• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ماسکو میں آزاد کیلی فورنیا کے ”سفارت خانے” کا قیام۔۔۔

ماسکو میں آزاد کیلی فورنیا کے ”سفارت خانے” کا قیام۔۔۔

امریکہ دنیا کی سپرپاور،سیاہ و سفید کا مالک اور عالمی فیصلہ ساز ملک خود ہی اندرونی سیاسی بحران کا شکار ہوچکا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی غیرمتوقع جیت نے جہاں پوری دنیا پر سکتہ طاری کردیا ہے وہاں امریکی عوام ابھی تک اس جھٹکے سے باہر نہیں نکلے۔ امریکی اعلیٰ اقدار صنفی امتیاز اور مردانہ ذہنیت کی بھینٹ چڑھ گئیں۔ امریکہ جو جدید جمہوریت کا چیمپئن ہے آج سسک رہا ہے۔ ٹرمپ کا صدر بننا امریکی عوام کے لئے ایک سانحے سے کم نہیں ہے۔ اس لئے امریکہ کی کئی ریاستوں میں علیحدگی پسند تحریکیں زور پکڑ چکی ہیں۔ جن میں امریکی ریاست کیلی فورنیا خاصی اہمیت کی حامل ہے۔ امریکہ جو بنیادی طور پر مختلف اقوام کا مجموعہ ہے۔ امریکی کبھی بھی ایک قوم نہیں ہوۓ،بلکہ مفادات کے تحفظ اور اپنی بقاء کے لئے اکٹھے چلتے آرہے ہیں۔
اگر امریکہ باشندوں کا بغور جائزہ لیا جاۓ تو کسی کا باپ پولش ہے اور ماں کینڈین، اسی طرح کسی کی ماں آئرش اور باپ افریقی ہے۔ یعنی کہ امریکی عوام ایک قوم نہیں ہیں بلکہ یہ تارکین وطن کا ایک ہجوم ہے جنہوں نے اپنی شناخت امریکن نام سے بنائی ہوئی ہے۔
اس سارے تناظر میں امریکی وحدت کا قائم رہنا یا وحدت کا ٹوٹنا دونوں بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ مختلف اقوام کا ایک ایجنڈے پر متفق ہونا بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے لیکن صدارتی الیکشن کا ہونا اور پھر علیحدگی پسند رجحانات میں تقویت آنا لمحہء فکریہ ہے۔ امریکی عوام کو یہ پختہ یقین تھاکہ ٹر مپ کبھی بھی صدر نہیں بن سکتے لیکن ٹرمپ کی اپ سیٹ جیت نے جہاں دنیا پر امریکی اقدار کی موت کا پیغام دیا ہے وہیں امریکہ کے صدارتی نظام کا پول بھی کھل گیا ہے۔اس تناظر میں ہم دیکھتے ہیں امریکہ کے موجودہ صدارتی انتخابات نے جہاں امریکی عوام کو تقسیم کیا ہے وہیں پر امریکی اسٹیبلشمنٹ بھی تقسیم ہوچکی ہے۔الیکٹورل ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے باوجود ٹرمپ کا کامیاب ٹھہرنا انہیں وائٹ ہاؤس میں داخلے سے اب کوئی نہیں روک سکتا ہے۔ان تمام وجوہات کو مدنظر رکھتے ہوۓ امریکی ریاست کیلیفورنیا کی آزادی کادفتر”سفارت خانے ” کے نام پر ماسکو میں کھول دیا گیا ہے۔
یہ خبر دنیا کے لئے عجیب نوعیت کی ہے کیونکہ ساری دنیا کے باغی امریکہ و برطانیہ میں سیاسی پناہ لیتے تھے اور آج امریکی باغی ”ماسکو” میں اپنی علیحدہ سرگرمیوں کا آغاز کررہے ہیں۔ لاس اینجلس ٹائمز اور سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ نیوز میکس نے ۲۱ دسمبر کو یہ خبر بریک کی تھی کہ

Advertisements
julia rana solicitors

&The calexit movement has opened its own embassy" in Moscow in what organizers say it the next step in the effort to have California secede from the United states."
یعنی کہ کیلیفورنیا کی امریکہ سے آزادی کی تحریک ”کلیگزٹ” نے ماسکو میں اپنا سفارت خانہ کھول دیا ہے۔ یہ تحریک برطانوی طرز”بریگزٹ” کی طرح ہے جس کو یورپی یونین سے علیحدگی کے لئے چلایا گیا تھا۔ اور بریگزٹ کامیاب بھی رہی تھی۔اب کیلیفورنیا نے اپنے آپ کو امریکی یونین سے علیحدہ کرنے کی غرض سے کلیگزٹ تحریک آغاز ماسکو میں اپنے سفارت خانے کے قیام سے شروع کردیا ہے۔ کیلیفورنیا امریکہ کی امیر ترین ریاست تصور کی جاتی ہے اور امریکی معیشت کا ستر فی صد انحصار کیلی فورنیا پر ہے ہے۔اس لئے امریکی اسکو ”گولڈن سٹیٹ بھی کہتے ہیں۔ اگر کیلی فورنیا امریکہ سے الگ ہوگئی تو باقی امریکہ کی وقعت کیا رہے گی؟
اس ساری صورت حال میں نئے امریکی صدر کے لئے سب سے بڑا چیلنج اس بغاوت پر قابو پانا اور امریکی استحکام کو دوام بخشنا لازمی ہوگا۔ ٹرمپ کی عالمی پالیسی اور تجارت کی منصوبہ بندی سب کے سامنے ہے۔ اس لئے ٹرمپ کو اب مزید سنبھل کر چلنا ہوگا کیونکہ امریکی کاروباری طبقہ بهی ٹرمپ کا مخالف ہو چکا ہے اور اگر امریکہ نے عالمی منڈی میں چائنہ اور روس کو نیچا دکھانےکی کوشش کی تو کیلیفورنیا کا سقوط ہوکر رہے گا.

Facebook Comments

محمود شفیع بھٹی
ایک معمولی دکاندار کا بیٹا ہوں۔ زندگی کے صرف دو مقاصد ہیں فوجداری کا اچھا وکیل بننا اور بطور کالم نگار لفظوں پر گرفت مضبوط کرنا۔غریب ہوں، حقیر ہوں، مزدور ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply