مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی ۔۔رپورٹ،شاہد ہ مجید

گزشتہ دنوں ایک وڈیرے کے ہاتھوں ایک غریب لڑکی کے بہیمانہ قتل کے واقعے نے ہر ذی شعور ذہن اور حساس دل کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا ۔گو کہ عورتوں کے ساتھ ایسے ظلم کے واقعات نئے نہیں ہیں عورتیں عشروں سے استحصال کا شکار ہوتی چلی آئی ہیں ۔لیکن قابل فکر بات یہ ہے کہ پچھلے کچھ برسوں میں عورتوں کے ساتھ ظلم و ستم کے واقعات میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے ۔۔عورتوں کے خلاف ان جرائم میں جبر و تشدد، زیادتی،قتل ،اغوا ،تیزاب گردی اور دیگر نوعیت کے کئی جرائم شامل ہیں ۔ ہم ایک مسلمان معاشرے کے افراد ہیں لیکن آخر وہ کیا عوامل ہیں جن کی وجہ سے عورتوں کے خلاف جرائم ہیں کہ بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں۔

زمانہ جاہلیت میں عورت کا کوئی پرسان حال نہ تھا۔اسکی تذلیل کے لیے اسکا عورت ہونا ہی کافی سمجھا جاتا تھا ۔ اسلام کی آمد کے بعد ہی عورت کی نہ صرف حالت بدلی بلکہ پہلی بار اس کو اس کااصل مقام نصیب ہوا۔ صرف اسلام وہ پہلا مذہب ہے جس نے عورت کو عزت و احترام اور حقوق سے نوازا ۔معاشرے میں عورت کے اہم کردار کو اجاگر کیا گیااور دنیا کو یہ باور کروایا گیا کہ عورت کے بناءگھر اور معاشرے کامیاب نہیں ہوا کرتے اور عزت دار وہی ہے جو عورت کی عزت کرے کیونکہ عورت بھی اتنی ہی احترام کے لائق ہے جتنا کہ مرد۔اسلام نے عورت کو اتنی عزت دی کہ جنت کو ماں کے قدموں کے نیچے رکھ دیا ۔بیٹی کی پیدائش کو زمانہجاہلیت میں منحوس سمجھا جاتا تھا۔ اﷲکریم کو یہ عمل اتنا ناگوار گزرا کہ ا ﷲ تعالیٰ نے قرآن میں اس عمل کی   انتہائی سخت الفاظ میں مذمت فرمائی ۔ موجودہ حالات کو دیکھیں تو لگتا ہے کہ عورت کو ایک بار پھر زمانہ جاہلیت کی طرف دھکیلنے کی کوشش جاری ہے ۔صرف ہمارے معاشرے ہی کی بات نہیں بلکہ پوری دنیا میں کم و بیش یہی حالات ہیں ۔ مغربی ممالک جن کو ہم مثالی معاشرہ سمجھے بیٹھے ہیں وہاں بھی عورتوں پر ظلم و تشدد کے بھیانک واقعات رونما ہوتے ہیں ۔وہاں پر بھی عورتیں اغواءکی جاتی ہیں ،انھیں زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے ، ان پر تشدد کے علاوہ قتل کرنے، تیزاب پھینکنے اور ہراساں کرنے کے واقعات ہوتے ہیں۔ان مغربی ممالک کی تاریح پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے مذاہب میں سرے سے ہی کبھی عورت کو عزت و احترام اور حقوق دینے کے قابل نہیں سمجھا گیا تھا ۔اس لیے آج بھی ان پرانے فرسودہ خیالات کی بنا پر عورتوں کو استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔البتہ نہایت چالاکی کے ساتھ جدید دور میں ان مغربی ممالک نے حقوق کے نام پر عورتوں کو کولہوں کا بیل بنا دیا ہے ۔کام مرد کے برابر لے کر عورت کو گھرکی راجدھانی سے بھی محروم کردیا ۔مسلم معاشروں میں کم از کم ابھی بھی عورت کا نہ صرف احترام ہے بلکہ حالت بھی مغرب کے مقابلے بہتر ہے ۔

تاہم ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہ مسلم معاشرہ کہلاتا تو ہے مگر ہم لوگ عموماً زبانی کلامی مسلمان ہیں جسکی صاف وجہ اسلامی تعلیمات سے دوری ہے ۔ہمارا مذہب اسلام ہے مگر اسلامی شعائر ہمارے معاشرے سے مفقود ہیں ۔ستر سال قبل ہم ہندو بنیے سے اسلامی نظریے کی بنیاد پر الگ ہوئے تاکہ ہم اپنی زندگیوں کو اسلامی شعائر میں ڈھال کر اپنی زندگیاں گزار سکیں مگر ہوا یہ کہ آزاد ہو جانے کے بعد ہم میں سے اکثر اپنے اسلامی نظریات سے بھی آزاد ہوگئے ۔آج بھی ہمارے معاشرے میں وہی ہندوانہ سوچ اور رسم و رواج جاری ہیں جن کے تحت لوگ آج بھی عورت کو پاﺅں کی جوتی سمجھتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ اسلام نے عورت کو پاﺅں کی جوتی نہیں بلکہ انتہائی قابل احترام بنایا ہے ۔ ہم اُمتی ہیں اس عظیم ہستی رحمةللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جنھوں نے بیٹی کی اتنی تکریم کی کہ بیٹی کی آمد پر اپنی چادر مبارکہ بچھا دیتے تھے اور ہمارے ہاں عورت سے اخلاقی گراوٹ کا یہ عالم ہے کہ روٹی گول نہ پکا کر دینے کی معمولی وجہ پربھی بیٹی کو تشدد کرکے موت کے گھاٹ اتار دیاجاتا ہے۔

نظردوڑائیں توہمارے معاشرے میں عورت آج بھی اتنی ہی مظلوم و بے کس ہے جتنا عشروں قبل تھی ۔ آج بھی خاندانوں ، قبیلوں اور علاقوں میں عورت زمانہ جاہلیت کے حالات سے گزر رہی ہے حتیٰ کہ اچھے پڑھے لکھے گھرانوں میں بھی ظلم و تشدد کا شکار ہوتی ہے ۔ تشدد کا پڑھے لکھے یا جاہل ہونے سے زیادہ تعلق نہیں بلکہ اسکا تعلق تربیت ،ذہنیت اور معاشرے میں پنپتے غیر اسلامی رسم و رواج اور اقدار سے ہے ۔ خواتین صرف گھریلو سطح پر تشدد کا شکار نہیں ہوتیں بلکہ طبقاتی امتیاز کی بناءپر غریب کی بہن بیٹیوں کو سرمایہ داروں ، جاگیرداروں اور وڈیروں کے ظلم کا بھی شکار ہونا پڑتا ہے ۔ اس طبقاتی فرق نے غریب گھرانے کی عورتوں کو اور بھی غیر محفوظ کردیا ہے ۔ سرمایہ دارانہ ،جاگیردارانہ اور وڈیرہ شاہی تسلط کے شکار معاشرے میں نہ غریب خودمحفوظ ہے نہ اپنی خواتین کی حفاظت کر سکتا ہے ۔با اثر افراد کی اجارہ داری ہر جگہ موجود ہے ۔حقوق نسواں کے محض دعوﺅں سے اور بنا عملدرآمد کے کاغذی قانون سازیوں سے عورت کو حقوق و تحفظ ملنا ممکن نظر نہیں آتا ۔ عورتوں کے خلاف مظالم کے واقعات کسی مخصوص جگہ ،صوبے ،شہر یا خاندان قبیلے تک محدود نہیں بلکہ ہر جگہ ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں صرف تعداد اور اعداد و شمار کے فرق کے ساتھ ۔ عورتوں کے حقوق کے حوالے سے کام کرنے والی غیرسرکاری تنظیموں اور سرکاری سطح کے اعدادوشمار کے مطابق عورتوں کے خلاف ہونے والے جرائم بارے حقائق کچھ اس طرح ہیں کہ پاکستان میں ہر روز کئی خواتین اغواءہوتی ہیں۔ 4 خواتین زیادتی کا شکار ہوتی ہیں جبکہ 3 خواتین حالات سے تنگ آکر خودکشی کرلیتی ہیں۔ 6 خواتین قتل کردی جاتی ہیں۔ ایک سال میں اوسط سولہ لاکھ لڑکیوں کی کم عمری میں شادی ہوجاتی ہے۔ ایک سال میں 76خواتین کو زندہ جلاکر مار دیا جاتا ہے جبکہ 90خواتین پر تیزاب پھینکنے کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ تشدد کے اور ناانصافی کے یہ واقعات کسی ایک قوم، قبیلے یا علاقے سے مخصوص نہیں ہیں بلکہ ہر صوبے اور شہر میں اس طرح کے واقعات عورتوں کے ساتھ پیش آتے ہیں تاہم تعداد مختلف ہوتی ہے کہیں کم اور کہیں زیادہ پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کے مطابق2004ءسے 2016ءتک 7ہزار7سو34عورتوں پر تشدد کے واقعات پیش آئے۔ غیرت کے نام پر15ہزار222قتل ہوئے۔ 12سالوں کے اس عرصے میں 5ہزار508خواتین کو اغوا کرلیا گیا جبکہ15سو35خواتین کو جلا دیا گیا۔ گھریلو تشدد کے 1843واقعات کی شکایات درج کی گئیں۔

عورتوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والی غیرسرکاری فلاحی تنظیم عورت فاﺅنڈیشن نے2010ءمیں یکم جنوری سے30جون تک پنجاب میں ہونے والے عورتوں پر ظلم و تشدد کے واقعات بارے رپورٹ پیش کی جس میں عورتوں پر ہونے والے جرائم کو بیس اقسام کے حوالے سے تقسیم کیا گیا۔ رپورٹ میں تشدد کے واقعات، وجوہات اور ایف آئی آر کی نوعیت کے لحاظ سے اعدادوشمار اکٹھے کئے گئے۔ ان اعدادوشمار کے مطابق پنجاب میں پہلے چھ ماہ کے دوران عورتوں پر تشدد کے 2690واقعات رونما ہوئے جن میں اغواءکے 913، زیادتی کے انفرادی و اجتماعی 377، قتل کے 381، خودکشی کے 166، غیرت کے نام پر قتل کے 102، گھریلو تشدد کے 127، زیادتی کے 17اور جلانے کے 19جبکہ دیگر جرائم کے 27واقعات درج ہوئے۔ ان اعدادوشمار پر غور کرنے پر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ2010ءکے ابتدائی6ماہ میں روزانہ 16عورتیں پنجاب میں کسی نہ کسی تشدد اور جرم کا شکار ہوئیں۔ 2014ءمیں 2013ءکی نسبت زیادتی کے واقعات میں 49فیصد اضافہ دیکھا گیا ۔اس فلاحی ادارے کی رپورٹ کے مطابق ہر روز چار عورتیں 2014ءمیں زیادتی کا شکار ہوئیں۔ تحریک انصاف کی ایک رپورٹ کے مطابق 2015ءمیں پنجاب میں خواتین پر گھریلو تشدد کے 3500واقعات رونما ہوئے جن میں 50فیصد بھی ملزمان گرفتار ہوئے نہ ہی پولیس ان کو عدالتوں سے سزا دلوا سکی۔2015ءمیں ملک بھر میں خواتین کے قتل کے 800سے زائد واقعات میڈیارپورٹس کے ذریعے سامنے آئے۔سب سے زیادہ عورتوں پر تشدد کے واقعات پنجاب میں واقع ہوئے۔

عورت فاﺅنڈیشن کے مطابق غیرت کے نام پر قتل کی وارداتوں میں صوبوں کے لحاظ سے پنجاب پہلے نمبر پر ہے جہاں پورے ملک کے دیگر صوبوں کے برابر اس جرم کا ارتکاب کیا جاتا ہے۔ 320خواتین غیرت کے نام پر قتل ہوئیں غیرت کے نام پر قتل کے زائد واقعات صنعتی شہر فیصل آباد میں ہوئے جبکہ اغواءکے ایک ہزار سے زائد واقعات ہوں۔ وزارت انسانی حقوق کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق صرف جنوری2012ءسے ستمبر2015ءتک کے عرصے کے دوران344اجتماعی یا انفرادی واقعات پیش آئے۔860خواتین غیرت کے نام پر قتل ہوئیں۔72خواتین کو جلایا گیا۔90ہزار تیزاب گردی کے واقعات پیش آئے۔ اداروں اور دفاتر میں ہراساں کرنے کے 268واقعات کی رپورٹ کی گئی جبکہ 535خواتین پر گھریلو تشدد کے واقعات پیش آئے۔

یہ وہ واقعات ہیں جو میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آئے یا پھر ان کی شکایات درج ہوئیں ۔باقی اس کے علاوہ ڈارک فگر یعنی مخفی واقعات نجانے کتنے ہوسکتے ہیں۔ ایسے واقعات جو کسی طرح منظرعام پر نہیں آتے، ان کو اقوام متحدہ نے ڈارک فگر کا نام دیا ہے۔ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق رواں برس کے پہلے پانچ ماہ کے دوران سندھ میں خواتین کے ساتھ ناانصافی کے 379واقعات ہوئے جن میں اغوا،، قتل، بے حرمتی، گھریلو تشدد جیسے واقعات شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ضلع خیرپور میں 49واقعات پیش آئے جن میں 14اغواءہوئیں، 6 نے خودکشی کرلی جبکہ 3کو کاروکاری کرکے قتل کردیا گیا اور دو کی بے حرمتی کی گئی۔ نوشہرو فیروز پور میں 33واقعات ہوئے جن میں دس خواتین کے اغوا، چھ قتل اور چار کی خودکشی شامل ہے۔ 9خواتین گھریلو تشدد کا شکارہوئیں۔ لاڑکانہ میں 24واقعات میں 8اغواءشامل ہیں، تھرپارکر میں آٹھ خواتین نے خودکشی کی۔ شکار پور میں 24، سکھر میں21، گھوٹکی میں22، حیدرآباد میں 118، دادو میں19، جامشور میں14، کراچی میں 14، سانگھڑ میں18، بدین میں 13، میرپور خاص میں 9، عمرکوٹ میں 18، ٹھٹھہ میں6، کشمور میں12، نواشاہ میں18، مٹیاری میں7، ٹنڈوالہ یار میں4واقعات پیش آئے۔ مختصر یہ کہ سندھ میں عورتوں کے اغوا، قتل، تشدد اور عصمت دری کے واقعات روز کا معمول ہیں۔

نیویارک ٹائم کی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان میں ہر سال تیزاب سے جلانے کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔ پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن کے اعدادوشمار کے مطابق 2004ءمیں 96 جبکہ2007ءمیں 33، 2009ءمیں 43، 2010میں55اور 2011ءمیں 115تیزاب پھینکنے کے واقعات ہوئے۔ ایسڈ سروائیور فاﺅنڈیشن کے مطابق 2014ءمیں لگ بھگ150جبکہ2015ءمیں69 تیزاب گردی کی شکایات درج ہوئیں۔2016ءمیں 96مقدمات درج ہوئے جن کا ابھی تک فیصلہ نہیں ہوا۔ پاکستان میں ہر سال 400واقعات ہوتے ہیں جبکہ ایک اندازہ ہے کہ پاکستان میں ایسے واقعات میں سے صرف ایک تہائی واقعات کی شکایات درج ہوتی ہیں، باقی ڈارک فگر ہے۔ 2014ءمیں غیرت کے نام پر قتل، زیادتی اور دیگر حقوق نسواں کے لئے ایک بل سینٹ میں پیش کیا گیا تاہم مذہبی حلقوں کی جانب سے تحفظات کی بناءپر یہ معاملہ التواءکا شکار رہا تاہم2016ءمیں اسے اتفاق رائے سے منظور کرلیا گیا۔ اس دوران 230خواتین غیرت کے نام پر قتل کردی گئیں اور بل پیش ہونے کے بعد اس طرح کے واقعات میں ریکارڈ اضافہ نوٹ کیا گیا۔ 2015ءمیں بلوچستان اسمبلی میں خواتین کو کام کرنے کے مقامات پر ہراساں کرنے کے حوالے سے ایک بل پیش کیا گیا جو 2016ءمیں متفقہ طورپر تحفظ دینے کے لئے پاس کردیا گیا۔ پنجاب اسمبلی میں فروری2016 ءخواتین کو گھریلو تشدد، بدکلامی اور سائبر کرائمز سے تحفظ دینے کا بل منظور کیا گیا۔ اس بل کے تحت خواتین کو جسمانی، جنسی، ذہنی یا معاشی استحصال کا نشانہ بنانے والے شخص کو جرم کی نوعیت کے حساب سے سزائیں متعین کی گئی۔ یہاں تک کہ پروٹیکشن آفیسر کو اس کے کام سے روکنے کی صورت میں بھی چھ ماہ قید ہوسکتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

المیہ یہ ہے کہ ایوانوں میں حقوق نسواں کے لئے بل تو پاس ہو جاتے ہیں لیکن ان پر عملدرآمد نہیں کیا جاتا۔ اس کی ایک وجہ تو حکومتوں کی عدم دلچسپی ہے کیونکہ ان پر عملدرآمد کرنے کے حوالے سے لازمی شرائط اور ان کے تحت جو کمیٹیاں بننا لازمی ہوتی ہیں ان کی تشکیل سازی نظرانداز کردی جاتی ہیں تو پھر عملدرآمد بھلا کس طرح ممکن ہوگا۔ اس طرح قانون ساز ادارے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتے ۔اس لئے قانون بن تو جاتے ہیں لیکن ان پر عمل نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔عورتوں کو تحفظ و احترام اور حقوق دینے کی ذمہ داری محض حکومت اور قانون ساز اداروں کی ہی نہیں ہے بلکہ معاشرے اور افراد کی انفرادی طورپر ہی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنا کردار ادا کریں۔ اس میں سب سے اہم کردار تربیت کا ہے اگر مرد کو بچپن ہی سے عورتوں کی عزت کرنے کا سبق اور ماحول دیا جائے گا تو معاشرے میں خود بخود سدھار آجائے گا اور اس کی ذمہ داری باپ کے ساتھ ساتھ خود ماں پر بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی اچھی تربیت کریں اور عورتوں کی عزت کرنا سکھائے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply