اُمید سے یقین تک کا سفر۔۔بشریٰ نواز

1975

آج زویا بہت بے قرار تھی، بے قراری سے پورے گھر میں گھوم پھر رہی تھی اور دل میں کچھ دعائیں مانگ رہی تھی، کبھی امی کے پاس آتی۔ “امی جان! دعا کریں نا! کبھی بھابی کے پاس جا پہنچتی: “بھابی! دعا کریں”۔ اس کی بے قراری کی وجہ تھی میٹرک کا رزلٹ، ویسے تو وہ ہمیشہ ہی اپنی کلاس میں فرسٹ آتی تھی، بہت ذہین تھی اب بھی اس نے بہت محنت کی تھی لیکن پھر بھی وہ بیتاب تھی۔ بھائی بھی ستا رہے تھے کہ اب تو رزلٹ بن گیا۔۔”زویا! ابھی پتا چل جاۓ گا کہ کتنے پانی میں ہو”۔ وہ رو ہا نسی ہو رہی تھی۔ اسی چھیڑ چھاڑ  میں آصف بھائی باہر سے آئے، ان کے ہاتھ میں پیپر جس میں میٹرک کا رزلٹ تھا اور مٹھائی کا ڈبہ بھی۔ “امی! ہماری زویا فرسٹ آئی ہے۔” ایک دم زویا کھل اٹھی۔ سب خوشی سے چیخ رہے تھے، ایک دوسرے کو مبارکبادیں دے رہے تھے۔ رات کو زویا نے آصف بھائی سے پوچھا: “بھائی! کون سے کالج میں داخلہ کروانا ہے اور آپ ہی مجھے بتائیں کہ کون کون سے مضمون رکھوں؟”

کالج؟۔۔۔“کون سا کالج؟ تم کالج نہیں جاؤ گی،بس! بہت ہوگیا، میٹرک کرلیا، کافی ہے۔ اب گھر بیٹھو، گھر کے کام سیکھو”۔

زویا تو حیران ہی رہ گئی، اسے جیسے اپنے کانوں پہ یقین نہیں آرہا تھا۔ وہ امی ابو کے کمرے کی طرف بھاگی۔ “امی! میں پڑھنا چاہتی ہوں لیکن آصف بھائی نے مجھے منع کردیا ہے”۔ امی نے زویا کی طرف اور پھر اپنے شوہر کی طرف دیکھا۔ زویا کے ابو ہمیشہ کے لاپرواہ تھے۔ “اچھا  بیٹا! کرتی ہوں بات تمھار ے بھائیوں سے “۔ اور جب امی نے بات چھیڑی تو جیسے قیامت ہی آ گئی۔ “نہیں امی! یہ کالج نہیں جائے گی”۔ دونوں بڑے بھائی ایک ساتھ بولے۔

“کیوں؟” امی نے آہستہ سے پوچھا۔ تھوڑا سمجھایا بھی لیکن وہ نہ مانے۔ آصف بھائی جو ابو کے ہوتے ہوئے بھی گھر کے سر براہ تھے وہی کاروبار کرتے تھے اور گھر کو بہت اچھے سے چلا رہے تھے۔ایک دم سے بولے: “امی! میری بات کان کھول کے آپ دونوں سن لیں۔ اگر یہ کالج گئی تو میں گھرچھوڑ دوں گا”۔ یہ دھمکی تھی یا بم، دونوں  خاموش ہوگئیں ۔ یہ رات اور اس کے بعد کئی راتیں زویا نے رو کے گزاریں۔

1977

اب امی اور آصف بھائی کو زویا کی شادی کی فکرستانے لگی۔ خوبصورت اور کم عمر زویا کے لیے رشتوں کی لائن لگ گئی لیکن آصف بھائی کو کوئی رشتہ پسند ہی نہیں آ رہا تھا۔ ان کا معیار ہی الگ تھا۔ وہ اپنے جیسا ہی کاروباری اور امیر خاندان چاہ رہے تھے۔ کافی رشتے مسترد ہونے کے بعد ابو کی ایک کزن آ گئیں۔ ابو اور امی کی تو جیسے مراد بر آئی۔ ان کا خیال تھا کہ اپنوں میں بیٹی خوش رہے گی۔ وہ ابو کی کزن تھیں مگر آنا جانا کچھ خاص نہیں تھا۔ بس یہی بتایا کہ آفتاب واپڈا میں جاب کرتا ہے۔ اب آصف بھائی کو سب معیارات بھول گئے تھے جو انھوں نے زویا کا رشتہ ڈھونڈنے کے دوران طے کررکھے تھے۔

1978

آج زویا کی شادی ہوئی۔ بے حد وحساب جہیز کے ساتھ زویا دلہن بنی۔ دل میں لاکھوں ارمان لیے باپ کے گھر سے رخصت ہوئی۔ رسومات کے بعد اسے حجلہ عروسی میں پہنچایا گیا۔ صبح ہو گئی لیکن دولہا کمرے میں نہ آیا۔ اسے ایسا ہی لگا جیسے وہ ان چاہی دلہن ہے۔ کچھ وقت گزرا، زویا نے سب کا دل جیت لیا بس نہ جیت سکی تو آفتاب کا دل۔

1980

ساس کو اب دو بیٹوں کی شادی کرنی تھی۔ جگہ کم پڑ رہی تھی۔ حکم ملا کہ اپنا الگ سے انتظام کریں۔ انتظام کہاں سے ہوتا؟ آفتاب کے پاس نہ ہی کوئی بچت تھی اور نہ ہی ماں کے گھر کے علاوہ کوئی ٹھکانا۔ جاۓ تو جائے کہاں۔ بڑا بھائی جو لیبیا میں تھا، کو سارا احوال سنایا۔ اس کا ایک گھر تھا جو اس نے کرائے پہ دیا ہوا تھا۔ اس مشکل وقت میں بھائی کام آ گیا۔ اس نے وہ مکان خالی کروا کے آفتاب کو رہنے کے لیے دے دیا۔ الگ گھر میں آ کے زویا کو پتا چلا آفتاب کی تنخواہ کا۔ سسرال میں تو ساس گھر چلارہی تھیں تو اچھا گزارا ہو رہا تھا۔ لیکن آفتاب کی معمولی تنخواہ، دو بچوں کے ساتھ گزارہ کرنا آسان نہیں۔ سرڈھانپا تو پیرننگے۔ خود سے تو اس نے کبھی نہیں بتایا مگر ماں سے زویا کے حالات نہ چھپ سکے۔ بہو بیٹوں سے الگ بہت مدد کردیا کرتی تھیں مگر پھر بھی مشکل ہی رہتی تھی۔ اب بچے سکول جانے کے قابل ہورہے تھے۔ بس! اسی بات پہ بہت جھگڑا ہوا۔ “اگر میری سیلری سے گزارا  نہیں ہوتا تو تم جاب کرلو، سارا دن کرتی ہی کیاہو؟ بس اب تم جاب کرو”۔ “آفتاب میں صرف میٹرک پاس ہوں، مجھے کون جاب دے گا۔ جیسے مرضی کرو، جاب تمھیں کرنی پڑے گی۔یہ کہہ کے آفتاب گھر سے باہر چلا گیا۔ اگلے دن اس نے ارد گرد کے ہمسائیوں سے بات کی مگر اسے ٹیچر کی جاب بھی نہ مل سکی۔ ٹیوشن کے لیے بھی بہت لوگوں سے کہا مگر ہمسایے جان ہی چکے تھے کہ یہ میٹرک تک پڑھی ہوئی ہے۔ ہمارے بچوں کو نہیں پڑھا سکتی، یوں کچھ عرصہ جھگڑوں میں ہی گزرگیا

1981

بہت سوچتی رہی، پھراچانک ایک خیال اس کے ذہن میں آیا۔ اس کی کزن ملتان میں رہتی ہے، وہ وہاں سے کپڑے کڑھائی کروا کے فروخت کرتی ہے۔ زویا دوسرے دن ہی ملتان کی طرف روانہ ہو گئی۔ آمنہ نے اس کی ساری بات سنی، اسے اپنے تعاون کا یقین دلایا اور صرف پانچ ہزار کے کچھ سوٹ لے کے واپس آئی۔ جب وہ سوٹ اس نے ہمسائیوں کو دکھائے تو وہ اچھے منافع کے ساتھ ہاتھوں ہاتھ بک گئے۔ کچھ عرصہ تک آمنہ اسے کپڑے بھیجتی رہی اور زویا اچھے منافع کے ساتھ فروخت کرتی رہی۔ 1983 اب زویا آہستہ آہستہ کام کو سمجھ رہی تھی۔ اس نے سوچا اب میں اپنا کپڑا اپنا دھاگہ خود خریدوں تو زیادہ بچت ہو گی۔ پھرایسا ہی ہوا۔ اللہ نے اسے اس کی محنت کا صلہ دینا شروع کردیا۔ پھراب جو کپڑے کڑھائی ہو کے آتے، انھیں اس نے خود سینا شروع کردیا، کام بڑھتا گیا، دو درزی رکھنا پڑے۔ اللہ نے مزید برکت عطا فرمائی۔ کچھ مزید سلائی مشینیں بھی آ گئیں۔ اب کپڑے مارکیٹ میں جانے لگے۔ دوسری طرف بچے بڑے ہو رہے تھے، وہ بھی ساتھ دینے لگے، سب مل کے پیکنگ کرتے، پہلے کپڑے شہر سے باہر، پھر ملک سے باہر جانے لگے۔

1990

اس کی محنت کا سلسلہ جاری تھا۔ زویا کی بزنس ٹیم میں ایک ڈریس ڈیزائنر کا بھی اضافہ ہوگیا۔

1995
اس سال زویا نے کڑھائی کی مشینیں لگالیں اور اسی کے ساتھ سٹاف کا اضافہ بھی ہوتارہا۔
2004

اللہ نے مزید برکت دی تو زویا نے اپنا گھرخرید لیا، اوپر والی منزل میں اس نے اپنا سارا کام سیٹ کرلیا۔ اسی دوران بیٹی کی شادی بھی کردی۔

2009
زویا کی دن رات کی محنت رنگ لائی اور اللّه تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس نے جگہ خرید کر فیکٹری کھڑی کرلی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

2012
اس سال میں ایک ایسا دن بھی آگیا جو اس کے لئے بہت خوشیوں بھرا تھا۔ وہ پانچ مرلے کا گھرچھوڑ کر دو کنال کے عالی شان گھر میں منتقل ہوگئی۔
آج وہ اتنی ہی خوش ہے جتنی وہ میٹرک کے رزلٹ کے دن ہوئی تھی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply