مکالمہ کانفرنس اور میرا احساس تحفظ

مکالمہ کانفرینس اٹینڈ کرنے سے پہلے اور بعد میں میرا ارادہ تھا کہ ایک مفصل تجزیاتی رپورٹ یا روداد بیان کروں گی —- لیکن میرے کئی ساتھی اس پر لکھ چکےہیں اس لئے اس پر اب میرا لکھنا اتنا معنی نہیں رکھتا جتنا کہ اہم مکالمہ کانفرینس اٹینڈ کرنے کا خوبصورت اور تحفظ بھرا احساس ہے۔چاہتی ہوں اسکو آپ سب سے شیئر کروں۔
ہمارے پیارے دوست اور مکالمہ چیف ایڈیٹر انعام رانا نے کمال مہربانی اور اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے مجھے نظامت سونپی جو میں نے جناب کا حکم مانتے ہوئے خوشی خوشی قبول کرلی،کہ اسکول کے دنوں میں نظامت کی ہوئی ہے — لیکن باوجود اسکے اگر انعام میری ذمہ داری مزمل احمد فیروزی بھائی جیسے پروفیشنل شخص سے نہ بانٹتے تو بوجہ میرے 103 بخار اور اس بخار کی شدت سے شدید کپکپی اور سر درد کے نجانے کانفرینس کا کیا حال ہوتا۔ مجھے وللہ اس بات کو ماننے میں بہت خوشی ہورہی ہے کہ انعام ایک دوراندیش اور باحکمت شخص ہیں۔ آپ سب یہ بات سوچ سکتے ہیں کہ بخار کی وجہ سے منع کردیتی — تو میں ایسا ہرگز نہی کرسکتی تھی — نمبر ایک یہ کہ انعام نےجب اتنی ڈیٹرمیشن دیکھائی کہ ہال کینسل ہونے پر سڑک پر کانفرنس کرنے کی ٹھانی تو اس وقت جب میں نے ساتھ نا چھوڑا بلکہ اپنے گھر کے نزدیک کئی بینکؤیٹس جنکے ریٹ لیئے ہوئے تھے اسکی یاد دہانی کروائی بلکہ اپنی چھت تک آفر کردی کہ جہاں مہندی مایوں کی تقریب بہترین طرح سرانجام پاچکی ہے۔ لیکن لالہ اور مانی بھائی کی کمال ایفیشینسی اورا ﷲ پاک کی مہربانی سے بہترین وینؤ جو نامور بھی ہے مل گیا۔
ہم میں سے ہر شخص اپنا تشخص اپنی ملکیت یا کم از کم مٹھی بھر آسمان کا خواہشمند ہے —- اور ف ب پر بہت کم لوگ ہونگے جو درست معنوں میں علمی قدکاٹھ رکھتے ہوں اور بہت ہی کم وقت میں کامیابی اور نام اکھٹا کیا ہو کچھ انکی قسمت کہ جس کام میں ہاتھ ڈالیں وہاں کامیابی بھی پائیں اور ساتھ ہی محبت بھی۔ اور کچھ انکی اسی محبت آمیز شخصیت کی بنا پر گیدرنگ —انعام رانا کی شخصیت کو میں سب میں الگ پاتی ہوں۔ جو نا صرف متوجہ کرلیتی ہے بلکہ اپنے سحر میں بھی لے لیتی ہے۔ پھر چاہئے وہ اسکا لکھنے کا دبنگ انداز ہو یا مدھر گفتگو کا انداز — کہ جب بات کرے تو اسکی نا صرف آواز بلکہ انداز بھی مسحور کرے۔ بات میں دلیل تو رکھتا ہی ہے کیونکہ وکیل جو ہے۔
صفوان بھائی کی شخصیت میں مجھے سچا پکا مضبوط انسان جو کہ نا صرف علمی قد کاٹھ رکھتے ہیں بلکہ انکے پوسچر سے بھی ظاہر ہے — ایک عزت و محبت کرنے والے مخلص استاد اور بھائی ہیں ۔ لالہ عارف خٹک میرے راکھی برادر ہیں اور انھوں نے اس راکھی کے وچن کو خوب نبھایا ۔جب کامران سے کمال محبت اور اپنایت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ “یرا میری اس معصوم سی بہن کا بہت خیال رکھنا “مجھے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے میری رخصتی ہورہی ہو —لالہ صحرائی اپنی مسسز کو لیکر آئے جو کچھ ہی دیر میں ہم خواتین کی بھابھی بن چکی تھی۔
اسی طرح غیور بھائی ( علی بابا ) اپنی بہنوں اور بھانجی کو لیکر آئے۔میری پیاری دوست وردہ باجوہ اپنے جگر گوشوں کے ساتھ تھی تو آمنہ احسان اپنے شوہر کے ساتھ —
آپ نے اس بات کو ضرور محسوس کیا ہوگا کہ ہم اپنی فیملی کو اسی جگہ لیکر جاتے ہیں جہاں ہمیں خود کی عزت محفوظ محسوس ہو۔ مرد ہو یا عورت — ہر کوئی اپنی فیملی کو لیکر بہت محتاط ہوتا ہے۔ مرد تو اس بناپر کہ اپنا رکھ دوسرے کا چکھ والا معاملہ — ( سخت معذرت ) — لیکن عورتیں بھی کم نہیں ہوتیں — اگر کوئی عورت اپنے شوہر کو جو معروف معنوں میں ہر لحاظ سے ایک مشرقی شوہر ہو ( بھلے بہت لبرل دیکھتا یا بنتا ہو ) اسکو اگر اس طرح کی تقریب میں لیکر جائے تو اسکو اس بات کا صد فیصد یقین اور اعتماد ہوگا کہ میرے خود کے عمل یا میرے جاننے والے جنھیں میں منہ بولے نہیں بلکہ روحانی رشتوں میں بھائی مان رہی ہوں وہ بھی مجھے اس محرم بھائی کا مان دے رہے ہیں — — میرے شوہر کو بہنوئی داماد اور دوست جیسی عزت دے رہے ہیں —- واللہ مجھے اپنے ان فیس بک پر یا فیس بک سے پہلے کے بنے نیٹ کے ہر رشتے پر بڑا مان ہے ۔
مکالمہ کانفرنس میں اپنی فیملی کے ساتھ میری اور حاضرین میں سے اکثریت کی شرکت ایک بہت ہی خوبصورت اور تحفظ بھرا احساس ہے۔ بات صرف میرے ساتر لباس کی ہی نہی بلکہ مجھے میرے یہ دوست بھائی اور بہنیں سب ایسے ہی محسوس ہوئے کہ جیسے یہ میرے سگے محرم ہوں —- ہر معاملے میں مددگار — ہنسی مزاح سے ماحول کو اور طبیعت کو اسٹریس سے نکالنے والے۔ چاہئے وہ مہمانان کرام ہوں ہو یا منتظمین دوست ۔
شرکاء بھی اپنی مثال آپ کی تصویر لگے۔ آدھے سے زیادہ ہال دینی طبقے کو ریپریزینٹ کررہا تھا —- ایک بہت بڑی غلط فہمی کا ازالہ ہوا کہ یہ دینی حلیئے والا طبقہ عورت کے معاملے میں ترسا ہوا ہوتا ہے ،کہ اسکو عورت کے وجود کا جو حصہ نظر آئے بس اسی پر اپنی خونخوار نظریں گاڑدیتا ہے —- لیکن مکالمہ کانفرنس کی ہی برکت کہئے کہ اس کانفرنس میں میرا چہرہ ہی نظر آرہا تھا — اور میرے چہرے پر کسی کی بھی خونخوار یا ناپسندیدہ نظر نہیں چبھی۔
میرا خیال ہے کہ مکالمہ کانفرینس باہمی ملاقات اور باڈی لینگؤیج اور شخصیت کے تاثرات کا بھی مکالمہ تھا جس نے کئی غلط فہمیاں دور کیں۔
اس لئے تو ہم کہتے ہیں — کہ مکالمہ ہونا چاہئے۔

Facebook Comments

*سعدیہ کامران
پیشہ مصوری -- تقابل ادیان میں پی ایچ ڈی کررہی ہوں۔ سیاحت زبان کلچر مذاہب عالم خصوصاً زرتشت اور یہودیت میں لگاؤ ہے--

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply