مائیک ٹائیسن، مکے بازی اور موجودہ حکومت۔۔جنید منصور

مائیک ٹائیسن کا نام باکسنگ کی دنیا میں کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔وہ اپنی باکسنگ کی مہارت،پھرتی اور طاقت کی وجہ سے دنیائے باکسنگ میں ایک لیجنڈ کی حیثیت رکھتا ہے۔ جب تک اس نے باکسنگ کی اپنے طاقتور ہکز، پنچز، اپر کٹز، کراسز اور  مخالفین کو ناک آؤٹ کرنے کی شاندار صلاحیت کی وجہ سے رنگ میں حکمرانی کی۔اپنے اوائل میں شائد موجودہ حکومت نے بھی مائیک ٹائیسن سے ہی باکسنگ کی تربیت لی تھی۔

موجودہ حکومت  جب تک اپوزیشن میں تھی اس نے زبرست باکسنگ کی مہارت کا مظاہرہ کیا۔آغاز  اس نے ” جیب” سے لیا۔ ہلکے ہلکے جیبز ، جو اتنے ہلکے بھی نہیں تھےکہ اس کی موجودگی کا احساس نہ دلا  پاتے۔  شروع  شروع میں  ان جیبز کی تعداد اور ان پر  لگائی گئی طاقت دونوں کم تھیں۔ اس نے سابقہ حکومت کو ”سیٹ اپ” کیا اور اس  کو اس بات کا مکمل  اور  شعوری احساس دلادیا  کہ وہ آنے والے دنوں میں ” پاور شیئرنگ ” میں ایک ‘ میجر سٹیک ہولڈر’ بننے جا  رہے تھے۔آہستہ آہستہ  ان جیبز کی  طاقت اورتعداد دونوں میں شدت سے اضافہ ہوتا چلا گیا۔ جیسے جیسے سابقہ حکومت کے  حکومتی دنوں کی تعداد کم ہوتی گئی ان کے مکوں کی طاقت اور تعداد میں خوفناک حد تک اضافہ ہوتا چلا گیا۔ ایک عمدہ باکسر کی طرح اس کے  فٹ  ورک میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔جیسےجیسے الیکشن کے دن نزدیک آتے گئے ملک میں طوفانی دوروں کی  جیسے  ایک سونامی  سی آ گئی۔ ہر جلسہ میں تعدادکے اعتبار سے پنڈال  باالکل ایسے ہی  بھرا ہوتا تھا جیسے نیویارک کا میڈیسن اسکوائر گارڈن کسی بڑے باکسنگ مقابلے کے لیے کھچا کھچ بھرا ہوتا تھا۔پھر ”ہکز” کی باری آ گئی۔ کیا کیا کمال ہکز مارے اس نے جانے والوں کو ، عوام کی داد اور تحسین مسلسل ان کے ساتھ تھی۔ جب کھلاڑیوں کے پیچھے داد دینے والے کراؤڈ بھی ہوں تو کھلاڑیوں کے جوش اور جذبے میں مزید  اضافہ ہی ہوتا ہے۔ اور پھر ہوا بھی کچھ ایسا ہی۔جب الیکشن کی دن نزدیک  آنے شروع ہوئے تو’ اپر کٹز” کی باری آ گئی، پے در پے  اپر کٹز کا ایک دراز سلسلہ شروع ہو ا کہ تھمنے کا نام نہیں لیاتھا۔اس سارے معاملے میں اب اتنا مومینٹم بن چکا تھا کہ اقتدار کے پرانے کھلاڑی جن کی اقتدار پر گرفت بھی بہت اچھی تھی اورپنجاب کی حد تک  کام بھی ، ان کو اس ” سلگ فیسٹ” نے بیک فٹ پر جانے پر مجبو ر کر دیا۔نہ ہی کبھی انہوں نے فرنٹ فٹ پر آ کر جوابی مکہ مارنے کی کوشش کی ، اور نہ ہی ان کو یہ موقع کبھی ملا۔اور پھر الیکشن کے  دنوں میں ” کراس” مکوں کی ایک بارش شروع ہو گئی۔ان میچز کو سننے کے لیے ان دنوں لوگوں کی بڑی تعداد ان جلسوں میں آیا کرتی تھی جن کا آغاز خوبصورت موسیقی سے ہوا کرتا تھا۔پھر ایک دن ایسا بھی آیا جب ”  میچ ڈے ” تھا اور مقابلہ زور و شور سے جاری تھا۔پھر  میچ جیتنے کی خبر ان کو ملی اور حکومت کا ورلڈ ٹائیٹل ان کے نام ہوا۔سب لوگوں نے اس وقت تو کافی خوشیاں منائیں تھیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

وقت کا پہیہ جیسے اچانک گھوم سا گیا۔مکے بازی کے کل کے چیٔمپین آج کچھ عجیب سی صورت حال میں ہیں۔جو مہارت باکسنگ کے میچ میں دکھائی تھی، اب وہ عنقاء ہو گئی ہے۔فٹ ورک بھی انتہائی ” شیکی” نظر آتا ہے۔تبدیلی کے دعوے بھی کہیں کھو سے گئے ہیں۔جو اپر کٹ کی مہارت تھی وہ بھی مفتود ہے۔صورتحال کچھ یوں ہے کہ ہر طرف سے ہلکے ہلکے ” جیبز” پڑ رہےہیں۔ مہنگائی کے جیبز جو جب سے ان کی حکومت شروع ہوئیہے لگاتار اور مسلسل ان کے سروں پر برس رہے ہیں۔دن بدن ابتر سے ابتر ہوتی ہوئی معاشی صورتحال۔ جب آئے تھے تو اس دعوے کے ساتھ آئے تھے کہ اکانومی کو درست کر دیں گے۔اب یوں محسوس ہوتا ہے کہ اکانومی شائد پہلے ہی ٹھیک تھی انہوں نے خوامخواہ ہی زحمت کی۔ایک ” اپر کٹ” تو  آتے ہی ان دو سو ارب ڈالرز کا پڑ گیا تھا جن کے متعلق دعوہ تھا کہ وہ بیرون ملک بینکوں میں پڑے ہیں۔ آتے ہی ان کو ملک میں واپس لایا جائے گا اور ملک میں ہر طرف پیسے کی ریل پیل ہو جائے گی۔مگر یہ ” کراس” سیدھا اپنے ہی منہ پر جیسے پڑ سا گیا ہو۔اس کے بعد  آئی۔ایم۔ایف کے بارے میں کیے گئےبلند و بانگ دعووں کا مقابلہ تھاجو خود کا خود سے ہی تھا۔باکسنگ کی دنیا میں ایسا  شائد سامعین نے پہلی بار دیکھا کہ باکسر نے ” اپر کٹز، جیبز اور  ہکز” کی ایک کثیر تعداد آتے ہی اپنے منہ مار ڈالی ہو اور دوسرا باکسر کھڑا منہ ہی دیکھ رہا ہو۔پھر عید کے موقعے پر باکسنگ کا بڑا ” شدید” اور انتہائی بکواس قسم کا مقابلہ عوام کو زبردستی دکھایا گیا۔ابھی مقابلہ جاری تو ہے مگر لگتا ہے کہ سٹیمنا کم ہوتا جا رہا ہے ۔اور ان تمام باکسرز جن سے یہ حکومت لڑ کر   یہاں تک پہنچی ہے وہ ” چیلنج” کرنے کے لیے تیاری کر رہے ہیں، مگر شائد انہیں دست بدست لڑنے کی نوبت ہی پیش نہ آئے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply