حصہ بقدر جثہ۔۔سلیم مرزا

اس پہ رولا ڈالنے کی کیا تک ہے ؟
سیدھی سادی بات ہے ۔
پاکستان میں کام کرنے کیلئے لائسنس کے حصول کیلئے ہر کمپنی کے پاس اکیس دن کے سٹوریج کی صلاحیت ہونا ضروری ہے ۔
فرض کرتے ہیں اگر ایک کمپنی کے پاس ایک ہزار پٹرول پمپس ہیں اور ہر پٹرول پمپ کی ایوریج سیل بیس ہزار لیٹر ہے تو اس کی روزانہ سٹوریج کیپسٹی دوکروڑ لیٹر روزانہ بنتی ہے۔
اب اکیس دنوں کے سٹاک پہ نظر دوڑائیں تو بیالیس کروڑ لیٹر کا  سٹاک ان کے پاس تھا ۔
صرف پچیس روپے کے اضافے سے تقریبا ًدس ارب کا فائدہ صرف ایک کمپنی کو دیا جاسکتا ہے ۔
باقی کمپنیوں کا آپ حساب لگا لیں
قیمت کے اتار چڑھاؤ کیلئے پٹرول کمپنیوں سے باقاعدہ بات ہوئی تھی کہ صرف ایک ماہ کیلئے قیمت کم کرنی ہے ۔اس کے بعد واپس بڑھا دیں گے۔چنانچہ وہی کیا گیا ۔۔
اس دورانیے میں “ڈبہ ٹیشن”پہ پٹرول کی ترسیل جاری رہی ۔جو موٹر سائیکل والے سو روپے لیٹر خریدتے رہے ۔
بے شک میرا کپتان بجا فرماتا تھا ،میں کسی مافیا کو نہیں چھوڑوں گا۔”
اس نے کسی مافیا کو نہیں چھوڑا ۔سب کو بلا کر گیم پلان بنایا اور جہاں سے ممکن ہوا حصہ بقدر جثہ دیہاڑی لگائی گئی ۔
اس بات کو بار بار مختلف انداز میں چینل پہ رویا گیا ۔کروڑوں کے جرمانے سنائے گئے ۔مگر اصل کہانی کسی چینل نے نہیں سنائی کہ “مافیا “ہے کون ۔؟
کون قیمتوں اور قوانین میں تبدیلیاں کرکے دیہاڑیاں لگا رہا ہے ۔؟
اسی ارب کی اس دیہاڑی میں اگر موجودہ حکومت شامل نہیں ہے تو پھر یا تو آپ ہیں یا میں ہوسکتا ہوں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply