میرے وطن کا نوحہ۔۔ذیشان نور خلجی

پیارے دوست جناب تبسم رسول نے پاکستان کی موجودہ صورتحال کے بارے میں کہا ہے
؂یہاں چپ رہنا ہی بہتر ہے
یہاں لب سینا ہی اچھا ہے
ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور میں تاجدار ہند بہادر شاہ ظفر کی کیا حیثیت تھی؟ سو حکومت سے تو گلہ بنتا ہی نہیں۔ اور ویسے بھی اول روز سے ستو پیے تو سو رہی ہے، کبھی جو نیند میں خلل پڑے بھی تو اس کی دوڑ آٹے، چینی اور پٹرول تک ہی ہے۔ 2014ء کے دھرنے میں مخالفین کی شلواریں گیلی کرنے والے آج اپنی شلواریں گیلی کر بیٹھے ہیں اور بدبو کا یہ عالم ہے کیا اپنے کیا پرائے، سبھی کنارہ کرنے کے چکروں میں ہیں۔ اس لئے حکومت کو تو کیجئے کھڈے لائن۔
ہم بات کرتے ہیں ریاستی اداروں کی۔ لیکن پھر سوال اٹھتا ہے کیا یہاں کوئی ریاست بھی ہے؟ یا جس کے پاس لاٹھی ہے بس وہی بھینسوں کو ہانک رہا ہے؟ چلیں ہم اسے توڑ مروڑ کے ریاست کے معنی پہنا بھی دیں، پھر بھی کیا یہ مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر ہے؟ کہ غاصب فوج جس کو چاہے گھر سے اٹھا لے جائے اور کوئی اس سے پوچھے بھی نہ۔ لیکن سنا ہے یہاں تو باقاعدہ ایک عدالتی نظام بھی موجود ہے جس میں ملزم کو جرم ثابت ہونے پر قرار واقعی سزا دی جاتی ہے۔ تو پھر یہاں کے باشندوں کو کس قانوں کے تحت سرعام اٹھا کر غائب کر دیا جاتا ہے؟ ہاں، مجھے یاد آ گیا یہاں کا عدالتی نظام اگر عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرتا ہوتا تو پھر سانحہ ساہیوال کے مجرم یوں دندناتے نہ پھر رہے ہوتے۔ لہذا ٹھیک ہی ہوتا ہے۔ کالے شیشوں والی، بغیر نمبر پلیٹ کے ایک گاڑی آتی ہے اور جس کو چاہے اٹھا کے لے جاتی ہے۔ پھر ان کی اپنی ہی عدالت لگتی ہے اپنے ہی عدل و انصاف کے معیار ہوتے ہیں اور کوئی خوش نصیب ہو تو کبھی خود یا اس کا بے جان وجود واپس آ جاتا ہے ورنہ پھر ہمیشہ کے لئے نامعلوم افراد کی فہرست میں اس کا نام لکھ دیا جاتا ہے۔
میں سوچتا ہوں پاک فوج کا دعویٰ ہے ہم دنیا کی نمبر ون فوج ہیں اور آئی ایس آئی بھی دنیا کی بہترین ایجنسیوں میں سے ایک ہے۔ تو جب ان کی ناک کے نیچے ریاست کا کوئی شہری لاپتہ کر دیا جاتا ہے تو کیا انہیں معلوم ہی نہیں ہوتا کہ جس عوام کی حفاظت کا حلف انہوں نے اٹھایا ہے اسے زمین کھا گئی یا آسمان؟ اور یار لوگ پہلے کبھی جو دبے دبے سے شکوے کیا کرتے تھے اب ان کا بغض بھی کھل کر سامنے آ گیا ہے۔ کہتے ہیں دراصل یہ فوج کا ہی کام ہے اسی لئے تو اتنی گھمبیر خاموشی ہے۔ میں ان کی باتوں پر کان نہیں دھرتا اور ایک دفعہ پھر سے سینہ چوڑا کر کے کہتا ہوں ہاں، میں اس قوم سے ہوں جس کی فوج دنیا کی نمبر ون فوج ہے۔ وہ میری باتوں کو قہقہوں میں اڑاتے ہوئے سوال اٹھاتے ہیں۔ کیا وہی فوج جو اپنے ہی لوگوں سے برسرپیکار ہے؟ یا وہی فوج جو اپنی ہی ملک کی فاتح ہے؟
فیاض ہاشمی نے کہا تھا
؂ یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیران
اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان
اور بڑے بوڑھے کہتے ہیں1971ء میں بنگلہ دیش کی صورت میں ہم نے آدھا احسان اتار دیا تھا۔ اور مجھے ڈر لگنے لگا ہے کہیں قریب ہی ہم باقی کا آدھا احسان بھی نہ چکا دیں۔
تبسم رسول نے فیصلہ کر لیا ہے
؂یہاں چپ رہنا ہی بہتر ہے
یہاں لب سینا ہی اچھا ہے
لیکن میں تو اک آزاد ریاست کا آزاد شہری ہوں۔ پاک فوج نے میری حفاظت کی قسم اٹھا رکھی ہے سو مجھے تو بولنا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply