تدبیر یا تقدیر؟۔۔ڈاکٹر اظہر وحید

تقدیر اور تدبیر کے حوالے سے کوئٹہ سے اجمل کاسی کا ایک سوال تھا، سوچا  انفرادی جواب دینے کی بجائے مفادِ عامہ کیلئے جوابی کالم ہی تحریر کر دیا جائے۔ تقدیر اور تدبیر کی بحث اتنی ہی قدیم ہے جتنا قدیم خود انسانی شعور۔ تدبیر اور تقدیر کے تقابل سے پہلے تقدیر کے بنیادی تصور سے آگاہی لازم ہے۔ دراصل تقدیر تخلیق کا ایک جزوِ لاینفک ہے۔ بساطِ تخلیق پر تقدیر کا نقشہ پہلے کھینچا جاتا ہے اور تخلیق کے مراحل اس کے بعد تشکیل پاتے ہیں۔ ایک کنکریٹ کی عمارت بھی تعمیر کرنا ہو تو کچھ نظر آنے سے پہلے میز پر اس کی تقدیر کا نقشہ کھینچ دیا جاتا ہے۔ کوئی عمارت الل ٹپ نہیں بنتی، اور نہ ہی یہ اَز خود بن پاتی ہے۔ مستری مزدور ایسے فرشتوں کے ہاتھوں میں کام دینے سے پہلے اِس کا خالق یعنی اس کی تقدیر کا مالک اپنے تخیل کے مطابق ایک نقشہ بنا کر اسے کسی کاغذ پر یا کم از کم اپنے حافظے کی لوح میں محفوظ کر لیتا ہے۔ اِس کا ہر خشک و تر لکھ لیا جاتا ہے۔

ہمارا مجمل ایمان مفصل نہیں ہو پاتا جب تک ہم تقدیر پر ایمان نہ لے آئیں۔ کسی خالق کے تصور کے بغیر زندگی بسر کرنے والوں کیلئے تصورِ تقدیر ایک دیومالائی داستان سے زیادہ کچھ نہیں۔ شخصی خدا کا تصور شاملِ شعور نہ ہو تو زندگی میں ایک بے رحم سبب اور نتیجے کے تسلسل کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ تقدیر کا تصور اِنسان کو بے عمل بنا دیتا ہے، وہ سب کچھ تقدیر پر چھوڑ کر بیٹھ جاتا ہے اور ہاتھ پر ہاتھ رکھے کسی مستقبل کے حسین اور روشن ہونے کا انتظار کرتا رہتا ہے ، اِس کے برعکس جو افراد اور اقوام صرف سبب اور نتیجے کی سائنس پر یقین رکھتے ہیں وہاں تحقیق کا چلن ہے، جدید سائنس اور معروضی حقائق پر مبنی فلسفۂ حیات کا دور دورہ ہے۔ یہ نتائج وہ صرف گزشتہ تین سو برس کے یورپ کے صنعتی انقلاب industrial revolution سے اخذ کرتے ہیں۔ انسان اگر صرف جسم ہوتا، یہ زندگی صرف جبلتوں کے اظہار کی ایک جولان گاہ ہوتی، انسان میں روح ، مذہب ، جذبات ، دل اور اخلاق کی کوئی جا ومنزل نہ ہوتی تو شاید کچھ حد تک اِس نتیجے سے اتفاق کیا سکتا تھا۔۔ لیکن طرفہ مصیبت یہ کہ آج کے دَور کا ماڈرن ٗاسکائی اسکریپرز میں پناہ گزین اور سبک رفتار طیاروں میں ایک بر اعظم سے دوسرے بر اعظم میں پھلانگنے والا اِنسان بھی دل اور جذبات کے ہاتھوں مجبور ہے، اِسے بھی کسی ایسے سکون کی تلاش ہے ‘جس کا مسکن دِل ہو۔ سبب اور نتیجے کے طلسم ہوشربا میں اپنے فکری حواس شل کر لینے والاانسان اِس اَشکال سے وقتی طور جان چھڑا سکتا ہے ‘ اگر وہ روح کو انسانی ذہن کا ایک تخیل، مذہب کو پیغمبروں کی ایجاد، اور پیغمبروں کو معاشرتی انقلاب برپا کرنے والے مصلحین سمجھ لے، انسانی جذبات کو دماغ میں موجود کیمیکل نیورو ٹرانسمٹرکا کرشمہ تصور کر لے، دل کو دماغ ہی کا ایک مشتعل حصہ مان لے، اور اخلاق کو ایک ماخوذ معاشرتی رویہ social adaptation کے طور پر دیکھتا رہے… لیکن تنہائی ، بڑھاپے اور اِحساس کا کیا کریں کہ یہ تینوں چیزیں مل کر بقول غالب
ع دل پھر طوافِ کوئے ملامت کو جائے ہے۔۔

تقدیر کا تصور صرف ایمان والوں کیلئے ہے،یہ صرف اہلِ ایمان کو ایک اضافی تحفے کے طور پر دیا جاتا ہے۔ اس تصور کا اس کی عملی زندگی میں فائد ہ یہ ہوتا ہے کہ تقدیر ماننے والا اپنی کامیابی کو اپنے زورِ بازو کا نتیجہ سمجھ کر مغرور نہیں ہوتا، اور کسی مقصد میں ناکامی پر مایوس نہیں ہوتا۔ وہ اپنے حاصل کوخالق و مالک کی ایک عطا مان کر عجز و انکسار اور اخلاق کے دائرے میں رہتا ہے… اور اپنی کسی محرومی کا سبب دوسروں کو سمجھ کر انہیں اپنی ناکامی کا ذمہ دار نہیں ٹھہراتا، اور اُن کے خلاف غصہ، حسد اور نفرت کے الاؤ نہیں بھڑکاتا۔ غصے کے الاؤ میں انسان سب سے پہلے خود جھلستا ہے۔ اس تخلیق کو ایک خالق کا عمل ماننے والے اس کی حکمت کو بھی مانتے ہیں، وہ اسے الخالق بھی مانتے ہیں اور الحکیم بھی۔جو تخلیق پر قادر پر وہ اپنی تخلیق کی تقدیر لکھنے کا حق اور قدرت بھی رکھتا ہے۔ یوں تصورِ خدا کی طرح تصورِ تقدیر بھی الہامی نعمتوں میں شامل ہے۔

کیا تصوّرِ تقدیر انسان کے بے عمل بنا دیتا ہے؟ تقدیر اِنسان کیلئے ایک دائرۂ عمل معین کرتی ہے،اُس کے آغاز اور انجام کو متعین کرتی ہے، وگرنہ اتفاقاً کوئی انسان ایسا بھی پیدا ہو جاتا جس کی عمر پانچ سو برس ہوتی، کوئی خاندان ہزاروں برس سے حکمران ہی چلاآتا…کوئی قوم ہمیشہ سے حکمران ہی چلی آتی۔۔۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ تقدیر میدانِ عمل ہے۔ تقدیر ہمارے لئے وہ رینج مہیا کرتی ہے، جس رینج میں ہم اپنے عمل کے جوہر دکھا سکتے ہیں۔ کوشش بہت کچھ کر سکتی ہے ، لیکن سب کچھ نہیں کر سکتی۔ میں لاکھ کوشش کروں‘ امریکہ کا صدر نہیں بن سکتا، کیونکہ مجھے بحمدُللہ پاکستان میں پیدا کیا گیا ہے۔ میں بچوں کا باپ تو بن سکتا ہوں ٗ ماں نہیں بن سکتا ہے، کیونکہ مجھے مرد پیدا کیا گیا ہے۔ میری تقدیر اگر میری کوشش کا رخ متعین کرتی ہے تو اِس میں میرا ہی بھلا ہے ، میرا وقت ضائع نہیں ہوتا، میں کسی لاحاصل مقصد کیلئے زندگی کی صلاحیتیں نہیں کھپاتا۔

اگر کوئی شخص تقدیر کو اپنی بے عملی کا جواز قرار دے تو اُس کی کم فہمی بلکہ کج فہمی پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ جس دین نے انسان کو تقدیر کا تصور دیا ہے‘ اُسی نے بتایا ہے کہ اے اِنسان تجھے محنت کیلئے بنایا گیا ہے، اُسی نے انسان پر سعی فرض کی ہے، اُسی نے بتایا کہ اِنسان کیلئے وہی کچھ ہے جس کی اُس نے سعی کی، محنت کرنے والے کو اللہ کا دوست اُسی نے بتایا، اُسی نے نجات کیلئے ایمان کے ساتھ عملِ صالح کی شرط بھی عائد کر رکھی ہے، اُسی نے اپنے ماننے والوں کو گھوڑے تیار رکھنے کا حکم دیا ہے۔ مجاہدہ اور جہاد ایک کٹھن اور پیہم عمل کا نام ہے، اُسی قرآن نے بتایا کہ جو قوم خود کو نہیں بدلتی ‘اُسے خدا نہیں بدلتا۔ تصوّرِ تقدیر کوکسی کٹ حجتی ، بے عملی اور بدعملی کیلئے استعمال کرنا‘ ملائیت اور ملوکیت کا گٹھ جوڑ ہے۔ دَورِ ملوکیت میں حُریتِ فکر کو دبانے کے لیے تقدیر کے ایسے جامد تصوّر پر زور دیا گیا کہ عوام الناس “لکھی ہوئی پر “راضی” رہیں، روکھی سوکھی کھا کر’’قانع‘‘ رہیں، وہ اپنے حقوق کی آواز نہ اٹھائیں بلکہ موروثی بادشاہ کو خلیفتہ اللہ اور ظلِّ الٰہی جانتے ہوئے اُسے اُولی الامر تسلیم کر لیں ۔۔۔۔۔ حالانکہ اُولی الامر حکمران نہیں ہوتا بلکہ روح کہ اَمر ربی میں سے ہے ٗ روح کے جہان سے تعلق رکھنے والا، اَمرکے جہان سےاَمر وصول کرنے والا اُولی الامرکہلائے گا، اللہ اور رسولؐ کی منشا سے آگاہ اُولی الامر کہلائے گا، جس کی اطاعت عین اللہ اور اللہ کے رسولؐ کی اطاعت کہلائے ٗ وہی اُولی الامر کہلا سکتا ہے۔

تقدیر کے جامد تصور سے حریتِ فکر و عمل مفقود ہو جاتی ہے، اگر تقدیر کو طے شدہ اور ناقابلِ تنسیخ لکھی ہوئی دستاویز کے طور پرتسلیم کیا جائے تو قوموں کی جدوجہد کی داستانیں پرانے وقتوں کے اساطیری قصے بن کر رہ جائیں۔جبکہ حقیقت ِ حال آج بھی یہ ہے اپنے حقوق کیلئے جدو جہد کرنے والے سرفروش اپنے لیے تقدیرِ نَو تحریر کرتے ہیں۔ اگر تقدیر کا جامد تصور راسخ ہو جائے تو سئیات اور حسنات میں فرق بھی ختم ہو جائے، جزا اورسزا کا جواز ختم ہو جائے۔ آخر قاتل کو آپ لوگ پھانسی کیوں لگاتے ہیں؟ چور کو جیل کیوں بھیجتے ہیں؟ ناجائز قبضہ کرنے والے کے خلاف عدالت کا دروازہ کیوں کھٹکھٹاتے ہیں؟ اپنے بچوں کو اچھا کام کرنے پر انعام اور برے پر سرزنش کیوں کرتے ہیں؟

اَسباب ونتائج سنّت ِ الٰہیہ ہیں۔ سنّتِ الٰہیہ میں تبدیلی نہیں۔ اِنفرادی طور پر دُعا کام کرے گی، کرامت بھی اِنفرادی چیز ہے۔ اجتماعی فیصلے سنّتِ الٰہیہ کے مطابق ہوتے ہیں۔ جو قوم سنّتِ الٰہیہ سے اِنحراف اور مسلسل اِنحراف کرے گی، اُس کی مہلت ختم ہو جائے گی اور قافلۂ زیست کی پرچم برداری کسی اورقوم کوسونپ دی جائے گی۔ حکیم الاُمّت علامہ اِقبالؒ نے اپنے ایک خط میں فلسفہ خودی کے بارے میں لکھا کہ تقدیر کے جامد تصور نے میری قوم میں بے عملی کی فضا پیدا کر رکھی ہے، اور اِس تصوّر کی اِصلاح کیلئے میں نےخودی کا تصور پیش کیا ہے۔

جسے اختیار دیا جاتا ہے‘ اُس کیلئے تقدیر کی بحث ختم ہو جاتی ہے، کیونکہ اِختیار اور حکم دے کراُس کام کی تقدیر کو اِس کے حوالے کیا جاتا ہے۔ اِس میں بگاڑ اور اِصلاح کا اَب وہ ذمہ دار ہے۔ ایک ڈرائیور یا پائلٹ کے ہاتھ میں مسافروں کی تقدیر دی جاتی ہے، اُن کی تقدیر سے کھیلنے والوں کا حساب اور اِحتساب ہوگا۔ مقدمہ لاپرواہ ڈرائیور پر درج ہوگا۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ فرمایا کرتے ٗ دیکھو! کہیں اُس نااہل ڈاکٹر کی طرح یہ نہ کہنا کہ ہم نے دَوا دے دی ‘ باقی مریض کی قسمت ٗبلکہ قوم کی ذمہ داری لی جاتی ہے۔ آپؒ فرماتے کہ اپنی نااہلی کو تقدیر کا نام نہ دو۔تقدیر اور تدبیر کی بحث کو نمٹاتے ہوئے آپؒ فرماتے کہ تم تقدیر بنانے والے کے ساتھ ہو جاؤ ۔ جو خود کو اپنے مالک کے اَمر کے تابع کردے ‘ وہ تقدیر کی قید سے نکل جائے گا۔ آپؒ فرمایا کرتے”مقدر اتنی بار بدلتا ہےجتنی بار اِنسان رجوع کرتا ہے”۔ اگر نباتات اور جمادات کی سطح پر زندگی بسر کرنی ہے تو تقدیر کی پابندی روا ہے، اگر مومنانہ روش پیش ِ نظر ہے تو مومن تقدیر کا نہیں بلکہ فقط احکامِ الٰہی کا پابند ہوتا ہے۔ بحرِظلمات میں گھوڑے دوڑانے والے آخر کس مٹی کے بنے ہوں گے!!

Advertisements
julia rana solicitors london

تقدیر کا میدان کتنا وسیع ہے ‘ اِس کا اندازہ اُس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک کوشش کا گھوڑا سرپٹ دوڑا نہ لیا جائے۔ تدبیر کے ترکش میں موجود تیر جب تک چلائےنہیں جائیں گے ‘ہم پراپنے امکانات کے اُفق کی وسعت آشکار نہ ہوگی۔ تدبیر ٹوٹے گی تو۔۔ عملی تقدیر کھلے گی۔ وگرنہ گھر بیٹھے تقدیر کے موضوع پر فلسفیانہ تیر تکے چلانے سے کچھ حاصل نہ ہوگا… درست تصورِ تقدیر بھی نہیں!!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔