اب صنم بھی ایمان خراب کرنے لگے۔۔ذیشان نور خلجی

یہی کوئی بائیس پچیس کے سن میں ہوگا۔ اصل نام تو جانے کیا تھا، یار لوگ اسے بھولا کہتے تھے لیکن باتیں وہ بڑی سیانی کیا کرتا تھا۔ بھولا چونکہ پیدائشی مسلمان تھا اور رہتا بھی دار الاسلام میں تھا اس لئے دوسرے مذاہب سے کبھی واسطہ نہ پڑ سکا۔ ہاں، اپنے فرقوں پر اسے عبور حاصل تھا۔ بھولا اپنی زبانی بتایا کرتا تھا کبھی جب وہ سنی تھا تو اہل تشیع کی مجلس میں جانے سے اس کا ایمان خطرے میں پڑ جایا کرتا تھا۔ پھر جب ہائی اسکول میں پڑھنے کے لئے پنڈ سے باہر آنا جانا شروع ہوا تو شہری لڑکوں کی صحبت میں وہ بھی وہابی ہو گیا اور مزاروں پر جانے سے اس کا ایمان ڈانواں ڈول ہو جایا کرتا۔ منہ زور جوانی کو بند باندھنے کے لئے کچھ مزید مذہب کی طرف جھکا تو اسے دیو بندیت میں عافیت محسوس ہوئی لیکن پھر بارہ ربیع الاول کے جلوس اس کے ایمان کا کریا کرم کرنے لگے۔ اسی شش و پنج میں اس نے بریلویت اختیار کر لی اور پھر کمر پر بستر لادے، ہاتھ میں لوٹا دابے بے ضرر سے تبلیغی اس کے ایمان کو ضرر پہنچانے لگے۔ ان سب سے جان چھڑا کر وہ شیعوں میں جا گھسا تو معلوم ہوا جب تک پندرہ سو سال پہلے کے گڑے مردے نہیں اکھاڑ لے گا اس کا ایمان مکمل نہ ہو گا اور خطرہ ہنوز برقرار رہے گا۔ بھولا بھی آخر کو بھولا ہی تھا سو اس نے سب کو ہی خیر آباد کہہ دیا۔
کہ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری، نہ ہی فرقوں کا سرکس جمے گا، نہ ہی اس کا ایمان کسی دوسرے مسلمان کے عقائد کی وجہ سے خطرے میں پڑے گا۔

ویسے اہل ایمان تو سوچ رہے ہوں گے کہ بھولے کا تو ایمان ہی نہیں تھا، پھر خطرہ کاہے کا۔ بات تو سچ ہے۔ واقعی اگر اس کا ایمان ہوتا تو لازمی خطرے میں پڑتا جب کبھی وہ قرآنی آیات کی اپنی مرضی کے مطابق تشریح کرتا۔ بھولے کے دل میں ایمان کی دولت ہوتی تو واقعی لٹ چکی ہوتی جب کبھی وہ اپنے فرقے، اپنی گروہی عصبیت کے لئے مخالفین کو تہہ تیغ کرتا۔ اسے اپنے ایمان کی فکر لگ جانی تھی جب کبھی کسی استاد کی شاگرد کے ساتھ جنسی زیادتی پہ وہ مجرمانہ خاموشی اختیار کرتا۔ وہ لازمی بے ایمان ہو جاتا اگر حالت ایمان میں وہ دوسرے مسلمان بھائیوں کو کافر کافر کہہ رہا ہوتا۔

ہاں، ایمان کی دولت تو صرف اہل ایمان ہی کے پاس ہے شاید اسی لئے ایک ہندو مندر کی وجہ سے ان کا ایمان خطرے میں پڑ گیا۔ اور اس مندر اور اس میں رکھی مٹی کی مورتوں کی حقیقت کیا ہے۔ وہ میں نہیں کہتا، بلکہ یہی اہل ایمان بتلاتے ہیں کہ ان مندروں میں پڑے ہوئے لکڑی کے بت کسی نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں۔ اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے پتھر کے صنم بھلا اپنے خالق کا کیسا نقصان کر سکتے ہیں۔ مٹی کے یہ بت جنھیں ہندو لوگ بھگوان کہتے ہیں یہ تو اپنے اوپر بیٹھی مکھی کو نہیں اڑا سکتے، بلکہ اپنے بے جان وجود پر جمی گرد کو بھی نہیں صاف کر سکتے۔

Advertisements
julia rana solicitors

لیکن سوچتا ہوں کہ اگر یہ مٹی کے بت اتنے ہی بے ضرر ہیں تو پھر ان کے وجود سے اہل ایمان کو کیا خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ یا تو وہ بت واقعی میں بھگوان ہیں، داتا ہیں، مشکل کشا ہیں، حاجت روا ہیں، خدا ہیں یا پھر اہل ایمان کے ایمان میں کوئی جھول ہے جو پتھر کی ان بے جان سی ٹھیکریوں سے ایمان کے ایوانوں میں لرزہ طاری ہو گیا ہے۔

Facebook Comments