روبرو مرزا غالب اور ستیہ پال آنند

یاد تھیں ہم کو بھی رنگا رنگ بزم آ ٓرائیاں
لیکن اب نقش و نگار ِ طاق ِ نسیاں ہو گئیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ستیہ پال آ نند
یاد ، یعنی حافظہ، رفت و گذشت و بے خودی
یہ سبھی کچھ تھا اگر، تو یہ بتائیں، مہرباں
کیسے اب یہ طاق نسیاں کی سجاوٹ ہو گئیں؟
کیا نہیں ہے یہ خلاصہ مصرع ِ اولیٰ کی ضد؟
مصرع اولیٰ و ثانی کیا نہیں بے قاعدہ؟

مرزا غالب
کیا کہا؟ ان دو مصارع میں تمیز و فرق ہے؟

ستیہ پال آ ٓنند
ہاں، جناب ِ من، اجازت ہو تو میں واضح کروں؟

مرزا غالب
ہاں کہو، دیکھیں تمہاری حاشیہ ٓرائی بھی

ستیہ پال ا ٓنند
مصرع ِ اولیٰ تو تھا مربوط ماضی سے، مگر
مصرع ثانی بھی ماضی کا ہی قصہ ہے، حضور
اس لیے’’ لیکن ـ ‘‘کا استعمال کیا بے جا نہیں؟ٰ
طاق نسیاں بھی قدامت کی علامت ہے ، جناب
دونوں کی طرز و روش میں کوئی کج فہمی نہیں

مرزا غالب
مصرع ِ ثانی میں ’’ـابـ ـ‘‘اعلانیہ ہے حال کا
مصرع اولیٰ توپہلے سے ہی تھاماضی کا قول
ایک ہے ماضی بعید اور دوسرا ماضی قریب
اب سمجھ میں آیا کچھ ؟ اے ستیہ پال آنند، بول

ستیہ پال آنند
اس طرح اثبات سے چل کر نفی تک کا سفر
ایک ہی لمحے میں طے کرنا مری فطرت نہیں
اب کہاں ہیںطاق نسیاں کے سبھی نقش و نگار؟
طاق ِنسیاں باقیات اپنی تو پہلے کھو چھکا
حافظہ ؟ از یاد رفتہ، بھولا بسراہو چکا
اور اس کے ساتھ رنگا رنگ بزم آرائیاں
اب تو سب کچھ غیر اغلب، یاد سے گم ہو چکا
کچھ اگر باقی ہے تواک واہمہ، مبہم خیال

مرزا غالب
تم نہیں سمجھو گے یہ پیچیدہ نکتہ، ستیہ پال
جیسے سمجھو ہو ، سمجھ لو اپنے کچے ذہن میں
پر مجھے لغزش کا یا بطلان کا طعنہ نہ دو

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments