ہم پاکستانی اور وبا کے دن۔۔ڈاکٹر محمد شافع صابر

وطن عزیز میں کرونا سے متاثرہ افراد کی تعداد دو لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے (یہ سرکاری اعداد وشمار ہیں، طبی ماہرین کے مطابق تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے)۔ اگرچہ اب نئے کیسز کم رپورٹ ہو رہے ہیں لیکن وبا کے پھیلاؤ کا خطرہ ابھی بھی موجود ہے، اسی خطرے کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت نے ملک کے مختلف شہروں میں سمارٹ لاک ڈاؤن نافذ کر دیا ہے، جس کی وجہ سے نئے کیسز بتدریج کم ہو رہے ہیں۔

کرونا کی اس وبا نے جہاں کافی سبق سکھائے ہیں، وہیں اس نے ہمیں یہ بھی سکھایا ہے کہ ہم ایک قوم نہیں ہیں، ہم میں زندہ قوموں والی کوئی خوبی موجود نہیں، ہم بحیثیت قوم دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرا کر، خود بری الزمہ ہونے کی کوشش کرتے ہیں، وبا کے دنوں میں بھی ہم ناجائز منافع خوری سے خود کو باز نہیں رکھ سکتے، آزمائش کے دنوں میں بھی ہم دوسروں کو لوٹنا نہیں چھوڑ سکتے، بیشک ہم سب سے زیادہ خیرات کرنے والوں میں شامل ہیں لیکن ہم دوسروں کا دردسمجھنے سے قاصر ہیں۔ کرونا کی اس آزمائش نے ہماری ساری منافقت کو کھول کر ہمارے سامنے رکھ دیا ہے، اس نے ہمیں وہ آئینہ دکھا دیا ہے، جس میں ہم سب خود کو دیکھ سکتے ہیں۔

کرونا کی مثال لیتے ہیں، کرونا فروری کے آخر میں پاکستان میں پھیلنا شروع ہوا تھا، سب سے پہلے ماسک مافیا نے لاکھوں کمائے، دس روپے والے سرجیکل ماسک کی قیمت 200 تک بڑھ گئی، ایک N95 ماسک 1500 تک بھی فروخت ہوا، اس کے بعد باری آئی، ہینڈ سینیٹائرز والوں کی۔ 150 والی بوتل 2000 تک میں بیچی گئی، مصنوعی قلت کر کے بلیک مارکیٹ میں بیچا گیا۔ سرجیکل گلوز کی کمی ہو گئی۔ ہر اس دوائی کی قلت پورے ملک میں کی گئی جس کے متعلق پتا چلا کہ یہ کرونا کے علاج میں مفید ہو سکتی، 150 والی گولی کا پیک 500 تک بیچا گیا۔کرونا کے مریضوں میں جان بچانے ٹیکہ actemra اصلی قیمت 30 ہزار کی بجائے پانچ لاکھ میں بیچا گیا، (ایسے مریض کے بارے میں سنا، جو موت و حیات کی کشمکش میں تھا، اس ٹیکے کے لیے ایک آدمی چار لاکھ مانگ رہا تھا، ان کے پاس دو لاکھ تھے، وہ آدمی نہ  مانا، وہ بدنصیب زندگی کی بازی ہار گیا)۔ آخر میں جو مریض کرونا سے صحتیاب ہو گئے انہوں نے اپنا پلازما بھی لاکھوں میں بیچا، یہ خبریں سن کر حکومت کو پلازما کی خرید و فروخت پر پانبدی لگانی پڑی۔ اس کے بعد یہ جھوٹی افواہیں پھیلائی گئیں کہ ڈاکٹرز کرونا کے مریضوں کا علاج نہیں کرتے، بلکہ ہسپتال میں داخل ہر کرونا کے مریض کو زہر کا ٹیکہ لگا کر، لاش امریکا کو بیچ کر لاکھوں ڈالر لیتے ہیں۔ یہ ہے  ان حالات و واقعات کا ایک مختصر جائزہ، جو کرونا کی وبا کے پاکستان میں پھیلنے کی وجہ سے ہوئے۔

یہ وہ حقائق ہیں جو ہماری بحیثیت قوم اخلاقی پستی کو آشکار کرتے ہیں، یہ واقعات اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ ہم بیشک مسلمان ہیں لیکن ہمارا مذہب اور انسانیت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔ میں سوچا کرتا تھا کہ چلو یہ قوم ڈاکٹرز اور حکومت کی بات تو نہیں مان رہی، علماء کی ہی مان لے گی، لیکن میری یہ غلط فہمی تب دور ہو گئی جب علماء نے کہا کہ اپنے  ذاتی فائدے کے لئے پلازما کی خرید و فروخت ناجائز ہے، لیکن عوام نے علماء کی بات بھی سنی ان سنی کر دی اور یہ گورکھ دھندہ جاری رکھا۔

حکومت اور انتظامیہ چیخ چیخ کر مر گئی کہ کرونا SOPS پر عمل کر لیں، ماسک پہن لیں، اجتماع میں مت جائیں، یہ قوم باز نہیں آئی، بلآخر فوج اور پولیس نے آ کر کچھ کو سڑکوں پر کان پکڑائے، بھاری جرمانے کیے، تب جا کر کچھ نے ماسک پہنے۔
ہسپتالوں کی بات کریں تو کہا گیا کہ ایک مریض کے ساتھ ایک ہی تیمادار آئے، سماجی فاصلہ برقرار رکھیں، ماسک پہن آ کر آئیں، لیکن کسی نے بھی ان نصحیتوں پر عمل نہیں کیا، آخر ہسپتالوں میں ماسک لازمی کر دیا گیا تو کچھ بہتری آئی۔

یہ سارے حالات و واقعات ہمارے اخلاقی انحطاط کو ظاہر کرتے ہیں۔ دیکھا جائے تو بحیثیت قوم ہم پیار اور محبت کی زبان نہیں سمجھتے، ہم کسی بھی قانون پر عملدرآمد کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں، اور ہمیں صرف ڈنڈے کی زبان سمجھ آتی ہے، جب تک ہم پر سختی نہ  کی جائے، ہم کسی بھی قانون پر عمل کر ہی نہیں سکتے۔

ہماری سب سے عجیب عادت ہے کہ ہم حقیقت کو حقیقت سمجھتے ہی نہیں۔ ہم ابھی تک یہی یقین رکھتے ہیں کہ کرونا ہے نہیں، یہ سب یہودی سازش ہے، کرونا دنیا کو کنٹرول کرنے کی ایک کڑی ہے۔ ہم اپنے ان افسانوی خیالات پر اتنا  پختہ یقین رکھتے ہیں کہ دنیا کا کوئی بھی شخص ہم کو اس حقیقت پر یقین نہیں دلوا سکتا۔ میرے اپنے ایک عزیز تھے، جو کرونا کو مانتے ہی نہیں تھے، کہتے تھے یہ صرف اور صرف سازش ہے، دو تین بحثوں کے بعد میں نے ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا، کچھ دنوں بعد انکے دوست کو کرونا ہو گیا، انکی مجھے کال آئی کہ بھائی تم ٹھیک تھے اور میں غلط۔۔ یہی کہانی آج تقریباً ہر دوسرے پاکستانی کی کہ جب تک ہم پر آزمائش نہ آ پہنچے، ہم نے کوئی نہیں یقین کرنا، جو کرنا ہے کر لو۔۔

اب اس سارے معاملے کا حل کیا ہے، یقین مانیے مجھے خود نہیں معلوم۔ میں ایک بڑا پُرامید شخص ہوں، مشکل سے مشکل حالات میں بھی امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتا، لیکن کرونا کی وبا میں ہمارے ان رویوں نے مجھے سخت مایوس اور ناامید کر دیا ہے، مایوسی گناہ ہے، لیکن اس کے سوا ہمارے پاس بچا ہی کیا ہے۔ کوئی تو ہو، جو مایوسی کے ان اندھیروں میں آ کر امید کی شمع روشن کر دے۔ کوئی ایسی رحمت خداوندی آئے جو ہمارے دلوں کو پھیر دے، جو نفرتوں کو محبتوں میں بدل دے، جو آزمائشوں کو رحمت میں بدل دے آمین۔

Advertisements
julia rana solicitors london

وبا کے ان دنوں میں، کچھ ایسے خدا ترس بھی تھے، جنہوں نے اشیاء کو انکے اصلی نرخوں پر بیچا، جعلی قلت پیدا نہیں کی، مجبوروں کی مدد کی، ذخیرہ اندوزی نہیں کی، جنہوں نے لاک ڈاؤن میں لوگوں کے گھر گھر تک راشن پہنچایا، انہیں امید دلائی کہ مصیبت کی اس گھڑی میں آپ اکیلے نہیں۔۔یہی وہ نیک اور پاکیزہ لوگ ہیں جن کی وجہ سے یہ ملک قائم ہے۔۔ جو مایوسی کی اس اندھیرے میں بھی،امید کی شمع روشن کیے ہوئے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply