• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • چودہ لاکھ کی آبادی کرک جہاں کوئی مذبحہ خانہ نہیں۔۔ اے وسیم خٹک

چودہ لاکھ کی آبادی کرک جہاں کوئی مذبحہ خانہ نہیں۔۔ اے وسیم خٹک

دو ہفتوں سے اُس کے گھر میں گوشت کا سالن نہیں بنا تھا۔ چھوٹی بیٹی نے فرمائش کی بابا آج گوشت لانا مت بھولنا میں انتظار کروں گی ۔ باپ نے حسرت ویاس سے بیٹی کی طرف دیکھا اور گھر سے نکل پڑا ۔اُسے پتہ تھا کہ کورونا وبا کی وجہ سے سمارٹ لاکٖٖٖٖٖٖٖٖٖٖٖٖٖٖٖٖٖٖٖٖٖٖٖٖٖٖٖٖٖٖٖٖ ڈاؤن کی کیفیت ہے ۔کوئی گھر سے باہر ہی مشکل سے نکلتا ہے ایسے میں مزدوری کہاں سے ملے  گی ۔مگر قسمت کا دھنی تھا مزدوری مل گئی اور خوش تھا کہ بیٹی کی خواہش پوری ہوجائے گی ۔جلدی جلدی  قصاب کی  دُکان کی طرف بڑھا۔ دوسو روپے دیے ۔قصاب کسی اور گاہک کے ساتھ مصروف تھا ۔ کیونکہ وہ دوسو کا  نہیں دو ہزار کا گوشت خرید رہا تھا اور گوشت بھی بغیر ہڈی کے ۔وہ گوشت کو دیکھ رہا تھا کہ کاش یہ گوشت مجھے بھی نصیب ہوجائے ۔ہر دو ہفتوں بعد بیٹی گوشت کی فرمائش کرتی ہے مگر گوشت کی بجائے اُسے قصاب ہڈی ہی دیتا ہے ۔ آج ہمت کرکے اُس نے قصاب سے کہہ ہی دیا کہ مجھے بھی بغیر ہڈی کے گوشت دے دو۔ جس پر قصاب نے ٹوکہ ہڈی پر مارتے ہوئے لال غصیلی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے کہا دوسو کا گوشت اور وہ بھی بغیر ہڈی کے ۔ ہڈی کیا میں اپنے باپ کو بیچوں گا۔ ہر کسی کو بغیر ہڈی کا گوشت ہی چاہیے ۔تو کیا ہڈی کا ہم اچار ڈالیں گے ۔وہ سہم گیا کیونکہ غربت اس دنیا میں سب سے بڑی بیماری ہے ۔ اور قصاب نے غربت کا، مذاق اڑاتے ہوئے پھر گوشت کی بجائے ہڈیاں اس کے تھیلے میں ڈال دیں ۔

یہ کہانی میرے خیال میں کہانی نہیں بلکہ ہر غریب کے ساتھ روز کا پیش  آنے والا واقعہ ہے اور یہ صرف قصاب کی  دکان میں اُس کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ نہیں بلکہ ہر جگہ پر اسکی غربت اُس کا مذاق اُڑاتی ہے ۔ ہر جگہ پر آپ کو پہچان اور حیثیت ہی سے پرکھا جاتا ہے ۔انسانیت نام کی چیز غائب ہوگئی ہے ۔ اگر قصاب جان پہچان والا ہوگا اور  آپ صاحبِ  حیثیت ہیں تو آپ کو اچھا گوشت نصیب ہوگا۔اور عید پر قربانی بھی جلد ہوگی ۔مگر ہم کو آج تک کسی بھی قصاب سے کہیں بھی اچھا گوشت نصیب نہیں ہوا۔

اس حوالے سے دادا جان کہا کرتے تھے کہ پولیس، قصاب اور سنار سمیت درزی پر کبھی بھی بھروسہ نہ کریں ۔کیونکہ یہ کسی کے بھی نہیں ہوتے ۔ بھائی درزی کے کاروبار سے وابستہ ہے ۔ دوست پولیس میں ہیں قصاب دوستوں کے زمرے میں آتے ہیں ۔مگر دوست نہیں ۔ سنار سے واسطہ اکثر خواتین کا رہتاہے مرد سناروں کے پاس کم ہی جاتے ہیں ۔اگر کبھی گئے بھی تو وہ سناروں کو اچھا تصور نہیں کرتے کیونکہ سُنار کے ہاں اچھا خاصا بندہ کنگلا ہوجاتا ہے ۔

اوپر جو کہانی سنائی ہے اسی طرح کا واقعہ میرے ساتھ پیش آیا کیونکہ قصاب مجھے جانتا نہیں تھا جو گوشت مجھے ملا جلدی میں دیکھ نہ سکا۔کیونکہ گرمی سے براحال تھا ۔ جب گھر میں چیک کیا تو اُسے میرے کتے نے بھی منہ نہیں لگایا ۔اور اس انداز سے دیکھا کہ کیا میں اس گوشت کے لئے رہ گیا ہوں یا تم سے زیادہ سمجھ مجھے گوشت کی ہے اور تم اسے میرے سامنے کر رہے ہو ۔ غصے میں گوشت کی ویڈیو بناکر پوسٹ کردی اپنا کتھارسس نکال کر گرمی میں سکون کی نیند سوگئے۔ شام کو دروازے پر دستک ہوئی  تو قصاب بمعہ کچھ لوگوں کے میرا منہ چڑا  رہا تھا۔اور تاویلیں دے رہا تھا کہ تم شناخت کراتے تو اچھا گوشت دیتا ۔میرا موقف تھا کہ پہچان کراتا تو مسئلہ ہی نہ ہوتا۔ بڑوں کی وجہ سے اور قصاب کے گھر آنے پر ویڈیو ڈیلیٹ کرنی پڑی مگر مسئلہ اسسٹنٹ کمشنر تک پہنچادیا تھاکہ علاقے کے قصاب مضر صحت گوشت جس سے بساند آتی ہے فروخت کرنے میں لگے ہیں ۔اسسٹنٹ کمشنر نے یقین دہانی کرائی کہ ان کے خلاف ایکشن لیا جائے گا۔

مگر دوسرے دن ویٹرنری ہسپتال پہنچ گئے وہاں یہ انکشاف ہوا کہ پورے ضلع کرک میں کوئی بھی مذبح  خانہ نہیں۔ محکمہ لائیو سٹاک والے سوئے پڑے ہیں ۔ضلع کرک کی مجموعی آبادی چودہ لاکھ تک ہے اور یہ حیران کن امر ہے کہ یہاں گلیوں اور گھروں میں گائے، بیل بکریاں ذبح کی جاتی ہیں اور پھر دکانوں میں وہ گوشت فروخت کیا جاتا ہے ۔محکمہ ویٹرنری فی ذبیحہ بیس روپے وصول کرکے بری الزمہ ہوجاتے ہیں ۔اب وہ گوشت عام لوگوں تک پہنچ جاتا ہے ۔جس کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہوتی ایک اندھیر نگری کرک کے تینوں تحصیلوں میں جاری ہے ۔ جہاں صبح سویرے سینکڑوں ذبح   ہوتے ہیں ۔

جب ریکارڈ چیک کیا تو تین سال پہلے کرک میں مذبح  خانہ کھولنے کے لئے بات چلی تھی ۔جگہ بھی دیکھی گئی مگر پھر بات عدالت تک جا پہنچی اور عدالت تک جب بات پہنچتی ہے تو اُس میں سالوں لگ جاتے ہیں ۔کرک کے عوام گیس،تیل، پانی اور بجلی کے لئے رُلنے کے ساتھ ساتھ قصاب مافیا کے ہاتھوں حفظان صحت کے اصولوں کے خلاف گوشت سالوں سے کھاتے آرہے ہیں جس کے باعث بھی بیماریاں پھیل رہی ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس کی ایک وجہ محکمہ فوڈ، ڈسٹرک ایڈمنسٹریشن اور دوسری جانب ویٹرنری ہسپتال اور سنٹرز کی کمی ہے یعنی مجمعوعی طور پر پورے ضلع میں پچاس کے قریب ویٹرنری سنٹر ہونگے جہاں بھی سٹاف کی کمی ہےاور اگر کہیں سٹاف ہے بھی تووہ ڈیوٹیوں سے مبرا ہیں اور گھر بیٹھے تنخواہیں وصول کر رہے ہیں ۔دل چسپی کی بات یہ ہے کہ بی ڈی شاہ کے ساتھ ویٹرنری سنٹر یا ہسپتال میں کوئی کلاس فور نہیں ہے ویٹرنری سنٹر کی تعداد یعنی چار لاکھ کی آبادی کے لئے چھ ہسپتال یا سنٹر ہیں جن کے ذمے گوشت کا چیک کرنا بھی شامل ہے جوکہ ناممکن عمل ہے محکمہ فوڈ بھی اس حوالے سے خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہا ہے ۔ اس لئے کرک میں قصاب مافیا اپنی من مانی میں بیماریاں بھی بانٹ رہے ہیں اور غریبوں کو ہڈیاں کھلاکر رات کو اپنی مونچھوں کو تاؤ دے کر سوجاتے ہیں۔جس کا کوئی پرسان حال نہیں!

Facebook Comments

اے ۔وسیم خٹک
پشاور کا صحافی، میڈیا ٹیچر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply