آپ کا پورا نام حضرت محی الدین محمد بن علی ابن العربی الحاتمی الطائی الاندلسی تھا۔ ابو عبدالله آپ کی کنیت اور لقب شیخ الاکبر ہے۔ آپ ابن عربی، ابن العربی، ابن سراقه اور شیخ الاکبر کے ناموں سے مشہور ہیں۔ آپ اسلام کے سنہرے دور میں 11 جولائی 1165ء کو اندلس(موجودہ اسپین) میں حاتم طائی کے بھائی کی نسل سے ایک معزز عربی خاندان میں پیدا ہوئے۔آپ کے والد گرامی ریاست کے وزیر تھے اور آپ بھی سیکرٹری جیسے ایک معزز عہدے پر فائز تھے۔پر آپ نے بہت جلد عیش و عشرت پر فقر کو ترجیح دی۔
آپ دنیائے اسلام کے ممتاز صوفی، عالِم، فلسفی، شاعر، مصنف، محقق اور مختلف دینی اور دنیاوی علوم کا بحر بے کنار ہیں۔ آپ اللہ کی عبادت و ریاضت میں اتنا دور نکل گئے تھے کہ اللہ کی یاد میں فنا ہو کر اس مقام پر فائز ہوئے کہ اللہ کی بنائی ہوئی اس کائنات کی ہر چیز میں آپ کو اللہ کی موجودگی اور وجود کا احساس ہوتا مطلب آپ عقیدہ وحدت الوجود کے بانی ہیں۔ آپ کا فرمان ہے کہ باطنی نور خود رہبری کرتا ہے۔
بچپن ہی سے آپ کو علماء اور صوفیاء کی صحبت نصیب ہوئی۔ اپنے بارے میں لکھتے ہیں کہ اس طریق میں میرا دخول بیس سال کی عمر میں ہوا۔ اس بارے میں ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک امیر کبیر کے گھر پر باقی اشرافیہ کے بیٹوں کی طرح آپ بھی مدعو تھے۔ کھانے کے بعد جب جام گردش کرتے ہوئے آپ تک پہنچا اور آپ نے جام ہاتھ میں پکڑا تو غیب سے آواز آئی”اے محمد کیا تم کو اسی لئے پیدا کیا گیا تھا؟”۔ پریشانی کی حالت میں آپ نے جام واپس رکھا اور باہر نکل کر گھنٹوں تک پریشان گھومنے کے بعد نہر کے کنارے قبرستان کی ایک ٹوٹی ہوئی قبر میں گھس کر اللہ کی یاد میں مصروف ہوئے اور صرف نماز کے وقت ہی باہر نکلتے۔ چار دن بعد یہاں سے نکلتے ہی آپ نے تصوف کو اپنا اوڑنا بچھونا پسند فرمایا اور تصوف کی دنیا میں شیخ الاکبر کا لقب پایا، جو آپ کے علاوہ اب تک پوری دنیا میں کسی اور کے لئے استعمال نہیں ہوا۔
بڑے بڑے مشائخ آپ کو علم کا ایک ایسا وسیع و عریز سمندر سمجھتے تھے جس کا کوئی کنارہ نہ ہو۔ آپ نے آٹھ سو کے قریب کتابیں لکھی۔ آپ کی کتاب فتوحات المکیة جو پانچ سو ساٹھ ابواب پر مشتمل ہے، کا درجہ اب تک تصوف کی دنیا میں باقی تصوف کے کتب سے بلند ہے۔ آپ کی بہت سی تصانیف دنیا کی مختلف زبانوں میں شائع کی جا چکی ہیں۔ چین کے مسلمانوں نے کنفوشس سمیت آپ کی اخلاقی اور معاشرتی تعلیمات اور فلسفہ کو فروغ دینے کے لئے ایک ادارہ بھی کھول رکھا ہے۔
Facebook Comments
بہت اعلیٰ لکھا ہے جناب، مجھے اپنے ریسرچ پیپر کے لئے کچھ میٹیریل چاہئے تھا، آپ نے بہت عمدہ لکھا ہے۔