نہ جانوں کیوں کہ مٹے داغ طعن ِ بد عہدی
تجھے کہ آئینہ بھی ورطہ ٗ ملامت ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ستیہ پال آنند
حضور، مجھ کو تو جو کچھ سمجھ میں آیا ہے
اگر کہیں تو میں منجملہ اس کو پیش کروں
مرزا غالب
ذرا بتاؤ تو کیا کوئی لفظ مشکل ہے؟
ستیہ پال آنند
نہیں،جناب، یہ الفاظ تو ہیں سب آساں
مگر ہے عندیہ ان کا منازعت کا سبب
مرزا غالب
ذرا مجھے بھی بتاؤ یہ ’’عندیہ‘‘ کیا ہے
ستیہ پال آنند
جناب، غور فرمائیں تو اس تشاکل پر
کہ جو بھی شخص ہے اس شعرکے تخاطب میں
(روایتاً ہے جسے’’ـ معشوقــ ‘‘ کہا جاتا ہے)
ہے اس کے چہرے پہ اک بد نما، بد رنگ سا داغ
یہ داغ جو کہ نشانی ہے عہد سوزی کی
عدم خلوص کی ۔۔یا۔۔ بد لحاظ ہونے کی
جتن ہزار کرے تو بھی مٹ نہیں سکتا
مرزا غالب
درست ہے یہ تمہارا بیان، ستیہ پال
اب اور آگے چلو روئے آئینہ کی طرف
ستیہ پال آنند
کھڑا ہوا ہے اک آئینہ لیے یہ بد عہد
وہ اپنے چہرے کو جب آئینے میں دیکھتا ہے
یہ داغ اس کو بھی اجبک دکھائی دیتا ہے
اسے یہ لگتا ہے جوں ہو کلنک کا ٹیکا
مرزا غالب
اب اس کے بعد کہو، اور کیا سمجھتے ہو؟
ستیہ پال آنند
روایتاً تو یہ شاید درست ہو کہ نہ ہو
حقیقتاً ، مگر، بہروپیا ، یہ جھوٹا صنم
اس ایک جرمِ وفا پر بہت پشیماں ہے
حضور ، آپ کا مصرع دلیل ہے اس کی
’’تجھے کہ آئینہ بھی ورطہٗ ملامت ہے‘‘
مرزا غالب
خوشا! صد آفرین، واہ، واہ، اے ستیہ پال
تمہاری شرح یقیناً ہے باعث ِ تحسین
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں