• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • سربندن کے سمندر میں طوفان، نصف صدی قبل کی ایک یاد۔۔سلیمان ہاشم

سربندن کے سمندر میں طوفان، نصف صدی قبل کی ایک یاد۔۔سلیمان ہاشم

زمانہ طالب علمی کی بات ہے؛ گوادر میں جھینگے مچھلی کا سیزن تھا۔ اچھی کوالٹی کے جھینگا مچھلی کی قیمت بھی اچھی خاصی ہوتی تھی۔ اس روز والد کی طبعیت ٹھیک نہیں تھی۔ والد کی تین کشتیاں ان دنوں سر بندن میں جھینگے کے شکار پر گئی ہوئی تھیں۔ گوادر سے سمندر کے راستے سر بندن 15، 20 کلومیٹر یا کچھ زیادہ تھا اور اس زمانے میں کوسٹل ہائی وے نہیں بنا تھا، رستہ کچا تھا تو تقریباً 25 کلو میٹر سے کچھ زیادہ فاصلہ تھا۔

گوادر کے اکثر ماہی گیر اپنی کشتیوں کے ساتھ کئی دن رات وہیں سمندر میں ٹھہرتے تھے۔ جب تک جھینگے کا سیزن ختم نہ ہوتا، ان کو سربندن میں ہی ٹھہرنا پڑتا تھا۔

اس دن والد سر بندن نہ جا سکے تھے۔ میرا میٹرک کا رزلٹ نہیں آیا تھا تو رات کو مجھے ہدایت دی کہ کل صبح 8 بجے جھینگا بیوپاریوں کی لانچ الفرید سر بندن جاتی ہے، دیگر بیوپاریوں کی طرح تم کو بھی سر بندن جانا ہوگا، وہاں اپنی کشتیوں میں لائے ہوئے جھینگے اسی لانچ کے مالک سے سودا کر کے کچھ رقم دی کہ کشتی کے کلاسیوں کو خرچہ پانی دے دینا۔

دوسری صبح میں جلدی اُٹھا، ناشتہ کر کے ایسٹ بےساحل کی جانب گیا۔ یہ مارچ کا مہینہ تھا۔ آسمان صاف ستھرا تھا اور سورج اپنی آب و تاپ سے چمک رہا تھا۔

ہم کئی لوگ جن میں سیٹھ ماہی گیر اور کشتی مالکان شامل تھے، ایک ہی کشتی میں چڑھ گئے۔ کشتی بان چپو چلاتے چلاتے چند منٹوں میں الفرید نامی لانچ تک پہنچ چکا تو ایک رسی ناخدا نے کشتی میں پھینک کر مضبوطی سے کشتی کو لانچ سے باندھ دیا، پھر ایک اور رسی کی مدد سے ہم لوگ لانچ میں چڑھ گئے۔ لانچ کا انجن اسٹارٹ ہوا تو سمندر بالکل ساکن تھا۔ ہوا بالکل نہ تھی اور سمندر میں بڑی لہریں تھیں۔ اسی طرح مہدی کی پہاڑی اور سربندر کی پہاڑی دور سےصاف نظر آ رہے تھے۔

اس لانچ میں میرا ایک کلاس فیلو دوست بشیر بھی لانچ کے عرشے پر بیٹھا مجھے ملا۔ اس دوران راستے میں باتیں کرتے ہوئے پتہ بھی نہ چلا کہ سر بندر کا شہر نظر آنے گا اور پھر لانچ نے پہاڑی کو عبور کیا۔ تھوڑی دیر کے بعد لانچ نے سر بندن پر اپنا لنگر پھینکا اور انجن بند کیا۔ پھر اسی کشتی پر جو لانچ کے پیچھے باندھی ہوئی تھی، کشتی کے ناخدا اور کلاسی، پھر سیٹھ اور تمام ماہی گیر لانچ سے رسی کی مدد سے کشتی میں اتر گئے۔ کشتی میں چپو لگاتے کنارے پر کشتی ٹھہر گئی، ہم تمام لوگ اتر گئے۔

یہ سفر شاید ایک یا ڈیڑھ گھنٹے کا تھا۔

ساحل پر کافی لوگوں کی چہل پہل تھی اور لوگ وہاں کھانے پینے کا سامان بھی بیچ رہے تھے۔ میں اور میرے دوست نے اپنی کشتیوں کے بارے میں گوادر کے ایک ماہی گیر سے معلومات حاصل کی تو اس نے بتایا کہ وہ 12 اور ایک بجے کے قریب پہنچیں گے۔

اب ہمارے پاس کافی وقت تھا کہ سربندر میں کچھ گھومیں پھریں۔ اس زمانے میں سر بندن ایک چھوٹی بستی تھی اور آبادی بھی بہت کم تھی۔ زیادہ آبادی مچھیروں کی تھی اور ان میں کچھ مچھیرے ایسے تھے جن کا قریبی مضافاتی علاقے نگور اور زیارت مچی سے تعلق تھا یا کلانچ کے علاقے کپر سے بھی کچھ ماہی گیر بارانی زمین دار تھے۔ یہ بارشوں کے موسم میں کاشت کاری کرتے تھے۔

چھوٹی بستی تھی لیکن جھینگے کی بہتات کی وجہ سے گوادر، پسنی اور گردونواح کے ماہی گیر سر بندن میں آتے تھے۔ ایک چھوٹا سا تنگ بازار تھا، کچھ دکانیں تھیں۔ ایک ہی دکان میں راشن اور کپڑے بھی بیچے جاتے تھے۔ ‌اس زمانے میں بہت کم دکانیں تھی۔ چائے کا ایک مشہور ہوٹل تھا۔ ہم اس ہوٹل میں چائے پینے گئے۔ صاف ستھرا ہوٹل تھا اور بڑی خوبصورت تصاویر آویزاں تھیں۔ ایک پرانے زمانے کا پونوگراف، پرانے زمانے کا ایک گانے بجانے والا آلہ رکھا تھا۔ محمد رفیع اور لتا کے دل کو لبھانے والے گانے بج رہے تھے۔ ہوٹل میں کھانے میں سوائے بسکٹ اور کیک کے اور کچھ بھی نہیں تھا۔ وہاں زیادہ تر قریبی لوگ صرف چائے پینے آتے تھے۔

وہیں گوادر کے کچھ نوجوان نظر آئے۔ ان سے پتہ چلا کہ جمعہ کو یہاں کافی نوجوان صرف چائے پینے علی ہوٹل میں آتے ہیں اور اس چھوٹی پہاڑی پر ایک پانی کا تالاب حکومت نے بنایا ہے جہاں بارش کا پانی ذخیرہ کر کے سربندن کے لوگ اپنی پیاس بجھاتے ہیں۔

ہمیں تجسس ہوا، ہم پیدل چلتے ہوئے آہستہ آہستہ سربندن کے تالاب کو دیکھنے پہاڑی پر چڑھتے گئے۔ وہاں پہنچ کر دیکھا، تالاب پانی سے بھرا ہوا تھا۔ کچھ خواتین اپنے گھروں کے لیے بڑے برتن اور مٹکوں سے پانی بھر بھر کر لے جا رہی تھیں اور مرد گدھوں پر پانی لے جا رہے تھے۔ خشک پہاڑی سخت پتھریلی تھی، جہاں کوئی جڑی بوٹی، درخت یا سبزے کا نام و نشان تک نہ تھا۔ قریب مہدی کی پہاڑی قدرتی چکنی مٹی اور کہیں کہیں پتھریلی تھی۔ اس پر کہیں درخت یا اس کے دامن میں ہریالی نظر آ رہی تھی۔

سربندن کے دامن میں ایک بہت ہی خوبصورت باغ تھا جو بارش کے پانی سے بھر جاتا تھا اور اس میں ہر قسم کے خوبصورت اور میوہ دار درخت نظر آ رہے تھے اور ایک بند بھی تھا جس میں بارش کے پانی کا ذخیرہ ہوتا تھا۔ جب پہاڑی کا تالاب خشک ہوتا تو لوگ اسی بند میں کنواں کھود کر پانی حاصل کر لیتے تھے لیکن اب کچھ نہیں رہا۔ تالاب خالی، باغ غائب، سُربندن گاؤں سے شہر میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اس قدرتی ساحل پر ایک فش ہابر نے لے لی۔ قیمتی جھینگے بھی نایاب ہوگئے۔ اب سربندن کوسٹل ہائی وے کی وجہ سے گوادر کا ایک جڑواں شہر بن چکا ہے۔

میں پھر اس زمانے کی طرف آتا ہوں۔ میں اور میرے دوست بشیر ٹہلتے ٹہلتے دوبارہ ساحل پر آ گئے۔ کشتیاں بھی آ چکی تھیں۔ نیلام لگ چکا تھا۔ کشیاں جھینگوں سے بھری تھیں۔ والد کی ہدایت پر الفرید لانچ کے مالک کو جھینگے فروخت کیے۔ ان سے پرچی لی اور اپنی کشتی والوں کو گزر اوقات کی رقم حوالے کی۔

میں اور بشیر اب فارغ ہو چکے تھے۔ پھر علی ہوٹل میں چائے، کیک اور بسکٹ سے گزارا کیا اور پھر شام پانچ بجے جب ہم دوبارہ کشتی سے لانچ میں پہنچے تو آسمان پر سرخ آندھی اور سورج کی روشنی کم ہو چکی تھی۔ دور دور سے کالی گھٹائیں چھا رہی تھیں۔ لانچ نے لنگر اُٹھا لیا اور سربندن کی پہاڑی کے دوسری جانب گہرے سمندر میں‌اپناا رخ جوں ہی گوادر کی جانب موڑا تو بڑی بڑی بپھرتی لہروں کی وجہ سے
لانچ بری طرح لڑکھڑانے لگی۔

لانچ کے کپتان نے لوگوں سے کہا، ایک بڑا طوفان شمال مشرق کی جانب سے آ رہا ہے، آپ لوگ لانچ کے عرشے سے اپنے آپ کو سنبھال نہ سکیں گے اور فوری طور پر نیچے انجن روم میں آ جائیں کیونکہ اب کالی گھٹائیں چھا رہی ہیں اور زوردار بارش بھی ہونے والی ہے۔ ہم سب لوگ نیچے آ گئے لیکن یہاں بھی صورتِ حال بہتر نہیں تھی اور ایسا لگ رہا تھا کہ اتنے ہچکولے کھانے سے لانچ کہیں ڈوب نہ جائے۔ لانچ میں جو بوڑھے لوگ تھے وہ قرآن کی آیاتوں کا ورد شروع کر چکے تھے اور اپنی سلامتی کی دعائیں مانگ رہے تھے۔

باہر زوردار گرج چمک اور بارش متواتر جاری تھی اور ہم سوچ رہے تھے کہ اگر لانچ ڈوب گئی تو ہم میں پتہ نہیں کون زندہ بچےگا۔ لانچ کے کپتان نے لانچ کی رفتار انتہائی کم کی کیونکہ بپھرتی لہروں پر لانچ کبھی اوپر اچھلتی تھی تو کبھی زور سے نیچے لڑھکتی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

سربندن سے گوادر کا سفر ہم لوگوں نے تین گھنٹوں میں طے کیا، تب لانچ کے کپتان نے اعلان کیا کہ اللہ کا شکر ہے کہ ہم سب اب محفوظ ہیں اور اب گوادر ساحل پر لنگرانداز ہو چکے ہیں۔ لیکن اب بھی بارش برس رہی تھی۔ ہم سب لوگ مکمل بھیگ چکے تھے۔ خدا خدا کر کے سب کشتی میں سوار ہو گئے۔ کشتی بھی ہچکولے لیتی ہوئی کنارے پر پہنچی تو سب لوگوں نے پانی میں چھلانگ لگائی اور بھیگتے بھاگتے ہوئے خشکی تک پہنچے۔ پھر وہاں گرتے پڑتے اندھیرے میں گھر پہنچے تو والدین پریشان تھے۔ ہمیں دیکھ کر جیسے ان کے لبوں پر تھا، اللہ ترا کرم ہے، بچہ سلامت گھر پہنچا ہے۔

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply