خلقت کو فطرت نے بنیادی طور پر ہر انسان کو علیحدہ سوچ علیحدہ عقل کا دائرہ کار دیا ہے، ہر انسان دوسرے سے الگ   ہے اس کی زندگی کے مقاصد علیحدہ ہے اس کی سوچ کا دائرہ کار علیحدہ ہے اور اس کی صلاحیتیں بھی علیحدہ ہیں، پھر یہ کیوں کر ممکن ہو سکتا ہے کہ مشترکہ خاندانی نظام میں سب کی زندگی کے مقاصد بھی ایک ہو جائیں بھائی ان کے کھانے پینے کی پسند بھی ایک ہو جائے، ایسے مشترکہ خاندانی نظام  میں جب بیٹوں کی شادی کی جاتی ہے تو اس کا اصل مقصد ماں کی خدمت ہوتا ہے بلکہ ہماری معاشرت میں تو لوگ گول روٹی کو بھی ایک معیار سمجھتے ہیں ، ان کے نزدیک تعلیم اور اخلاقیات کا ہونا اتنا ضروری نہیں ہے۔ لیکن روٹی گول ہونی چاہیے، جہاں یہ معیار ہوتے ہیں وہاں اور بھی کچھ معیار ضرور چیک کئے جاتے ہیں جیسے کہ ایڑیوں کے بل درست طریقے سے بیٹھ کر کس کس زاوئیے سے لڑکی جھاڑو لگا سکتی ہے، انہیں یہ معیار بھی بہت بہترین چیک کرنے آتے ہیں اور اس بات پر لڑکی کی زندگی عذاب بھی کردی جاتی ہے ، وہاں یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ واشنگ مشین تو لڑکی بھلے جہیز میں ہی کیوں نہ لے آئی ہو مگر وہ اپنے ہاتھوں سے کتنے کلو کے پردے اور کمبل دھونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی معیارات ہیں جیسے ۔ صبح 6 بجے سسر کے لئے چائے بنانے کے لئے اٹھنا، 7 بجے دیور کے لئے ناشتہ کیونکہ اس نے کالج جانا ہے، 9 بجے شوہر کے لئے ناشتہ وغیرہ وغیرہ ،سب کو تازہ چائے اور ناشتہ مختلف وقتوں میں دینا۔

گول روٹی کے لیے یا خدمت کے حوالے سے سیدنا فاطمہ بنت محمد کی مثال دی جاتی ہے کہ ان کے ہاتھوں میں چکی پیسنے سے گڑھے پیدا ہوگئے ، لیکن سیدنا فاطمہ کی مثال اکیلی نہیں ہے زینب بنت محمد، ام کلثوم بنت محمد اور رقیہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مثالیں بھی تو دیکھنی ہونگی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازدواج کی معاشرت اور نجی زندگی بھی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی میں گول روٹی کا کوئی پیمانہ موجود ہی نہیں ہے۔ بالاصل یہ تو برصغیر کے غالب کلچر ومذہب کی بنیاد ہے۔

ہم نے ہندو سماجیات کے مشترکہ خاندانی نظام کے بنیادی تصور کو اسلام بنانے کی کوشش کی ہوئی ہے، جب ہم مشترکہ خاندانی نظام، ساس و سسر کی خدمات اور گول روٹیاں اسلام سے ثابت نہیں کر پاتے تو بہت آسانی سے اس معاملے کو فیمنزم کے الزام سے جسٹیفائی کرلیتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

حالانکہ یہ روٹیوں کا گول یا تکون بن جانا حقیقتا ً اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے، لڑکیاں عموماً  شادی کے بعد بھی سیکھ لیتی ہیں اور میرا غالب گمان یہی ہے کہ 70 فیصد لڑکیاں تو اپنے گھروں سے ہی سیکھ کر آتی ہیں، ویسے بھی دو طرفہ فیملی ویلیوز جیسی ہوں ،وہاں کی معاشرت میں یہ معاملہ بالکل انہی اصولوں پر قابل قبول ہوسکتا ہے ۔ مگر جب ہم ان ہندوانہ ویلیوز کو شریعت کا سہارا دینے کی کوشش کرتے ہیں تو معاملہ یقیناً  غلط ہوجاتا ہے۔ ہمارے پاس یہی رہ جاتا ہے کہ ہمارے بزرگوں کی روایات ہیں تو صاحب برا مت مانیے گا،
“اگر ہمارے بزرگوں نے کبھی غلطی سے گوبر کو زعفران سمجھ کر کھایا تھا تو کیا ہم آج بھی گوبر کو زعفران ہی مانیں گے،”

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply