عظیم سازش(قسط1)۔۔وہاراامباکر

کیا دنیا میں سازشیں ہوتی ہیں؟ ظاہر ہے کہ ہاں۔ جب دو لوگ اکٹھے ہوئے اور کوئی جرم کرنے کی ٹھانی تو یہ ایک سازش ہے۔ اداروں کے بورڈ روم میں، ایک کمپنی کے کسی حلقے میں، سرکاری ایجنسی میں۔۔۔ جہاں انسان ہیں، وہاں سازشیں بھی۔

عظیم سازش ایک مختلف جانور ہے۔ ایک سازش جو بہت سے لوگوں تنظیموں، حتیٰ کہ بہت سے ممالک پر پھیلی ہے۔ اور یہاں تک کہ نسل در نسل چلی آ رہی ہے۔

عظیم سازش کی ایک مثلث ہے جس کے تین کونے ہیں۔
ایک سازش کرنے والے۔ یہ بڑے، طاقتور اور خفیہ ہیں۔ ان کے پاس بہت سے وسائل ہیں اور دنیا پر کنٹرول ہے۔ اور ابھی ان کو اور بھی زیادہ کنٹرول حاصل کرنا ہے۔ اور ایسا کرنے کے لئے ان کو چاند پر انسان کو لینڈ کروانا ہوتا ہے، عمارتوں کو جہازوں سے ٹکرا کر گرانا ہوتا ہے، ویکسین یا نمک میں آئیوڈین ڈال کر کر آبادی کو زہر کھلانا ہوتا ہے۔ (اور کئی بار یہ اپنے ارادوں کا اظہار کارٹونوں، فلموں، موسیقی میں، یا کئی جگہوں پر اپنی علامات اور پیغامات سے بھی کرتے رہتے ہیں)۔

دوسرا سازش سمجھنے والے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو پہلے گروہ کے خفیہ ارادوں کا خفیہ ذرائع سے علم ہو جاتا ہے۔ یا پھر یہ پہلے والوں کے بچھائے جال سے بچ جاتے ہیں کیونکہ یہ بہت زیادہ سمجھدار ہوتے ہیں۔

اور تیسرا بھولے لوگ۔ وہ بھیڑ بکریاں جو تاریخ، حالاتِ حاضرہ وغیرہ کی باتوں پر آنکھ بند کر کے یقین کر لیتے ہیں۔

بھولے، ہوشیار اور وہ۔ یہ عظیم سازش کی مثلث ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کانسپریسی سوچ کا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ ڈبہ بند سسٹم ہے۔ اس کا ڈیزائن ہی ایسا ہے کہ یہ انکار پروف ہے۔ کوئی بھی ایسے شواہد جو سازشی تھیوری جھٹلا دے؟ وہ خود ہی سازش کا حصہ ہوتے ہیں۔ خلا بازوں کے چاند پر چھوڑے گئے آلات کے ثبوت یہ ہیں۔ سازشی خیالات غلط ہو گئے؟ نہیں، یہ ثبوت بھی سازش کا حصہ ہیں۔ یہ سائنسی سٹڈی ہے جو بتاتی ہے کہ ویکسین محفوظ ہے۔ سازش غلط ہو گئی؟ نہیں، یہ سٹڈی سازش کا حصہ ہے۔

اگر یہ سازش ہوتی تو فلاں چیز ملنی چاہیے تھی؟ نہیں، یہ اس لئے نہیں ملی کہ سازش کو چھپایا اچھی طرح گیا ہے۔ اور سازش کو کتنا زیادہ اچھا چھپایا گیا ہے؟ جتنا سازشی تھیوری بنانے والا کا دل کرے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مثال: ورلڈ ٹریڈ سنٹر کا حملہ جارج بش کا ڈرامہ تھا۔
ان سے بہت تلخ اختلافات رکھنے والی ڈیموکریٹ پارٹی نے اس ڈرامے کو بے نقاب کیوں نہیں کیا؟ اس وقت بھی نہیں جب ان کے مخالفین حکومت میں آئے؟ وہ بھی سازش کا حصہ تھے۔
اور میڈیا نے اس کو بے نقاب کیوں نہیں کیا، جو بڑی کہانیوں کی سن گن میں رہتا ہے؟ وہ بھی سازش کا حصہ ہے۔
اور دوسرے ممالک کی حکومتوں نے اس کو بے نقاب کیوں نہیں کیا؟ ان حکومتوں نے بھی، جو امریکہ سے خاصی مخاصمت رکھتی ہیں؟ اب اس سوال جواب کا اندازہ آپ خود لگا لیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سازشی تھیوری کی سوچ کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ اس کو کسی بھی وقت کسی بھی طریقے سے پھیلا کر کسی بھی سوال کا جواب دیا جا سکتا ہے۔ اور اس میں زیادہ وقت نہیں لگتا جب تک ان سوالوں کا سرا ڈھونڈتے ہوئے آپ اس یقین تک پہنچ جائیں کہ کوئی بہت ہی طاقتور طاقت پسِ پردہ تمام دنیا کو کنٹرول کرتی ہے۔

نہ صرف ان سازشی تھیوریوں کو وسیع اور سکوپ کو بڑا کئے جاتے رہنا پڑتا ہے بلکہ ایسا کرنے والوں کی طاقت اور مکاری میں بھی اضافہ کرتے رہنا پڑتا ہے۔ “اُن” کے پاس کینسر کا علاج ہے لیکن وہ چھپا رہے ہیں۔ یہاں پر “وہ” کون ہیں؟ اب یہ بہت سے مفروضوں کو چھپا کر رکھتا ہے۔ بڑی فارماسیوٹیکل کمپنیاں؟ نہیں، اس کا یہ جواب نہیں۔

بڑی فارماسیوٹیکل کمپنیوں کا ایک دوسرے سے کانٹے دار مقابلہ ہوتا ہے اور اگر یہ بالفرض آپس میں کوئی معاہدہ کر لیں؟ نئی کمپینیاں آتی رہتی ہیں۔ کسی بھی نئے علاج کا دریافت کر لئے جانا کسی کو بہت امیر کر سکتا ہے۔ کون کسی کو اس علاج کو پیٹنٹ کروانے سے روک رہا ہے؟ اور دنیا میں صرف ایک ملک نہیں۔ بہت سے ممالک میں میڈیکل تحقیق ہوتی ہے۔

اور اس تحقیق کو کنٹرول کون کرتا ہے؟ کینسر کی بنیادی تحقیق سرکاری فنڈ سے یونیورسٹیوں میں کی جاتی ہے۔ بڑے ادارے اس کو کیسے کنٹرول کر سکتے ہیں؟ پیپر جرائد میں شائع ہوتے ہیں۔ تحقیق شئیر کی جاتی ہے۔ جہاں پر کہیں کوئی امید نظر آئی تو درجنوں لیباریٹریوں کے کئی سال کے اشتراک کا نتیجہ ہی ہو گی۔ ویسے ہی جیسا اس پر پہلے پیشرفت ہوتی رہی ہے۔

اور فارمیسوٹیکل ادارے تو علاج کے صرف ایک مرحلے پر آتے ہیں، جہاں پر کام ممکنہ ڈرگ کو ڈویلپ کر کے قابلِ عمل دوا کو بنانا ہے۔

کیا سازش کے پیچھے کینسر کے ڈاکٹر ہو سکتے ہیں؟ ہسپتال اور ڈاکٹر بھی تحقیق کو کنٹرول نہیں کرتے۔ محقق کا مقصد تحقیق کے لئے فنڈنگ حاصل کرنا اور مشہور ہونا ہے۔ انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ڈاکٹر، ہسپتال اور دواساز ادارے کتنی کمائی کرتے ہیں۔ اور میڈیکل اداروںکے لئے پیسے کمانے کا سب سے کامیاب طریقہ مریض کا کامیاب علاج کرنا ہے۔ طویل مدت میں یہ اپنے گاہکوں کو مرنے دینا اچھی حکمتِ عملی نہیں۔

جب آپ کو یہ معلوم ہو جائے کہ سسٹم چلتا کیسے ہے۔ افراد اور اداروں کے اپنے اپنے مقاصد ہوتے ہیں جو ایک دوسرے سے بالکل الگ ہوتے ہیں تو یہ خیال کہ “وہ” اس سب کو اپنے مذموم عزائم کے لئے سب کچھ ہی قابو کر سکتے ہیں ایک بے تکا خیال رہ جاتا ہے۔ کسی کے پاس ایسی طاقت نہیں ہے کہ وہ کینسر کے علاج کو چھپا سکے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سازش کرنے والے اتنے زیادہ عقلمند، بڑے اور طاقتور ہیں کہ دنیا بھر کو بے وقوف بنا دیتے ہیں۔ اور اتنے زیادہ احمق ہیں کہ صاف نشان چھوڑ جاتے ہیں جو ہمارے ہوشیار لوگ پکڑ لیتے ہیں۔ یہ خلابازوں کو چاند پر بھیج دینے کا ایک عظیم الشان ڈرامہ رچا کر دنیا بھر کو بے وقوف بنا لیتے ہیں۔ اور ساتھ ساتھ، ویڈیو بناتے وقت پنکھا کھلا چھوڑ دیتے ہیں جو ہوشیار لوگوں کو نظر آ جاتا ہے۔

ایک بار سازشی نظریے کا بیانیہ اپنا لیا جائے تو یہ حقیقت کو دیکھنے کی عینک بن جاتی ہے۔ ہر واقعہ، خواہ رینڈم ہی کیوں نہ ہو، اس میں جھٹ سے فٹ ہو جاتا ہے۔ انامولی کا شکار اور کنفرمیشن بائیس اس بیانیے کو مضبوط تر کرتے ہیں۔ اتفاق بھی پیٹرن کا حصہ بن جاتے ہیں۔

سازشی تھیوریاں بنانے والوں کا ایک اور اچھا ہتھیار ذاتی حملوں کا ہے۔ اگر آپ اعتراض کریں گے تو یا تو آپ بھولے ہیں یا اندھے۔ اگر آپ لاجک یا فیکٹ کی غلطیوں کی طرف نشاندہی کریں گے تو آپ یا تو بہک چکے ہیں یا بِک چکے ہیں۔ یا پھر آپ ایلومناٹی ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لاعلمی کی دلیل بھی ان میں بہت مدد کرتی ہے۔ اگر ہر چیز کے ہر جزو کی وضاحت نہیں کی جا سکتی، تو میری والی سازشی تھیوری ٹھیک ہے۔

عظیم سازش کی اس مثلث کے “ہوشیار” لوگ آخر ایسا کیوں کرتے ہیں؟ کیا اس جال سے نکلا جا سکتا ہے؟ حالیہ برسوں میں نفسیات کی ہونے والی سٹڈیز اس پر دلچسپ جوابات دیتی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply