کرونا ڈائریز:کراچی،کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(قسط 65)۔۔گوتم حیات

گزشتہ رات میری پھوپھی کا انتقال ہو گیا، ابّو کی وہ اکلوتی بہن تھیں، باوجود کوشش کے ہم ان کے جنازے میں شرکت نہیں کر سکے۔۔۔ پچھلے مہینے سے ان کی طبیعت اچانک بگڑتی چلی گئی۔ جب لاک ڈاؤن کا آغاز ہوا تو وہ اپنی بیٹی کے پاس لاہور آئی ہوئیں تھیں۔۔۔ انہیں کشمیر سے لاہور آئے کچھ دن ہی ہوئے تھے۔۔۔ لاہور آکر وہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے قید سی ہو گئیں تھیں، اللہ اللہ کر کے لاک ڈاؤن میں نرمی آئی اور انہوں نے کشمیر واپس جانے کا پروگرام بنایا، راستے میں ہی ان کی طبیعت اچانک خراب ہوئی اور گاؤں پہنچتے پہنچتے وہ نڈھال ہو چکی تھیں۔۔۔ تیز بخار، کمزوری اور اُلٹیوں نے ان کو کمزور کر دیا تھا، تقریباً پورا ایک مہینہ وہ درد کی کیفیت میں رہیں، ڈاکٹر کو بھی دکھایا۔۔۔ گاؤں کے ہسپتال کے مطابق انہیں ٹائیفائڈ تھا جب کہ ان کی علامات کرونا کے مریضوں جیسی تھیں۔۔۔ مجھے ابھی تک یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ میرے کزنز اور ان کے بچوں نے پھوپھی اماں کا کرونا کا ٹیسٹ کیوں نہیں کروایا۔۔۔ لوگوں کو کیوں یہ خوف ہے کہ اگر ان کا کرونا ٹیسٹ  پوزیٹو   آگیا اور وہ انتقال کر گئے تو ان کے جنازے میں دو، چار لوگوں کے علاوہ کسی کو شرکت کی اجازت نہیں دی جائے گی۔۔۔ معاشرے میں مذہبی روایت پرستی کی جڑیں گہری ہونے کی وجہ سے لوگوں نے یہ فرض کر لیا ہے کہ جنازے  میں زیادہ سے  زیادہ لوگ شریک ہوں گے تو مرنے والے کی بخشش آسانی سے ہو جائے گی۔۔۔ صرف اس خوف کی وجہ سے بھی کراچی سے کشمیر تک بہت سے مریضوں کی اموات گھروں پر ہی واقع ہو رہی ہیں۔۔۔ ہسپتال جانے کی نوبت ہی نہیں آتی۔۔۔ یاد رہے کہ ایسے مریضوں میں کرونا کے بھی مریض یقینی طور پر ہیں۔۔۔ اور جب مریض کی حالت کنٹرول سے باہر ہو جاتی ہے تو انہیں ایمرجنسی میں ہسپتال لے جایا جاتا ہے۔۔۔ لیکن ایسے نازک وقت میں ہسپتال لے جانے کا کیا فائدہ۔۔۔ اگر بروقت لوگ ایسے مریضوں کو ہسپتال پہنچا دیں تو بہت سی زندگیاں محفوظ بنائی جا سکتی ہیں۔۔۔

کل شب پھوپھی اماں جن کو ہم پیار سے بُبّو کہتے تھے ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئیں۔۔۔ فون پر میری ان سے آخری بات اس سال اپریل کے مہینے میں ہوئی تھی، وہ اس وقت لاہور میں تھیں اور مجھ سے پہاڑی میں پوچھ رہیں تھیں کہ عاطف تم کشمیر کب آؤ گے۔۔۔ تین، چار سال ہو گئے تمہاری شکل نہیں دیکھی اور نہ ابھی تک تم نے بیاہ کیا۔۔۔ کیا گاؤں آنے کا ارادہ نہیں ہے۔۔۔۔؟ اس وقت ہنستے ہوئے میں نے ان کو بتایا تھا کہ ہاں کچھ کاموں کی وجہ سے میں کشمیر نہیں آسکا، لیکن اس سال پکّا ارادہ ہے کشمیر آنے کا، شاید جولائی یا اگست تک آؤں گا۔۔۔ اور پھر میں لازمی آپ کے گھر بھی آؤں گا۔۔۔ ڈھائی ماہ پہلے جب میں ان سے اس جولائی میں کشمیر آنے کی بات کر رہا تھا تو میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ میں ان سے ملنے کے لیے نہیں بلکہ ان کی تدفین کے بعد ان کی قبر پر حاضری دینے کے لیے کشمیر کا سفر کروں گا۔۔۔

اس سال کرونا کی وبا کے دوران ابّو کے ایک دوست کا بھی پچھلے ماہ انتقال ہوا اور اب ان کی اکلوتی بہن رخصت ہو گئیں۔۔۔ بدقسمتی سے آخری وقت میں ابّو ان دونوں سے میلوں دور تھے۔۔۔ نہ ان کا چہرہ دیکھ سکے اور نہ ہی نمازِ جنازہ میں شریک ہو سکے۔۔۔

آج شام ساڈھے چھ بجے کی فلائٹ سے میں ابّو کے ساتھ اسلام آباد جا رہا ہوں اور پھر وہاں سے کشمیر اپنے گاؤں بُبّو کی قبر پر۔۔۔ اس بار ہم ان سے نہ مل سکیں گے، نہ ہی ان کو دیکھ سکیں گے۔۔۔

اس وقت رات کے دو بجنے والے ہیں، مجھے بُبّو کی کچھ انوکھی باتیں یاد آرہی ہیں۔۔۔ انڈے کی بُو ان کو کتنی بری لگتی تھی، انڈے کی بُو مجھے بھی بہت بری لگتی ہے۔۔۔ یہ ان کی پختہ عادت تھی کہ ان کے برتن ایسے برتن سے الگ رکھے اور الگ دھوئے جاتے تھے جس میں انڈہ پھینٹا گیا ہو یا انڈہ بنایا گیا ہو۔۔۔ ایک لمبے عرصے تک میں بھی انڈوں سے پرہیز ہی کیا کرتا تھا۔ پورے خاندان میں یہ ہم دونوں ہی تھے جو اپنا کپ اور گلاس بار بار دھو کر استعمال کرتے تھے، کسی جھوٹے برتن یا گلاس میں کچھ کھانا پینا ہم دونوں کے لیے حرام تھا، بار بار اپنے ہاتھوں کو دھونا اور کسی ایسے شخص سے ملنا جو صاف ستھرا نہ ہو ہمیں عجیب لگتا تھا۔۔۔ اس شخص کے جانے کے بعد ہم دونوں آپس میں دیر تک باتیں کرتے ہوئے ہنستے تھے کہ یہ کیسے لوگ ہیں جو اتنے خراب حلیے میں لوگوں سے ملنے کے لیے چلے آتے ہیں۔۔۔ اور دوسروں کے بھی ہاتھ گندے کرتے ہیں۔۔۔ صفائی کا ذرا بھی خیال نہیں انہیں۔۔۔۔ آہ۔۔۔ صفائی کا یہ کیسا خبط تھا جو مجھے بُبّو سے ورثے میں ملا۔۔۔ جس پر میں ابھی تک کاربند ہوں۔۔۔ کرونا کی وبا کا جب آغاز ہوا اور ٹی وی اشتہارات میں بار بار ہاتھوں کو دھونے پر زور دیا گیا تو میں اپنے آپ سے مطمئن تھا، کیونکہ مجھے بچپن سے ہی بار بار ہاتھوں کو دھونے کی بیماری تھی اور اب اس وبا کے دوران میں نے ہاتھ دھونے کے اپنے پچھلے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔۔۔

اس بار میں جب کشمیر بُبّو کے گھر جاؤں گا تو وہاں مجھے یہ باتیں سننے کو نہیں ملیں گی کہ عاطف آگیا ہے، اس کو اچھے طریقے سے برتن دھو کر کھانا دینا اور اس کے گلاس میں کوئی دوسرا بندہ پانی نہ پیے، جھوٹے برتن میں پانی پینا اس کو پسند نہیں ہے، صفائی کے معاملے میں یہ بالکل مجھ پر گیا ہے۔۔۔
اور اس بار وہ وہ مجھ سے ہمیشہ کی طرح یہ بھی نہیں کہہ پائیں گی کہ
“عاطف تم بیاہ کب کرو گے۔۔۔ اتنی لڑکیاں ہیں میری نظر میں، تم بس ایک بار ہاں کہہ دو۔۔۔ میری آنکھوں کے سامنے۔۔۔ کیا ہم تمہارے بیاہ کا کھانا کھانے سے پہلے ہی چلے جائیں گے۔۔۔”
اور وہ ہمیشہ کے لیے چلی گئیں۔۔۔ میرے بیاہ کا کھانا کھائے بغیر!

Advertisements
julia rana solicitors london

الوداع بُبّو!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply