ایوان اقتدار سے سڑک تک۔۔ذیشان نور خلجی

بچپن سے ہی فیاض عرف پھجے کو آوارہ مزاج بچوں کے ساتھ سڑکوں پر لور لور پھرنے اور کھیلنے کی لت لگ گئی تو پھر گھر پر الف ب کا قاعدہ پڑھنے کا دل کاہے کو کرتا۔ اور جب اسکول داخل کروانے کا وقت آیا تو ابے نے اسے ایک قریبی سرکاری اسکول میں داخلہ لے دیا۔ لیکن چند ہی دن بعد پھجے کا دل اوب گیا اور وہ عذر کرنے لگا کہ اسکول کے اساتذہ اچھے نہیں ہیں۔ لہذا میں نے اس اسکول میں نہیں پڑھنا۔ چند دن تو اس کا باپ یہ سنتا رہا پھر چار و ناچار اسے وہاں سے اٹھوا کر ایک پرائیویٹ سکول میں داخل کروا دیا۔ اب سرکاری اسکول میں الف ب کی پٹی پڑھنے والے کو بھلا اے بی سی ایلفا بیٹس کی کہاں سمجھ آنی تھی۔ چنانچہ تھوڑے ہی دن بعد پھجے نے ایک نیا راگ الاپنا شروع کر دیا کہ اس اسکول کا نصاب ٹھیک نہیں ہے۔ لہذا میں نے اس اسکول میں بھی نہیں پڑھنا۔ اور ایک دفعہ پھر اسے اس اسکول سے اٹھوا کر ایک دوسرے اسکول میں داخل کروا دیا گیا۔ اور اب تو یہ معمول ہی بن گیا کہ کسی اسکول کی عمارت ٹھیک نہیں تھی تو کسی کو جانے والا رستہ کچا تھا اور کس اسکول کا گھر سے فاصلہ بہت زیادہ تھا۔ آخر ایک اسکول سے جان چھڑانے کے لئے پھجے نے بہانہ گھڑا کہ یہاں کے کلاس فیلوز اچھے نہیں ہیں۔ اور پھر ابے کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہو گیا۔ لہذا اس نے رکھ کے ایک پھجے کی ‘کھتی’ پہ لگائی اور پھر اسکول سے ہی اٹھوا لیا اور سڑک چھاپ بچوں کے بیچ چھوڑ دیا۔ اپنے پرانوں یاروں میں گھرا پھجا اب بڑا خوش تھا کیوں کہ وہ اپنے اصل مقام پر پہنچ چکا تھا۔ اور اب وہ ہوتا یا شہر کی سڑکیں اور کبھی کسی کو چھیڑ اور کبھی کسی کو ستا۔
دوستو ! آپس کی بات ہے جب کبھی عمران خان کی حکومت کو دیکھتا ہوں تو جانے کیوں پھجے کی یاد آ جاتی ہے۔ کیوں کہ جب معیشت کو سنبھالا دینے کی باری آئی تو عذر تراشا گیا کہ پچھلی حکومتیں اتنا لوٹ چکی ہیں کہ اب کچھ بچا ہی نہیں۔ یعنی ہمیں ملکی معیشت ہی خراب ملی ہے۔ اور عوام نے مان لیا کہ ٹھیک ہے ہینڈسم ہے، سچا ہے، ایماندار ہے اور 92ء کا ورلڈکپ بھی تو آخر اسی نے جیتا تھا نا۔ پھر جوں جوں وقت گزرتا گیا اس کے جوہر کھلنے لگے۔ کبھی کہا جانے لگا کہ مجھے ٹیم ٹھیک نہیں ملی حالانکہ یہ اس کا اپنا انتخاب تھا۔ کبھی بہانا تراشا گیا کہ مجھے عوام ٹھیک نہیں ملے اور اب پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے تو بات ہی ختم کر دی جب انہوں نے کہا کہ ہمیں لاہوریے بھی اچھے نہیں ملے یعنی کہ احمق ہیں۔ اور بعد میں انہوں نے اپنے اس بیان پر معذرت کر لی۔ حالانکہ میرا ماننا ہے ان کو تو ایوارڈ سے نوازا جانا چاہئیے تھا کہ ایسی بصیرت اور دانش بھلا کسی اور انصافی راہنما میں کہاں، کہ جس کا مظاہرہ ڈاکٹر یاسمین راشد نے کیا ہے۔ اب یہی دیکھ لیں نا کہ ان خاتون کو بھی اہل لاہور نے ہی منتخب کیا تھا تو بھلا پھر لاہوری کیسے عقل مند ہو سکتے ہیں۔ اور ویسے بھی لاہوری تو بے وقوف ہیں ہی لیکن محترمہ کون سا چیچو کی ملیاں کی رہائشی ہیں یا زمان پارک کون سا دریائے سندھ کے کنارے آباد ہے۔
دوستو ! بات ہو رہی تھی پھجے کے ابے کی جس نے بیٹے کو اسکول سے اٹھوا کر سڑک پر کھلا چھوڑ دیا۔ تو عمران خان کو جو شکوہ ہے کہ انہیں کچھ بھی صحیح سے نہیں ملا اس بارے میرا خیال ہے کہ انہیں بھی ایوان اقتدار سے اٹھا کر سڑک پر چھوڑ دینا چاہئیے۔ ویسے بھی ماضی گواہ ہے کہ سڑک پر ان کی کارکردگی بہت بہتر رہی ہے۔ آٹے چینی کی قیمتیں سڑکوں پر ہی کم کی گئیں تھیں۔ پٹرول پر لیوی کی چھوٹ کا کارنامہ بھی دراصل بیچ سڑک ہی انجام کو پہنچا تھا۔ اس کے علاوہ بجلی کی قیمتوں میں کمی اور ٹیکس پر چھوٹ کی ہنڈیا بھی بیچ چوراہے ہی پھٹی تھی۔ اور اربوں درخت، کروڑوں نوکریاں اور لاکھوں گھر بھی سڑک پر ہی تعمیر ہوئے تھے۔ بلکہ کرپٹ سیاستدانوں کو لائن میں کھڑا کر کے چین کی طرز پر گولی بھی بیچ سڑک کے ہی ماری گئی تھی۔ لیکن اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آٹے دال کا بھائو معلوم ہونے کے بعد اب خان میں کچھ کرنے کی سکت نہیں رہی، پھر بھی بجائے ایوان اقتدار میں بیٹھ کر، روزانہ ٹی وی پر آ کے عوام کا دل جلانے کے، یہ بیچ سڑک ناچتے ہوئے ہی بھلے لگیں گے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply