• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • تحفظ ختم نبوتﷺ اور الیکشن قوانین میں حالیہ ترمیم۔۔۔ محمد احسن سمیع

تحفظ ختم نبوتﷺ اور الیکشن قوانین میں حالیہ ترمیم۔۔۔ محمد احسن سمیع

جب ہر ذی شعور اس لاقانونیت کی مذمت کر رہا تھا، تو پس پردہ ہدایت کاروں کو ایک نئے شوشے کی اشد ضرورت تھی جو عوامی توجہ قانون کی ان کرچیوں سے ہٹا سکے ، جو بوٹوں کی ٹھوکر سے ملکی میڈیا پر جابجا بکھری پڑی تھیں۔ حسب سابق ایک بار پھر اس مقصد کے لئے اپنے آزمودہ کار گماشتوں کو ایک نیا ٹرک بتی سمیت راتوں رات فراہم کر کے افواہوں کی آلودگی پھیلانے کے لئے چھوڑ دیا گیا۔ جو ٹاسک شیخ رشید جیسے گماشتوں کو دیا گیا تھا، اس میں وہ کسی حد تک کامیاب رہے اور اب دو دن سے لوگ “رُول آف لاء” کے شاندار مظاہرےکو بھلا کر حکومت کے قادیانیت نواز ہونے پر لعن طعن کر رہے ہیں۔ ختم نبوت ﷺ ایک انتہائی حساس مسئلہ ہے جس سے عوام کی جذباتی وابستگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، اسی لئے اس بار اپنی چیرہ دستیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے ایسے مسئلے کا انتخاب کیا گیا جس میں اصل بات ہمیشہ جذباتی واہموں کے شور میں دب کر رہ جاتی ہے۔ بحیثیت مسلمان میرا حضور اکرم حضرت محمدِ عربی ﷺ کی ختم نبوت پر غیر مشروط اور کامل ایمان ہے اور میں اس تحریر کی ابتدا میں ہی اس بات کا حلفاً اقرار کرتا ہوں تاکہ آگے چل کر کسی شک کرنے کا موقع نہ مل سکے۔

بعد از تمہید عرض ہے کہ یہ سارےکا سارا مسئلہ عوامی غلط فہمی اور سیاسی تعصب کا نتیجہ ہے۔ چونکہ مسئلہ انتہائی نازک ہے اس لئے اس ضمن میں حتی ٰالامکان احتیاط لازم ہے، اسی لئے مولانا فضل الرحمٰن صاحب نے اس بابت پارلیمانی پارٹی کا اجلاس بلا کر اس حوالے سے عوامی تحفظات اورا منگوں کے مطابق ترامیم کے لئے حکومت سے بات کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو کہ یقیناً احسن اقدام ہے۔تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ جو کمی بیشی رہ گئی ہو اسے سیاسی تعصب کے زیر اثر فی الفور بدنیتی پر محمول تصور کر لیا جائے! ن لیگ اور نواز شریف کا قادیانیت نوازی کا کوئی سابقہ ریکارڈ نہیں جس کے پیش نظر کہا جائے کہ دانستہ طور پر قادیانیت کو کوئی فائدہ پہنچانے کے لئے حالیہ ترامیم کی گئی ہیں۔ حالیہ ترامیم کا قانونی مسودہ پارلیمنٹ میں موجود علمائے کرام کی نظروں سے گذر چکا تھا ، اور چونکہ اس سے قادیانیوں کی مذہبی کیفیت میں قانوناً کوئی تبدیلی نہیں ہورہی تھی اسی لئے اس بابت کسی جانب سے کوئی اعتراض سامنے نہیں آیا، حتیٰ کہ ان کی بھی طرف سے کوئی اعتراض نہیں اٹھایا گیا جو شیخ رشید کے فتوے کے بعد سے ختم نبوت ﷺ کے چیمپئن بنے بیٹھے ہیں۔کوئی مجھے تحریک انصاف، جماعت اسلامی سمیت کسی بھی جماعت کے ایک بھی پارلیمانی ممبر کا قانون منظور ہونے سے قبل کا بیان دکھادے جس میں اس نے اس جانب نشاندہی کی ہو کہ حکومت کیا “کھیل” کھیلنے جا رہی ہے۔

جب سینٹ میں صرف ایک ووٹ کی برتری سے ، بقول ناقدین، ختم نبوت ﷺ پر معاذ اللہ ڈاکا ڈالا جا رہا تھا، اس وقت تو امیرالصالحین سراج الحق صاحب کلمہ حق بلند کرنے کے بجائے ستو پی کر آرام فرمانے چلے گئے۔ جب ان کاایک ووٹ واقعی کوئی فرق ڈال سکتا تھا تو موصوف نے اس کا استعمال ہی نہیں کیا، نہ ہی پارلیمان سے باہر اس جانب نشاندہی کی۔صالحین جواب میں کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت ان سے غلطی ہو گئی ، مگر اب وہ اس کا ازالہ کر رہے ہیں، تو بھائی یہی غلطی والی منطق حکومت کی باری کیوں بھول جاتی ہے؟ وہاں تو آپ معاذ اللہ واقف القلوب بن کر فوراً دیدہ دانستہ بدنیتی کے فتوے ٹھوک دیتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن اور ان کے متبعین کی باری آپ کی تمام خوش گمانیاں ہوا ہو جاتی ہیں اور آپ سیدھے ان لوگوں کے ایمان کوہی برائے فروخت قرار دے دیتے ہیں جن سے آپ کامحض سیاسی اختلاف ہے۔ ناموس رسالت ﷺ اور ختم نبوت ﷺ کو دوکوڑی کے سیاسی فائدوں کی بھینٹ چڑھانے کا جو یہ رواج ملکی امور کے پس پردہ زمام کاروں نے پروان چڑھایا ہے، اس کی زد سے صرف وہی محفوظ رہیں گے جنہوں نے اپنے ہر جائز ناجائز فعل کے لئے آئینی تحفظ حاصل کررکھا ہے ۔جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا، یہ سارا معاملہ مخصوص قوتوں کے سیاسی تعصب اور اس بابت عوامی جذباتیت اور غلط فہمی کا ہے۔ پراپیگنڈاکے برعکس، حقائق کچھ اور ہیں جن ذیل میں جائزہ لیتے ہیں۔

۱) سب سے موثر پراپیگنڈا جو کیا گیا وہ یہ تھا کہ خدانخواستہ قادیانیوں کی آئینی حیثیت تبدیل کردی گئی ہے۔ عوام نے ختم نبوتﷺ سے اپنی جذباتی وابستگی کے زیر اثر فوراً اس پراپیگنڈے کو قبول کیا، نتیجتاً ترمیم لانے والے شاک میں آگئے اور جھوٹ پر اپنی سیاسی عمارت تعمیر کرنے والوں کو کھل کر کھیلنے کا موقع مل گیا۔ کسی نے ایک لمحے کو یہ نہ سوچا کہ قادیانیوں کی آئینی حیثیت تبدیل کیسے ہو سکتی ہے جبکہ یہ معاملہ آئینی ترمیم کا ہے ہی نہیں! یہ تو انتخابی قوانین میں ترامیم کا معاملہ تھا جس کا قادیانیوں کی “آئینی حیثیت” سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ قادیانیوں کے دائرہ اسلام سے خارج ہونے کو آئینی تحفظ حاصل ہے جو دوسری آئینی ترمیم کے ذریعے آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 260 میں “مسلمان” کی آئینی تعریف بیان کر کے طے کر دی گئی ہے۔ اب اس میں کوئی بھی تبدیلی کرنے کے لئے آئینی ترمیم ہی درکار ہے جو دو تہائی اکثریت کے بغیر ممکن نہیں ۔ موجودہ پارلیمانی صورتحال میں ن لیگ کے لئے اپنے اتحادیوں سمیت بھی کوئی بھی آئینی ترمیم کرنا ناممکن ہے کیونکہ اسے قومی اسمبلی میں بھی بمشکل دو تہائی اکثریت حاصل ہے جبکہ سینٹ میں یہ اقلیت میں ہے۔ پھر ایسی کسی بھی ترمیم کی جے یو آئی کی جانب سے حمایت بعید از قیاس ہے (بلکہ میں تو کسی بھی مسلمان ممبر کی جانب سے ایسی ترمیم کی حمایت کی بدگمانی  نہیں کر سکتا)۔ آئینِ پاکستان میں قادیانیوں کا غیر مسلم ہونا آج بھی واضح طور پر درج ہے، جبکہ آرٹیکل 106 میں مخصوص نشستوں کی تخصیص کے ذیل میں بھی ان کے تمام گروہوں کی آئینی حیثیت بطور غیر مسلم ہی متعین ہے۔

۲) پھر یہ کہا گیا کہ اب قادیانیوں کے لئے سربراہ حکومت ( یعنی وزیر اعظم ) بننے کا راستہ ہموار کردیا گیا ہے۔ بھائی جب آئینی حیثیت ہی تبدیل نہیں ہوئی تو قادیانی سمیت کوئی بھی غیر مسلم وزیر اعظم کیسے بن سکتا ہے! آئینِ پاکستان کا آرٹیکل 91 آج بھی یہی بیان کرتا ہے کہ وزیر اعظم کا انتخاب قومی اسمبلی کے “مسلم” اراکین میں سے ہی کیا جائے گا۔پھر اسی آرٹیکل 91 کے تھرڈ شیڈول میں وزیر اعظم کے حلف کا بیان بھی شامل ہے جس میں وہ اللہ کی وحدانیت، رسول اکرم حضرت محمد ﷺ کی رسالت اور ختم نبوت پر ایمان رکھنے کا حلف اٹھاتا ہے۔ قوم کو اقرار نامے اور بیان حلفی کی بحث میں الجھا کر اپنی خفت مٹانے والوں کا نجانے اس جانب دھیان کیوں نہیں جاتا!

۳) جب یہ واضح ہو گیا کہ یہ معاملہ آئینی ترمیم کا تھا ہی نہیں تو غلطی کااعتراف کرنے کے بجائے نیا شوشہ چھوڑا گیا کہ نئے قانون میں لفظ حلف ختم کر کے ختم نبوت کے ڈیکلیئریشن کو غیر موثر کر دیا گیا ہے۔ اب اس کی حیثیت سادے اقرار نامے کی ہے جس میں غلط بیانی کی وجہ سے آئین کے آرٹیکل 63-62 لاگو نہیں ہوں گے۔ اس طرح قادیانیوں کو چور دروازے سے وزارت عظمیٰ  کاراستہ دے دیا گیا ہے وغیرہ وغیرہ۔
پہلی بات تو یہ کہ الیکشن فارمز کوئی ردی کاغذ نہیں، قانونی دستاویز ات ہیں اور قانونی دستاویزات میں کسی بھی قسم کی غلط بیانی قابل تعزیر جرم ہے۔ اب چاہے فارم میں “میں حلفاً اقرار کرتا ہوں” لکھا ہویا “میں اعلان کرتا ہوں” لکھا ہو، قانونی نتائج کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ آئین کا آرٹیکل 62 “صداقت” کی کوئی تعریف بیان نہیں کرتا کہ یہ کہا جائے کہ بیانِ حلفی میں جھوٹ بولنے سے انسان صادق نہیں رہتا ، لیکن ویسے جھوٹ بولنے سے صداقت قائم رہتی ہے۔ کیونکہ آئین پاکستان میں صداقت و امانت کا تذکرہ مذہبی حوالے سےہے اس لئے جب بھی اس کی تشریح کی جائے گی تو اسلامی اصولوں پر ہی کی جائے گی۔ اب میرا ناقدین سے سوال ہے کہ وہ اس شرعی کلیہ کا حوالہ دیں جس کی بنا پر ان کا موقف ہے کہ بیان حلفی نہ ہونے  کی وجہ سے اس معاملے میں دورغ گوئی پر آرٹیکل 62 لاگو نہیں ہوگا۔
ثانیاً بالفرض اگر اس “چور دروازے ” سے کوئی قادیانی  وزارت عظمیٰ کی دہلیز پر پہنچ بھی جاتا ہے تو وہاں بھی ایک آئینی دیوار آرٹیکل 91کی صورت میں موجود ہے۔ اگر کوئی دھوکہ دہی کے تحت حلف اٹھا بھی لے تو جیسے ہی اس کا کفر واضح ہوگا، وہ ازخود اس عہدے سے نااہلیت کی بنا پر برطرف ہو جائے گا۔ اگر ازخود نہ بھی ہو تو کوئی بھی صاحب ایمان شخض اس کے خلاف کیس کرکے اسے تاحیات انتخابی سیاست سےناہل کروا سکتا ہے۔ اب اگر کوئی یہ کہے کہ اس کا کفر پوشیدہ رہے تو پھر کیا ہوگا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بھائی ایسی صورت میں پرانے قانون میں کونسی پرووژن تھی؟ اگر کوئی قادیانی اپنے کفر کو اس قدر پوشیدہ رکھنے میں کامیاب ہو کہ اتنے مرحلوں سے گزرنے کے باوجود بھی وہ مخفی ہی رہے، تو بھیا اس کا آپ گزشتہ انتخابی قوانین تو کیا، آئین پاکستان کے ذریعے بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتے ، الاّ یہ کہ اس کا کفر از خود سامنے آجائے۔
ثالثاً یہ مفروضہ ہی غلط ہے کہ کہ نئے انتخابی فارم میں بیان حلفی کو ختم کر دیا گیا ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ پرانے قانون کے تحت ہر فارم میں الگ الگ بیان حلفی دینا پڑتا تھا جبکہ نئے قانون کے تحت پیش کردہ تمام معاملات کی حلفاً تصدیق فارم کے اختتام تک موخر کر دی گئی ہے۔ امیدوار اب بھی اپنے ختم نبوت ﷺ پر غیر مشروط ایمان کی حلفیہ تصدیق، جس کے لئے انگریزی میں “سولمن افرمیشن” کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔ اس چھوٹی سی بات کو “بہت باریک قانونی نکتہ” بنا کر پیش کیا جارہا ہے اور اسی بنیاد پر قادیانیوں کی آئینی حیثیت کی تبدیلی کا شور بھی مچایا جارہا تھا۔ قانونی معاملات سے وابستہ افراد کے لئے “اوتھ” اور “سولمن افرمیشن” جیسے الفاظ کا باہمی متبادل ہے اچھنبے کی بات نہیں، پھر بھی جان بوجھ کر محض سیاسی تعصب کے زیر اثر پراپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ عوامی اطمینان کے لئے بہتر یہی ہوگا کہ پرانے الفاظ بحال کر دیئے جائیں تاکہ کسی قسم کا ابہام باقی نہ رہے۔

۴) اتنی چیزیں واضح ہوجانے کے بعد بھی کیونکہ غلطی کا اقرار کرنے سے ناک نیچی ہوتی ہے اس لئے ایک اور اعتراض داغ دیا جاتا ہے کہ اگر یہ اتنی ہی معمولی بات ہے تو قانون سے چھیڑ چھاڑ کی ہی کیوں گئی؟ کیا ضرورت تھی ایک غیر متنازع عبارت کو تبدیل کرنے کی ! جواباً عرض ہے کہ مذکورہ قانون کا اصل مقصد، جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، انتخابی اصلاحات ہیں جس کے ذریعے بہت سی چیزوں کو سپملیفائی کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ قادیانیوں کی آئینی حیثیت کا تعین کبھی اس کا اصل مقصد تھا ہی نہیں۔ بہت سے انتخابی فارمز کو جب سمپلیفائی کیا گیا ہوگا تو یہی سوچا گیا ہو گا کہ جگہ جگہ حلف کا تذکرہ کرنے  کےبجائے فراہم کردہ تمام معلومات پر آخر میں ایک دفعہ حلفاً اقرار کروا لیا جائے کہ یہ درست ہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ طویل فارمزمیں فرداً فرداً حلف کا تذکرہ کرنےکی صورت میں یہ ممکن تھا کہ کہیں کسی اہم جگہ پر کوئی کمی بیشی رہ جاتی یا کوئی لوپ ہول تلاش کر لیا جاتا۔ میری ا س خوش گمانی کی وجہ یہ بھی ہے کہ ایسا صرف ختم نبوت ﷺ والے فارم کے ساتھ نہیں ہوا، تمام فارمز کے ساتھ یہی معاملہ ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ بادی النظر میں یہ معاملات کو سمپلیفائی کرنے کی کوشش ہے، جبکہ قانون سازوں کے پیش نظر حتمی نتیجہ وہی ہے جو اس سے قبل تھا۔ یہ زیادہ سے زیادہ الفاظ کی قانونی تعبیرات کا فرق ہے ۔ اس سے پہلے والے فارم کے الفاظ بھی معاذا للہ کسی وحی پر مبنی نہیں تھے کہ ان کا بس ایک متعین مطلب لیا جاسکے۔ اگر آپ اسے قانون سازوں کی بد نیتی پر محمول کرتے ہیں تو پھر اس دانستہ بدنیتی کو ثابت کرنا بھی آپ کے ذمہ ہے کیونکہ شریعت اور قانون دونوں اپنی اصل میں نیت کو صحیح تسلیم کرتے ہیں الاّ یہ کہ اس کے برعکس کوئی ٹھوس شواہد ہوں۔

۵) آخری مسئلہ الیکشن کنڈکٹ رولز 2002 کے ان سیکشنز کی تنسیخ سے متعلق رہ جاتا ہے جن کے مطابق کوئی قادیانی اپنے آپ کو بطور مسلم ووٹر رجسٹر نہیں کروا سکتا تھا۔ مذکورہ قانون 2002 میں اس وقت رائج ہو ا تھا جب پرویزمشرف نے جداگانہ طرز انتخاب کو منسوخ کرتے ہوئے مخلوط طرز انتخاب رائج کیا تھا جس کے تحت کسی بھی مذہب کا پیروکار کسی بھی امیدوار کو ووٹ دے سکتا ہے۔ یہاں ان شقوں کو صرف ابہام دور کرنے کی خاطر متعارف کروا گیا تھا کہ مخلوط طرز انتخاب کا نظام رائج ہونے سے بھی قادیانیوں کی آئینی حیثیت غیر مسلم کی ہی رہے گی۔ بالفرض اگر یہ شقیں متعارف نہ بھی ہوتیں تب بھی قانونی نتائج کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور کسی قادیانی کا خود کو بطور مسلم ووٹر رجسٹر کروانا جرم ہی رہتا کیونکہ امتناع قادیانیت آرڈیننس نامی قانون ان لوگوں کو بطور مسلمان شناخت کروانے سے قانوناً روکتا ہے۔ جیسے ووٹر لسٹ میں کسی اور ذیل میں غلط معلومات کے ذریعے رجسٹریشن کروانے والے کا ووٹ چیلنچ کیا جاسکتا ہے اسی طرح کسی قادیانی کا بطور مسلم ووٹر رجسٹرڈ ووٹ بھی چیلنج ہو سکتا ہے۔ گو نتائج کے اعتبار سے اب بھی کوئی فرق نہیں لیکن معاملے کی نزاکت کے پیش نظر یہ مطالبہ عین مناسب ہے کہ ان شقوں کو بحال کر کے عوامی اطمینان کی فضا پیدا کی جائے اور تمام ابہامات دور ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors

آخر میں پھر یہی کہوں گا کہ تحقیق کے بغیر نتائج اخذ کرنے کی عادت سے جان چھڑائیں اور براہ راست نیتوں پر حملہ آور ہونے کے بجائے معاملے کو سیاق وسباق کے ساتھ دیکھ کر تجزیہ کریں اور نتیجہ اخذ کریں۔ حالیہ قانونی ترامیم کا مقصد سب جانتے ہیں کیا تھا۔ ختم نبوتﷺ اسکا موضوع تھا ہی نہیں تو کوئی کیوں دیدہ و دانستہ اس کے ساتھ کھلواڑ کرے گا؟ بجائے کسی کی وضاحت سننے کے، اپنی مرضی کے نتائج اخذ کرنے کی یہ روش ہماری سوچنے سمجھنے کی رہی سہی صلاحیت بھی ختم کردے گی۔مجھے پارلیمان میں دین کی نمائندگی کر رہے علماء پر اعتماد ہے کہ وہ ناموس رسالت ﷺ اور ختم نبوت ﷺ جیسے حساس معاملا ت پر کبھی کمپرومائز نہیں کریں گے اور نہ ہی ایسی کسی سازش پر خاموش رہیں گے۔ انہیں کے آباء کی قربانیوں سے تو تحفظ ختم نبوتﷺ کا معرکہ سر ہوا تھا، جبکہ ناقدین کی اکثریت کی اس معاملے سے دلچسپی فقط اتنی ہے کہ یہ کام نواز شریف کی حکومت نے کیا تھا اس لئے یقیناً بدنیتی پر مبنی ہوگی۔ وگرنہ یہی لوگ سارا سال علماء کرام کو قادیانیت کی مخالفت پر جاہل، وحشی اور تنگ نظر کہہ کر لتاڑ رہے ہوتے ہیں اور امتناع قادیانیت آرڈینس ان کی نظر میں کالا قانون ہے۔

Facebook Comments

محمد احسن سمیع
جانتے تو ہو تم احسنؔ کو، مگر۔۔۔۔یارو راحلؔ کی کہانی اور ہے! https://facebook.com/dayaarerahil

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply