بھارت کا چوہدری بننے کا خبط۔۔۔احسان اللہ خان

سرد جنگ کے زمانے میں جب دنیا دو بلاکوں میں تقسیم تھی ایک سوویت بلاک اور دوسری امریکن بلاک تو اس وقت بھارت سوویت بلاک میں تھا اور پاکستان امریکہ کے بلاک میں ۔ گو اس سے پہلے بھی امریکہ نے ہمارے ساتھ کوئی خاص نیکی نہیں کی تھی لیکن سرد جنگ کے خاتمے کے ساتھ جب سوویت یونین دریائے آمو پار کر کے قصہ پارینہ بن چکا اور امریکہ پاکستان ہی کی کوششوں اور قربانیوں سے دنیا کی واحد سپر پاور بن گیا تو اس وقت امریکہ نے آنکھیں پھیر لیں ۔ پریسلر ترمیم اور کیری لوگر بل جیسے ہتھکنڈے ہمارے خلاف استعمال ہونا شروع ہوئے ۔ جس وقت ایک دشمن (سوویت یونین) کا سامنا تھا اس وقت تک سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا لیکن جیسے ہی دشمن کو شکست ہوئی یک دم سے پاکستان زیر عتاب بن گیا ، گو کہ ہمارے حکمرانوں نے بہت کوشش کی کہ امریکہ کو دوست بنایا جائے اس مقصد کے لئے ہم نے اپنے قومی مفاد تک کو بھی قربان کیا لیکن ہم امریکہ کو دوست نہ بنا سکے ۔

اس وقت امریکہ کی ساری مہربانی بھارت پر ہے بھارت ہی امریکہ کا دوسرا نام ہے ۔ ایک طرف امریکہ نے اپنے اسلحہ خانوں اور جدید ٹیکنالوجی کے دروازے بھارت کے لئے کھول دئیے ہیں اور دوسری طرف ان کی پاکستان دشمنی کی خواہش کو مد نظر رکھ کر ان کو افغانستان میں بھی ایک اہم رول دینے کے لئے کوشاں ہے ۔امریکہ نے بھارت سے افغانستان میں فوج بھیجنے کی درخواست بھی کی لیکن ہندو بنیا امریکہ اور نیٹو فوج کا انجام افغانستان میں دیکھ رہا ہے اس لئے فوج بھیجنے سے انکار کر دیا ہے لیکن افغانستان کے بہت سے اداروں پر کنٹرول مضبوط بنا رہا ہے ۔ جس طرح امریکہ چین سے خطرہ محسوس کر رہا ہے اس طرح بھارت بھی چین کو اپنا دشمن سمجھتا ہے ، امریکہ کو یہ بھی اندازہ ہے کہ جس طرح امریکہ کو پاکستان نے سپر پاور کا اعزاز دلایا تھا اس طرح پاکستان ہی چین کو اس مقام تک پہنچا سکتا ہے کہ امریکی عزائم میں رکاوٹ کا سبب بن سکے ۔

بھارتی ایک طرف افغانستان میں دہشتگردوں کو تربیت اور اسلحہ دے کر پاکستان کیخلاف استعمال کرتے ہیں تو دوسری طرف پاکستان کے خلاف ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت ایک مذموم جھوٹا اور بے بنیاد پروپیگنڈہ بھی کر رہے ہیں ۔ایک طرف امریکہ پاکستان پر دہشتگردوں کی سپورٹ کا الزام لگاتا ہے تو دوسری طرف بھارت امریکہ کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے پاکستان کو دہشتگردوں کی ماں کہہ رہا ہے ۔ امریکہ اور بھارت کسی بھی قیمت پر سی پیک کو ناکام بنانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔اپنے مقصد کے حصول کے لئے انڈیا اور امریکہ نے افغانستان کو بیس کیمپ بنایا ہے جہاں سے وہ پاکستان کے خلاف کارروائیاں کرواتے ہیں بلوچستان میں ہونے والی دہشتگردی بھارت امریکہ کے تعاون سے کر رہا ہے اور بلوچستان میں وہی کھیل کھیل رہے ہیں جو بھارت نے مشرقی پاکستان میں کھیلا تھا ۔چونکہ مشرقی پاکستان کا بارڈر بھارت کے ساتھ تھا اس لئے وہاں اس نے آسانی سے بنگالیوں کے روپ میں ہندو فوج کوبنگال میں داخل کروایا تھا جو ایک طرف پاک فوج کے ساتھ لڑ رہے تھے اور دوسری طرف پاک فوج کی وردیوں میں بنگالیوں کا قتل عام بھی کر رہے تھے جس کا اعتراف خود مودی اور دوسرے بھارتی اعلیٰ عہدیدار سر عام کر چکے ہیں اور اب بارڈر کی سہولت افغانستان میں امریکہ نے مہیا کی ہے ،جہاں سے وہ دہشتگردوں کو بلوچستان بھیجتے ہیں ۔ بھارت تو شروع ہی سے پاکستان کا دشمن تھا لیکن اب اس کو یہود و نصاریٰ کی بھرپور سپورٹ بھی حاصل ہو چکی ہے ۔ دونوں کا دشمن مشترک ہے چین اور پاکستان کو نہ صرف ہندوستان دشمن سمجھتے ہیں بلکہ اسرائیل امریکہ اور ان کے گماشتے بھی چین اور پاکستان کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں ۔

بھارت اپنی چوہدراہٹ قائم کرنے کے خبط میں مبتلا ہے تو امریکہ دنیا میں اپنی چوہدراہٹ بچانے کی تگ و دو کر رہا ہے اورامریکہ تب اپنی چوہدراہٹ قائم رکھ سکتا ہے جب بھارت خطے کا چوہدری بن جائے ۔ ایک وقت میں امریکہ نے اپنی چوہدراہٹ قائم کرنے کے لئے پاکستان کو استعمال کیا تھا اب اسی چوہدراہٹ کو خطرے میں دیکھ کر بھارت کو استعمال کر رہا ہے ۔ امریکہ اپنی چوہدراہٹ قائم رکھ سکے گا یا بھارت کو خطے کا چوہدری بنا سکے گا ؟شاید یہ ممکن نہیں جس کا اندازہ زمینی حالات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے ۔ ویسے یہ بھارت کیلئے بہت خطرناک گیم ثابت ہوگی۔ امریکی چوہدراہٹ کا جنازہ تو افغانستان میں نکل چکا ہے اور جو دم باقی ہے وہ نکلنے والا ہے۔ جن افغان حریت پسندوں کی مدد سے امریکہ چوہدر ی بنا تھا انہی افغان حریت پسندوں نے امریکہ کو اسکی چوہدراہٹ ختم کرنے کے قریب کر دیا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس گیم میں اگر نقصان ہوگا تو ہندوستان کا ہوگا۔ امریکہ مفت میں فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرے گا جس طرح کہ افغانستان میں حاصل کیا تھا لیکن بھارت کو اپنے وجود سے بھی ہاتھ دھونے پڑ سکتے ہیں ۔پاک فوج اور پاکستانی عوام اپنے خون کا آخری قطرہ باقی رہنے تک بھارت کے عزائم کامیاب نہیں ہونے دیں گے ۔بھارت چوہدری بننے کی بجائے اپنی بقا کی فکر کرے ۔امریکہ تو خطے میں مہمان ہے اور وہ بھی مختصر عرصے کے لئے جس طرح کہ سوویت یونین صرف روس تک محدود ہو گیا عنقریب امریکہ کا بھی یہ حال ہونے والا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ جس تیزی سے پالیسی بنا رہے ہیں اور بدل رہے ہیں اس سے سوویت یونین کے آخری صدر گورباچوف کی یاد تازہ ہوتی ہے ، جبکہ بھارت کو یہاں رہنا ہے وہ تو کہیں جا نہیں سکتا، پھر وہ یاد کرے کہ کس طرح سکھوں نے اس کو ٹکڑے ٹکڑے ہونے کے قریب کر دیا تھا اگر پاکستانی سیاستدان بھارت کی مدد نہ کرتے تو اب تک بھارت کا انجام بھی سوویت یونین والا ہو چکا ہوتا۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply