شہیدِ ملت۔۔عظمت شہزاد عزمیؔ

پہاڑی لوگ سخت جان ہوا کرتے ہیں، وہ اکثر مسکراتے ہوئے کہا کرتا تھا۔اسلام آباد کی یخ بستہ سرد راتوں میں وہ ہاسٹل میں چائے بناتے ہوئے جب کوئی پہاڑی گیت گنگناتا تھا تو لحافوں میں دبکے ہوئے لڑکے اس کی آواز کی گرمی اور چائے کی بھاپ کو اپنی رگوں میں اُترتا محسوس کرتے تھے۔ رگوں میں منجمد لہو ضوریز کی چائے سے ایسے پگھلنے لگتا تھا جیسے گلیشیئر پہ سورج کی کرن پڑتی ہے تو وہ پگھل جاتا ہے۔بالکل ایسے جیسے عیسیٰ نے مردہ جسم میں روح پھونک دی ہو۔

ضوریز نے گلگت کے گاؤں طور مک میں آنکھ کھولی تھی یہ گاؤں چاروں جانب سے پہاڑوں میں گھرا ہوا تھا۔یہاں کے باسی سال کے آٹھ ماہ تک برف کی چاندی اوڑھے پہاڑوں سے برسرِ پیکار رہتے تھے۔ ضوریز کو پہاڑوں پر جمی برف اور سورج کی تمازت سے پگھلتے گلیشیرز پسند تھے۔ اس کے والدین طورمک کے دو جفا کش جسم تھے جو باہم مل کر زندگی کے پہاڑ کو بخوشی کاٹ رہے تھے۔ خوشی کی ایک وجہ ان کے آنگن میں کھلا پھول ضوریز تھا۔ ضوریز کے والدین شاہراہِ قراقرم پر ایک چھوٹا سا چائے کا ہوٹل چلاتے تھے۔بظاہر یہ چھوٹا سا چائے خانہ تھا لیکن اس پر ہمہ وقت لوگوں کا ہجوم رہتا تھا۔ ان میں کچھ دور دیسوں سے آئے ہوئے مسافر بھی ہوا کرتے تھے جو سالہا سال سے ہنزہ کی سحر انگیزیوں کے شیدائی تھے۔پنجابی سندھی اور بلوچی نوجوانوں کی ٹولیاں بھی اس علاقے کا رخ کرتی تھیں لیکن وادی ہنزہ میں داخل ہونے سے قبل وہ اس چائے خانے پر پڑاؤ کرتے۔یہاں کی یخ بستہ ہواؤں میں چائے کے دو گھونٹ ان کی رگوں میں منجمد ہوتے لہو کو رواں کردیتے۔۔

”ہمارے چائے خانے میں یادیں قید کر لی جاتی ہیں۔“ ضوریز اکثر اس بات کا ذکر بڑے رومانوی انداز سے کرتا تھا۔
”یادیں کیسے قید ہو سکتی ہیں ضوریز؟“
میں نے جب پہلی دفعہ سنا تو حیرت سے اچھل پڑا تھا۔

ایک دفعہ جب ضوریز نے یونہی کھوئے ہوئے لہجے میں اپنے چائے خانے کا ذکر کیا تو پاس بیٹھی مریم نے اپنے کھلے بالوں کو جھٹک کر کہا، “How romantic Zoraiz”
یہ بڑی بڑی کالی آنکھوں والی مریم اپنی آنکھوں میں ضوریز کے سپنے سجائے بیٹھی تھی۔بھورے بالوں اور سبز آنکھوں والا پہاڑی لڑکا کسی بھی دل میں یونہی اتر جایا کرتا تھا۔ہاں تو ضوریز یادیں کیسے قید ہوا کرتی ہیں آپ کے چائے خانے میں؟ میں نے ضوریز سے استفسار کیا۔

ضوریز نے بتایا کہ ان کے چائے خانے میں بے شمار پتھر جمع ہیں۔ بہت سے جوڑے جو مختلف اوقات میں سیر کے لیے آتے وہ اپنے نام کے پتھر ان کے چائے خانے میں رکھ جاتے اور پھر کبھی سالوں بعد دوبارہ اس طرف آ نکلتے تو ہمارے چائے خانے کا رخ کرتے ،جہاں ان کے گزشتہ سفر کی یاد موجود ہوتی۔اس سفر پر دوبارہ آنے والے مسافر ان پتھروں کو دیکھ کر اپنے ماضی میں کھو جاتے تھے۔ ضوریز کا کہنا تھا کہ بعض دفعہ لوگوں کو روتے دیکھ کر وہ خود بھی رونے لگ جاتا تھا۔ ضوریز کی زندگی چائے خانے کے گرد ہی گھومتی تھی۔

وہ ہر روز کاشمی پُل کراس کر کے سکول جاتااور پھر چھٹی کے بعد اپنے والدین کے چائے خانے پر چلا جاتا۔اس کے والدین اسے ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے۔جبکہ ایک دفعہ اس کے ماموں نے کہا تھا کہ ہمارا بچہ بہت لائق ہے اس کو آرمی میں بھیجیں تا کہ یہ آفیسر بن کر ملک و ملت کی خدمت کرے لیکن ضوریز کے ابو کی شدید خوہش تھی کہ وہ ڈاکٹر ہی بنے۔وجہ بھی معقول تھی۔ ایک تو وہ پڑھائی میں بہت لائق تھا اور پھر اس پہاڑی علاقے میں کوئی ڈاکٹر موجود نہ تھا۔اکثر سرد راتوں میں جب کوئی بیمار ہو جاتا تو شہر کے بڑے ہسپتال تک پہنچانے میں بڑی دقت ہوتی تھی۔ کچھ لوگ بروقت ہسپتال نہ پہنچنے کی  وجہ سے انتقال بھی کر چکے تھے۔ ضوریز کو ڈاکٹر بنانے کے پیچھے ان کی یہی خواہش کارفرما تھی۔

ایف ایس سی کے بعد وہ اسلام آباد آیا جہاں اس کو میڈیکل کالج میں داخلہ مل گیا۔پہاڑی جسامت و قامت کے اس طالب علم میں بلا کی سادگی تھی۔اس کی سادہ دلی کا کرشمہ تھا کہ بہت جلد طلبا و طالبات اس کے دوست بن گئے۔دسمبر جنوری کی یخ بستہ راتوں میں اس کے ہاتھ کی بنی ہوئے چائے پینے کے لیے کئی طلبہ و طالبات اس کے کمرے کا رخ کرتے۔ ضوریز کے ہاتھ کی بنی ہوئی چائے رگوں میں منجمد ہوتے لہو کو یوں پگھلا دیتی تھی جیسے کسی گلیشیر کے لیے سورج کی کرن مسیحا بن جاتی ہے۔پانچ سال کا وقت تیزی سے کٹ گیا۔ڈاکٹر بننے کے بعد میں نے کمپلیکس ہسپتال اسلام آباد میں ہاؤس جاب شروع کر دی۔میں ضوریز کو بھی ساتھ رکھنا چاہتا تھالہذا اسے مشورہ دیا کہ وہ بھی یہیں پر ہاؤس جاب کرے تاہم اس نے اسلام آباد میں مزید قیام سے انکار کر دیا۔
”ضوریز اسلام آباد میں ہاؤس جاب کرو گے تو اچھے پیسے کما لو گے“،دوستوں نے اسے سمجھایا۔
”نہیں یار، مجھے اپنے علاقے کی خدمت کرنی ہے اور میں اسی لیے ڈاکٹر بنا ہوں “ اس نے مسکرا کر کہا۔
بس کرو ضوریز، مریم نے برا سا منہ بنا کر کہا۔
تم لوگ نہیں سمجھو گے چلو میں تمہیں چائے پیش کرتا ہوں۔

ضوریزمسیحا کا روپ لیے اپنے پہاڑی گاؤں لوٹ گیا۔اس نے گلگت کے سول ہسپتا ل میں ہاؤس جاب کر لی۔دو برس قبل ہم اس سے ملنے کے لیے گئے تو سب سے پہلے اس کے چائے خانے پر رکے۔وہاں مریم نے بھی پتھر پہ اپنا اور ضوریز کا نام لکھا اور اس پتھر کو ضوریز کی والدہ کے حوالے کر دیا۔ چند ماہ بعد دونوں رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئے۔

آج شہر میں صبح سے افراتفری تھی۔مجھے بھی ہسپتال سے بار بار کالیں آرہی تھیں۔دنیا جب 2020کے استقبال کی تیاریوں میں تھی تو اچانک چائنا میں پھوٹنے والی ایک نئی وبا نے تمام دنیا میں خوف و ہراس پھیلا دیا اور دسمبر کے آخر تک اس وبا نے دنیا کے کئی ممالک کو اپنے لپیٹ میں لے لیا۔ اب اس کے آثار پاکستان میں بھی نمودار ہو چکے تھے۔ میں نے ٹی وی آن کیا تو اس پر بھی خبریں جاری تھیں کہ مختلف ممالک سے آنے والے لوگوں کی سکریننگ نہ ہونے کے باعث پاکستان میں کورونا وائرس کے کیس رپورٹ ہونا شروع ہو چکے تھے۔میں جلدی سے تیار ہوا اور سیدھا ہسپتال پہنچا جہاں ڈاکٹرز کی میٹنگ جاری تھی۔
”ہمارے پاس نہ تو تیسٹ کے لیے کٹس ہیں اور نہ ہی وینٹیلیٹرز“،ڈاکٹر فرحان نے نکتہ اٹھایا۔
”ہمارے پاس حفاظتی سامان بھی تو نہیں ہے۔ اگر دورانِ علاج ہم خود کورونا وائرس کا شکار ہو گئے تو کیا ہو گا“، ڈاکٹر ضمیر نے تشویش بھرے لہجے میں کہا۔
لیکن کچھ بھی ہوہمارے لیے یہ امتحان کا وقت ہے ہمیں اپنی قوم کا ساتھ دینا ہے اور اس کڑے وقت میں جس طرح سرحدوں پر وطن کی حفاظت پہ مامور شیر دل جوان سر دھڑ کی بازی لگا کر وطن کا دفاع کرتے ہیں وہی جذبہ ہمیں بھی درکار ہے۔ڈاکٹر یاسر نے اپنی بات مکمل کرنے کر بعد کہا۔کسی پس و پیش کی گنجائش نہیں کیونکہ یہی وہ وقت ہے کہ جب ہمیں اپنی قوم کی خدمت کا موقع ملا ہے۔ حکومت اپنی طرف سے تمام تر حفاظتی اقدامات کرنے میں مصروف ہے۔مجھے میڈیا پر آگاہی مہم کا انچارج بنایا گیا۔اسی طرح باقی ڈاکٹرز کو بھی مختلف ذمہ داریاں تفویض کی گئیں۔ تقریباً اسی طرح کی میٹنگز ملک بھر کے تمام ہسپتالوں میں ہوئیں۔سوشل میڈیااور الیکٹرانک میڈیا پر کورونا وائرس سے متعلق آگاہی مہم جاری تھی۔میں نے چند ایک حفاظتی تدابیر کا اضافہ کیا اور میڈیا کو ای میل کر دی۔ساتھ ہی اپنے ذاتی پیج پر بھی درج ذیل حفاظتی تدابیر شئیر کر دیں۔۔

تمام قوم حکومت کے دیے گئے احکامات پر سختی سے عمل کرے سماجی تعلقات میں دوری اختیار کی جائے اور صفائی کا خاص خیال رکھا جائے۔ اس کے بعد میں فوراً گھر چلا گیا۔جیسے ہی گھر میں داخل ہوا،میرے بھانجے نے پہلا سوال کیا۔ انکل! کورونا وائرس کیا ہے؟ ہمارے سکول بھی بند ہو گئے ہیں۔

میں نے سمجھایا بیٹا گھبرانے کی بات نہیں بس ہمیں سماجی تعلقات کم کرنے ہوں گے۔لوگوں سے ہاتھ ملانے سے گریز کرنا ہوگا۔ صابن سے بار بار ہاتھ دھوئیں گے تو کورونا ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔کھانا کھا کر میں بستر پر دراز ہو گیا۔ابھی آنکھ لگی ہی تھی کہ میرے موبائل کی گھنٹی بجنا شروع ہو گئی۔میں نے جونہی فون اٹھایا تو دوسری طرف ڈاکٹر مریم تھی۔
”کیا بات ہے مریم خیریت تو ہے نا“، میں نے تشویش بھرے لہجے میں پوچھا۔
ڈاکٹر ضوریز تو ٹھیک ہے نا؟مریم کے جواب دینے سے پہلے ہی میں نے اگلا سوال کر دیا،مریم روہانسی ہو کر کہنے لگی، ”بھائی جان کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے“
لیکن ہوا کیا ہے؟ میری تشویش بڑھ چکی تھی۔مریم نے بتایا کہ کچھ دن قبل چائنا سے کچھ بزرگ آئے تھے جو شدید بخار میں مبتلا تھے۔ ضوریز کل شام ڈیوٹی سے لوٹے تو ہسپتال سے فون آ گیاکہ دونوں مریضوں کی طبیعت ناساز ہے۔ ضوریز فوراً ہسپتال چلے گئے۔صبح لوٹے تو ان کو بھی بخار تھا۔میرے منع کرنے کے باوجود آج وہ پھر ڈیوٹی پر چلے گئے۔
اور اب اب۔۔۔مریم رونے لگی۔
ہاں ہاں مریم آگے بولو کیا ہوا؟ میں نے پریشان ہوتے ہوئے پوچھا
بھائی جان آپ پلیز آجائیں میرا دل بہت گھبرا رہا ہے۔ ہسپتال سے اطلاع ملی ہے کہ ان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔

نیند میری آنکھوں سے ہوا ہو چکی تھی۔ میں نے فوراً گاڑی نکالی اور گلگت کی طرف روانہ ہو گیا۔
بارہ گھنٹے کی طویل مسافت کے بعد میں گلگت کے ہاسپٹل پہنچا تو مریم ایمرجنسی وارڈ کے باہر بیٹھی رو رہی تھی۔
میں نے اس کو حوصلہ دیا اور ضوریز کے کمرے میں چلا گیا جہاں اس کا علاج جاری تھا۔
ڈاکٹر ضوریز آنکھیں کھولو۔میں طارق ہوں تمہارا دوست۔

میری آواز سنتے ہی ضوریز نے ذرا سی آنکھیں کھولیں۔میں نے قریب ہو کر اس کے دل کی دھڑکن چیک کی جو بہت آہستہ چل رہی تھی۔اس کو سانس لینے میں بھی دشواری تھی۔
میں نے فوراً پیرا میڈیکل سٹاف کو ہدایات دیں کہ ڈاکٹر ضوریز کو وینٹیلیٹر پر منتقل کیا جائے۔ ضوریز نے ذرا سے لب وا کیے جیسے وہ کچھ کہنے کی کوشش کر رہا ہو۔
میں نے کان اس کے لبوں کے قریب کیے تو وہ ٹوٹی پھوٹی آواز میں ان مریضوں کے بارے میں پوچھنے لگا۔
”طارق! قرنطینہ میں موجود بزرگ کیسے ہیں؟ “
وہ ٹھیک ہیں ضوریز“، میں نے اپنے آنسو ضبط کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے کہا۔

مریم بتا چکی تھی کہ ضوریز رات دن ان کی دیکھ بھال میں مصروف رہا۔ اب ان کی حالت خطرے سے باہر ہے۔ اسی دوران وہ خود کورونا وائرس کا شکا ر ہو گیا۔
ڈاکٹر ضوریزنے ان کی خیریت دریافت کرنے کے بعد آنکھیں بند کر لیں۔اس کے چہرے پر عجیب سا سکون تھا۔اس کی سانس تھم چکی تھی۔
ڈاکٹر ضوریز! ڈاکٹر ضوریز!میں نے دو دفعہ بلایا لیکن اس نے میری بات کا کوئی جواب نہ دیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

وہ ہم سب پر بازی لے گیا تھا۔ وہ پہلا شہیدِ ملت تھا جس نے اپنے فرض کی خاطر جان دے دی۔ سورج کی کرن نے منجمدگلیشیرز کو پگھلا دیا تھا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply