قندیلوں کے نام۔۔۔صائمہ بخاری بانو

میری روشن قندیلو!
پیاری سائرہ، رمشا اور فاطمہ
ہمیشہ روشنی پھیلاتی رہو۔ آمین
پچھلے ایک ہفتے سے ایل-جی-ایس کی درد دیتی کہانیاں جو زبان زد عام ہیں، میں انہیں سن سن کر تھک چلی ہوں۔ لکھنے کو تو ایک سیلابی ریلا تھا جو بتدریج بڑھتے بڑھتے طوفان کی شکل دھارتا چلا گیا، پھر سوچتی ہوں لکھنے کو آخر ہمارے پاس ہے ہی کیا، وہی چند گھسے پٹے جملے، الزامات کی بھر مار اور دشنام کا خزانہ، سوچا تھا ضبط سے کام لوں کہ ضبط ظرف عطا کرتا ہے۔
سارو! آپ نے پوچھا ہے کہ اس واقعہ پر میرے کیا تاثرات ہیں تو مجھے یہاں پر چار اہم ستون دکھائی دیتے ہیں۔ حکمران، والدین، نجی سکول، اساتذہ اور ان کے بیچوں بیچ وکٹمائیزڈ طالبعلم۔
حکمرانوں کا کردار یا رویہ ہمارے تعلیمی نظام کے حوالے سے ان پچھلے تہتر سالوں میں کیا رہا یہ ہم سبھی جانتے ہیں، آپ اس نیگلکٹ فل رویے پر لکھ سکتی ہیں۔ جو سقم اور کلاس ڈفرنسز نظام تعلیم میں موجود ہیں وہ بھی آپ اجاگر کر سکتی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

دوسرا اہم کردار والدین کا ہے۔ یہاں بھی طبقاتی بانٹ دکھائی دیتی ہے۔ غریب والدین اپنی غربت کی فرسٹیشن بچوں پر نکالتے ہیں۔ یہ عمومی رویہ ہے ہم نے سڑکوں پر کئی بار بچوں کو پٹتے دیکھا ہے، بلکہ چائلڈ لیبر بھی اسی زیادتی کے زمرے میں آتی ہے۔ دوجی طرف امراء ہیں وہ اولاد کو آسائشیں تو دے رہے ہیں لیکن ان کی تربیت اور شخصیت سازی کے لئے وقت نہیں دے پاتے۔ مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس والدین (بلکہ اب تو صرف لوئر مڈل ہی رہ گئی ہے۔) وہ کھینچ تان کے اپنی چادر اور روایتوں کے بیچوں بیچ موزونیت قائم رکھنے کی سعی کرتے رہتے ہیں۔
نجی سکولز کی مثال ایسے ہی ہے جیسے آپ ایک کپڑوں کی ماڈرن دکان، بیکری، کسی ملٹائینیشن فوڈ چین یا گروسری سٹور کی فرنچائیز لے لیجے اور اسے کمرشلی رن کیجئے، یہاں سو فیصد کسٹمر سیٹس فیکشن کا بھی جھنجھٹ نہیں ہو گا بلکہ ہم نصابی اور غیر نصابی ایکٹی وٹیز کے نام پر یہ مارکٹنگ بروکرز نئی سے نئی، ایک سے بڑھ کر ایک ڈیلز بنا کر پیسے بٹورتے رہتے ہیں۔ سپورٹس محض ڈرامہ بن کر رہ گئی ہیں۔ ہر شے کمرشلی کوریکٹ ہو اور بس۔ سکول سسٹمز مالکین کی اس کماو پالیسی کیوجہ سے نظام تعلیم نے ایک عجب سی شکل اختیار کر لی ہے۔
اب اساتذہ کا کردار آتا ہے۔ تو سمجھئے کہ ڈاکٹر، نرس، ہوسٹ، استاد، سماجی کارکن یہ سب ہی پروفیشن نہیں ہیں بلکہ وکیشن ہیں گویا ایک ایسی جاب جو آپ کا پیشن ہو اور آپ کو مرسی، سروس، سیکریفائس کرنا سکھائے نا کہ اس کے ذریعے آپ کمائی کے نت نئے طریقے سوچیں۔ اکثر اساتذہ کرام یا تو منیجمنٹ کے لاڈلے فرشتے ہوتے ہیں جبکہ دوجی صورت میں دل یزداں میں کانٹے کی طرح کھٹکنے والا شیطان۔
سب سے پہلے تو پرنسپل کا وژنری ہونا اہم ہے۔ پھر سکول مالکین کی جانب سے انہیں اعتماد اور احساس ذمہ داری دونوں ہی مہیا کرنا اہم ہے۔ یہی وہ دو چیزیں ہیں جو پرنسپل آگے سٹاف میں منتقل کریں گی۔ اگر مالکین انہیں عزت، اعتماد، ڈیژیزن پاور دیں گے تو وہ بہتر پر فارم کریں گی اور ایک بہترین ٹیم بنا پائیں گی جبکہ ایسا ہوتا نہیں کیونکہ اکثر مالکین ہائیرنگ اپنی مرضی سے کرتے ہیں اور ڈیوائیڈ اینڈ رول کی پالیسی اپناتے ہیں تو ایسے میں پرنسپل ایک پپٹ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ پھر وہ بھی وہی کرتی ہیں کہ اپنے فیورٹس رکھنا، ڈیوائڈ اینڈ رول پر چلنا، گویا اصل کھیل کرسی بچانا ہے، راجہ راج کرتا ہے اور مہرے پٹتے رہتے ہیں۔ اگر ہم انسانوں کا ہجوم جمع کر لیں تو محض تربیت کے فرق سے وہ ایک منظم جماعت بھی ہو سکتا ہے اور ایک منتشر موب بھی بن سکتا ہے۔ اسے کیا روپ دینا ہے یہ حکومت، نظام تعلیم، اساتذہ اور والدین مل کر طے کرتے ہیں اور اس کے لئے ذمہ داران کا فوکسڈ اور ڈٹرمنڈ ہونا اہم ہے۔
اب ہم بچوں کی طرف آ جاتے ہیں تو یہ چونکہ ایلیٹ کلاس سے ہیں لیکن ہیں تو بچے ہی نا۔ کم از کم بیس سال سے پہلے تک میں انہیں بچہ ہی کہوں گی۔ جبکہ کئی لوگ ایسا بھی کہتے ہیں کہ اس طبقے کے بچوں میں یہ برائی ہے وہ برائی ہے، ہیش پیتے ہیں یا دیگر نئے نئے نشے وغیرہ بھی موجود ہیں جن کے ناموں سے ہم سب ہی واقف ہیں۔ 18+کونٹنٹ دیکھتے ہیں، ارلی ایج میں ہی ایسی ایکٹوٹیز میں انڈلجڈ ہو جاتے ہیں جو نا صرف مذہب، اخلاق بلکہ ذہنی نمود و نمو اور جسمانی نشو و نما کے لئے بھی مضر ہے۔ لیٹسٹ گیجٹس اس میں موجود ان لمیٹڈ نیٹ انہیں جانے کہاں سے کہاں لے جاتا ہے، سیکسٹنگ، نیوڈز شئیرنگ، وغیرہ وغیرہ
یہ تو ہو گئے وہ الزامات ہیں جو ہم ان بچوں پر لگاتے ہیں اب ذرا ان بچوں کے مسائل بھی دیکھ لیں۔ باپ کمانے میں بزی ہے ماں کی اپنی اوبلیگیشنس ہیں ممکن ہے وہ بھی ایک ڈٹرمنڈ پروفیشنل ہو تو ایسے میں ان بچوں کو مادی اشیاء سے کمپنسیٹ کیا جاتا ہے جو ان کے لئے انٹی بائیوٹک تو ہو سکتی ہیں لیکن انٹی باڈی ہرگز نہیں۔
اب سکول آ جاتا ہے جہاں بہترین تربیت ہو سکتی تھی یا ہونی چاہئیے لیکن ایسا ہوا نہیں۔ سکول پریمیسز میں ڈرگس کیسے آتی ہیں، ڈیٹ پر بچے کیسے نکل جاتے ہیں۔ گارڈن کا بینچ ہو یا آڈیٹوریم کا کوئی کونا ہائیڈ اینڈ سیک کیسے کھیلا جاتا ہے۔ مستزاد یہ کہ اب اساتذہ بھی ایسی ایکٹویٹیز میں مبینہ طور پر شامل ہیں یا کہیں بہت پہلے سے ہی شامل تھے۔ ممکن ہے خواتین ٹیچرز کا بھی اپنے سٹوڈنٹس کے ساتھ یہی رویہ ہو۔ ایسے میں، میں ان معصوم بچوں کو بری الذمہ قرار دیتی ہوں۔ کیونکہ انہیں ایک رولنگ سٹون کی طرح ہم سب ادھر ادھر پھینک رہے ہیں۔ وہ کہاں جائیں؟ جب آپ انہیں گیجٹ ود ان لمیٹڈ ایکسس ٹو آل کائینڈ آف میچیور کانٹنٹ دیتے ہیں تو ایسے میں وہ اپنی ورنریبیلیٹی ہینڈل نہیں کر پاتے اور سکول بھی ان کی حفاظت نہیں کر پاتے اور آخر کیوں کریں جب پیرنٹس ہی کنسرنڈ نہیں۔
پھر اساتذہ ہیں خدا جانے علم کی قبا پہنے کون اور کتنے سائیکو پیتھ ایجوکیشن سسٹم میں موجود ہیں۔ کوئی تلخ گوئی سے تو کوئی بچے کے ہارمونل فنکشن کے مُوڈ اور مَوڈز پھانپ کر انہیں جیسے چاہے ایکسپلائیٹ کرتا ہے۔ یوں بچے تو وکٹمائیزڈ ہو رہے ہیں نا۔ کئی بار یہ بچے سٹالک ہوم سینڈروم کا شکار ہو جاتے ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ کوئی لنیٹک اور سیڈسٹ انہیں ایکسپلائیٹ کر رہا ہے لیکن ان بچوں کے شعور کے ایک گوشے میں یہ یاد درد بن کر ہمیشہ زندہ رہتی ہے اور انہیں عمر بھر توڑتی رہتی ہے۔ یہاں ہر شخص ہر سطح پر ہر طبقے اور ہر مزاج کے بچوں کے ساتھ کوئی نہ کوئی زیادتی کررہا ہے۔
قومیں یوں نہیں بنا کرتیں، واللہ!
ہم وہ باغبان ہیں جو اپنی ہی کیاریوں کی کچی کلیاں خود اپنے ہاتھوں سے بری طرح مسل رہے ہیں۔
رمشو، فاطو، سارو! آپ لکھو اس پر، آواز اٹھاو، میرا کہا شاید چالیس پچاس لوگ پڑھیں گے آپ کا کہا تو ہزاروں لوگ پڑھتے ہیں۔
آپ کی اپیا
صائمہ بخاری بانو
٨.٧.٢٠٢٠

Facebook Comments

صائمہ بخاری بانو
صائمہ بانو انسان دوستی پہ یقین رکھتی ہیں اور ادب کو انسان دوستی کے پرچار کا ذریعہ مان کر قلم چلاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply