ڈنر سیٹ۔۔تبسم اعوان

والد صاحب کئی دنوں سے ایک ڈنر سیٹ کی تلاش میں تھے۔ ہمارا پرانا ڈنر سیٹ جو والدہ کے جہیز میں تھا، قریباً بیس بائیس برس سے ہر خاص موقع  پر مہمانوں کو طعام پیش کرنے کے لیے اپنی خدمات سر انجام دے رہا تھا۔ اتنے برس گزر جانے کے بعد وہ اپنی پہلی شان و شوکت کھو چکا تھا لہٰذا ایک نئے ڈنر سیٹ کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اسی سلسلے میں والد صاحب ہر دوسرے دن برتنوں کی دکان سے نئے رواج کے مطابق ڈنر سیٹ پسند کرانے کے لیے اٹھا لاتے۔ یہ سلسلہ کئی مہینوں سے چل رہا تھا مگر کوئی سیٹ والد صاحب کے دل کو مطمئن نہ کر پا رہا تھا۔ کسی سیٹ میں پلیٹوں کا سائز پسند نہ آتا تو کسی میں ڈونگے کی بناوٹ پسند نہ آتی۔

بلآخر ایک سیٹ پسند آ ہی گیا مگر یہ کیا اس کے چمچ تو پسند آئے نہیں۔ خیر ایک بار پھر وہ سیٹ واپس کر کے ایک اور سیٹ حتمی طور پر پسند آ ہی گیا۔ نہیں معلوم اب وہ مستقل طور پر آ گیا ہے یا اس کو بھی رد کر دیا جائے گا۔ بہر حال والد صاحب خوشی اور جوش سے اس سیٹ کی تعریف کر رہے تھے۔۔۔”یہ سیٹ آپ لوگ دیکھو گے تو دیکھتے رہ جاؤ گے، سب کو یقیناً پسند آئے گا۔۔۔“ وغیرہ وغیرہ۔

اور میں سوچ رہی تھی کہ یہ تو ایک ڈنر سیٹ ہے جس کے انتخاب میں کئی مہینے لگ گئے۔ ایک عام سی چیز۔۔۔جس میں کوئی خرابی نکل آئے تو اس کا حل نکل سکتا ہے، اس کی جگہ نئی چیز آ سکتی ہے۔

مگر والدین جب اپنے بچوں کے رشتے کرنے میں جلد بازی کرتے ہیں اور اس میں کوئی خرابی نکل آئے تو اس کا تو کوئی حل بھی نہیں نکل سکتا۔ یہ ایک غیر معمولی تکلیف اور پچھتاوے کا باعث بن جاتا ہے۔

اکثر دیکھا گیا ہے کہ والدین میں سے کوئی ایک بیمار ہوا تو وہ خواہش کرتاہے کہ مرنے سے پہلے میں اپنے بیٹے یا بیٹی کی خوشی دیکھنا چاہتا ہوں ، ان کی شادی کا فریضہ سر انجام دینا چاہتا ہوں وغیرہ وغیرہ۔

اسی کمزور لمحے میں بڑے بڑے عاقل بعض دفعہ نادانی کر جاتے ہیں اور اپنے بچوں کے رشتے جلد بازی میں نامناسب خاندان سے جوڑ دیتے ہیں۔ نہ پرکھ ہوتی ہے نہ جانچ پڑتال ، اور فریضہ سر انجام دے دیا جاتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بغیر جانچ پڑتال کے جلد بازی میں کئے گئے بے جوڑ رشتے کے مسائل بچوں کی زندگیاں تباہ کر دیتے ہیں۔

خصوصاً بچیوں کے لیے یہ نازک فیصلے بہت بڑے مسائل کا پیش خیمہ بن جاتے ہیں۔جس کا حل بعض دفعہ انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے نہ صرف بچی کے لیے بلکہ اس کے والدین کے لئے بھی۔ بچی اگر سمجھوتہ کرتی ہے اور رشتہ نبھانے کی کوشش کرتی ہے تو ذہنی و روحانی طور پر وہ ساری عمر ایک ایسے زخم کے ساتھ جیتی ہے جو ناسور بن کر اس کو ہولے ہولے جسمانی طور پر بھی مفلوج کرتا جاتا ہے۔
یہ نہ ہو تو دوسرا حل اگر ایسے بے جوڑ تکلیف دہ رشتے کو ختم کر کے نکالا جاتا ہے تو اس کی ساری زندگی لوگوں کے طانے سنتے یا تو بھائیوں کے گھر بھابھیوں کے رحم و کرم پہ گزرتی ہے یا وہ دوسری جگہ بیاہ دی جاتی ہے جہاں اس کا خیر مقدم طلاق یافتہ کے طور پہ کیا جاتا ہے۔ اور دوسری شادی کی صورت میں لڑکی کے اندر گھر بسانے کے جوان جزبات یا تو بیمار اور لاغر ہو چکے ہوتے ہیں یا پھر مردہ۔

یہی حال بیٹوں کا ہوتا ہے۔ ان کو دوسری شادی کرنے پر من پسند بیوی نہیں ملتی ۔ اور اگر وہ پہلا رشتہ زبردستی نبھانے کی کوشش کرتے ہیں تو بے سکونی اور ناچاقی ان کی ازدواجی زندگی کو خوش گوار نہیں ہونے دیتی۔ جس کا اثر ان کی اولاد،ان کی نئی نسل پر ہوتا ہے۔ اور ایسے مسائل کے اثرات پشتوں تک پیچھا نہیں چھوڑتے۔

Advertisements
julia rana solicitors

تمام والدین سے میری التجاء ہے کہ اس طرح کے نازک معاملات میں جلد بازی ہرگز ہرگز نہ کریں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ کی سنت کو یوں مذاق نہ بنائیں۔ خدارا! رشتے کوئی ڈنر سیٹ نہیں ہوتے جو خرابی کی صورت میں بہترین حل کی گنجائش دے سکیں۔ جانچ پڑتال کی اصل ضرورت کسی کی زندگی کا فیصلہ کرنے میں اہم ہوتی ہے نہ کہ برتنوں کی خریداری میں۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply