• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • انسانم آرزوست مصنف ڈاکٹر محمد امین۔۔تبصرہ:مہر سخاوت حسین(مجلس 1)

انسانم آرزوست مصنف ڈاکٹر محمد امین۔۔تبصرہ:مہر سخاوت حسین(مجلس 1)

انسانم آرزوست، ڈاکٹر محمد آمین کی کتاب ہے جو چالیس مجالس پر مشتمل ہے ۔یہ چالیس نشستیں ہیں ،جن میں مختلف کردار ہیں۔ان میں ابوالحسن کا کردار مرکزی ہے۔راقم روزانہ ایک مجلس اپلوڈ کرے گا تاکہ تمام لوگ اس سے مستفید ہو سکیں ۔۔
مجلس نمبر 1
آج کی مجلس میں گرد سے اٹا ہوا ایک مسافر آیا۔اور یوں گویا ہوا۔ابوالحسن! میں نے چالیس سال تک درسگاہوں کی خاک چھانی۔ہرعلم پڑھا۔مگر مجھے کچھ معلوم نہیں۔میں اب تھک چکا ہوں۔بتا کہ علم کیا ہے؟
ابوالحسن نے انگلیوں سے آنکھوں کو کھولا اور کہا، مسافر سن، علم پر بندے کا اختیار نہیں۔یہ خدا کی عطا ہے ۔علم اکتسابی نہیں ہوتا۔یہ ذات باری کا انعام ہے۔اور وحی اس کا معتبر ذریعہ ہے۔انسان صرف یہ جانتا ہے وہ پہلے نہیں جانتا تھا۔اب جانتا ہے۔جو کچھ اس نے جان لیا، اس پر بھی کیا بھروسہ کہ حواس اور عقل ہمیشہ فریب دیتے ہیں۔
ہاں انسان کی لگن سچی ہو،اور محنت کرے،تو خدا اسے اتنا علم دیتا ہے،جتنا اس کے لئے مفید ہوتا ہے۔مسافر، علم نافع کے لئے دعا کیا کرو اور کوشش بھی۔یاد رکھو کہ علم معصوموں کی میراث ہے۔چالاکی عیاری علم کی دشمن ہے۔تم ذات باری کے جتنا قریب ہو گے۔اتنا ہی علم ملے گا۔
ابوالحسن، تخیل تو صرف انسان کی قریحہ ہے۔وہ سوچتا ہے۔تو اسے نئے نئے خیالات سوجھتے ہیں۔مسافر، نہیں۔ہرگزنہیں۔۔ خیالات بھی غیب سے آتے ہیں۔وہ اس کی طبعیت کے مطابق ہوتے ہیں۔جب تمہیں اچانک خیال آتا ہے تو وہ القا ہوتا ہے۔ابوالحسن، پھر حقیقت کیا ہے؟ مسافر، جب تم دیکھتے ہو۔تو حقیقت ہے۔جب سوچتے ہو تو خیال ہے۔پس حقیقت اور خیال میں یہی فاصلہ ہے۔ آنکھیں کھلی ہیں تو شہادت ہے۔آنکھیں بند ہیں۔تو غیب ہے۔مسافر، انسان دریافت کرنے والا ہے، پوشیدہ اور نامعلوم کو دریافت کرتا ہے۔وہ واقف ہے عالم نہیں۔عالم صرف خدا کی ذات ہے۔
ابوالحسن، تو پھر علم ناممکن ہے۔اس کے حصول کے کیا معنی ہیں۔مسافر، شک علم کی ابتداء اور حیرت انتہا ہے۔علم خیر کثیر ہے۔ممکن ہے۔اگر طلب صادق ہو۔اور طلب صادق رضائے الہی کے سوا کچھ نہیں۔علم کی بنیاد مشاہدہ ہے۔اور مشاہدے کی تصدیق خبر سے ہوتی ہے۔اور خبر کا تعلق دل سے ہے۔
یہاں مجلس برخاست ہوئی۔

Facebook Comments