کوڑے دان کے قیدی۔۔سعید احمد آفریدی

ہزار جاہلوں میں ایک جاہل ایسا بھی ہوتا ہے جو اچھا بولنے کی قدرت رکھتا ہے۔ انہی ہزار جاہلوں میں ایک جاہل، حقیقی لکھاریوں کی صحبت یا نقالی سے اچھا لکھنے پر بھی قادر ہوتا ہے۔ انہی ہزار جاہلوں میں ایک وہ بھی ہوتا ہے جو اس ساری جہالت کی بنیاد سے واقف ہوجاتا ہے۔
پہلا جاہل، جاہلوں کے سماج کا ایک اچھا مقرر، ایک اچھا خطیب بن کر جاہلوں کی جہالت کو کیش کرانے میں لگ جاتا ہے۔ وہ جاہل جسے لکھنے کی شُد بُدھ حاصل ہوجاتی ہے، وہ انہی جاہلوں کی سوچ کودلائل و براہین سے آگے بڑھا کر جاہلوں کا دانشور بن جاتا ہے، اور وہ جاہل جسے جہالت کی اس ساری بنیاد کا پتہ چل جاتا ہے، وہ بجائے اس کے کہ جہالت کو دور کرتا، جاہلوں کا سیاسی اور مذہبی رہنما بن جاتا ہے۔

چونکہ جہالت کے اس کوڑے دان میں جہالت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا تو سب کا کاروبارِ حیات جہالت سے چلتا ہے۔ ان میں سے کسی کو بھی اس کوڑے دان سے باہر آنے کی خواہش نہیں ہوتی۔ ہر کوئی اپنے اپنے انداز سے کوڑے دان پر حکومت کرنے میں لگ جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کوڑے دانی حکومت کی بنیاد اس بنیادی نقطے پر ہوتی ہے کہ کوڑے دان کے اکثریتی قیدیوں کو کوڑا دان، کوڑا دان نہ لگے۔ ان میں کوڑے دان کی محبت اجاگر کی جاتی ہے۔ انہیں کوڑے دان کی مٹی سے محبت کا درس دیا جاتا ہے۔ شاعر، لکھاری ’’ یہ تیرا کوڑے دان ہے، یہ میرا کوڑے دان ہے۔ اس پہ دل قربان اس پہ جان بھی قربان ہے‘‘ قسم کے نغمے تخلیق کرتے ہیں۔ کوڑے دانی سیاسی مفکرین ’’دوکوڑے دانی نظریے کا پرچار کرنے میں محنتیں صَرف کرتے ہیں۔ مسلسل غلاظت میں سانس لیتے قیدیوں کو پہلے پہل غلاظت کی بُو محسوس ہونا بند ہوجاتی ہے۔ پھرایک وقت وہ بھی آتا ہے کہ یہی بُو خوشبو بن جاتی ہے۔ ’’خوشبو بن کے مہک رہا ہے، میرا کوڑے دان‘‘۔

مست رکھّو ذکر و فکرِ صُبحگاہی میں اسے

پختہ تر کر دو مزاجِ کوڑا دانی میں اسے

کے مصداق کوڑے دان کے قیدی، کوڑے دان میں ایسے مست ہوتے ہیں کہ انہیں باہری دنیا کا ہوش ہی نہیں رہتا۔ فطرت کی کرم نوازی سے چند ایک جو کوڑے دان سے باہر جھانکنے کے قابل ہوجائیں وہ ایڑھی چوٹی کا زور لگا کر کوڑے دان سے باہر فرار ہونے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ الگ بات ہے کہ باہر نکل جانے والے یہ خوش نصیب باہر جاکر بھی کوڑے دان کی محبت میں گھلتے رہتے ہیں۔ وہ باہر رہ کر کوڑے دان کی صفائی ستھرائی کے لیے بڑی بڑی رقومات بھیجتے ہیں۔ یہ رقوم یہاں موجود کوڑے دانی مقرروں، خطیبوں، دانشوروں، رہنماؤں کے ہاتھ لگتی ہیں ، وہ جن کی حکومت ہی کوڑے دان کی جہالت پر کھڑی ہو وہ کیوں کوڑے دان کی صفائی کریں۔ ہوتا یہ ہے کہ یہ رقوم کوڑے دان کی غلاظت کو بڑھانے پر خرچ کی جاتی ہیں کیونکہ غلاظت جس قدر زیادہ ہوگی، حکومت پر ان کی گرفت اسی قدر مضبوط ہوگی۔

قدرت کی ستم ظریفی ہے کہ انہی ہزار جاہلوں میں ایک جاہل وہ بھی نکل آتا ہے جسے حادثاتی طور سے یا کسی بھی وجہ سے پتہ جل جاتا ہے کہ وہ دراصل کوڑے دان کا قیدی ہے۔ اس احساس کے ساتھ ہی اسے پہلی مرتبہ کوڑے دان کی بُو محسوس ہوتی ہے۔ ایک مرتبہ یہ احساس جاگنے کے بعد ہر گزرتے دن یہ بُو ناگوار تر ہوتی جاتی ہے۔ بڑھتے بڑھتے یہ بُو اتنی بڑھتی ہے کہ دماغ پھٹنے کو ہوجاتا ہے۔ یہاں اس میں ایک خواہش کا جنم ہوتا ہے کہ کسی بھی طرح اس کوڑے دان سے باہر نکلا جائے۔ لیکن ستم ظریف فطرت دانستہ اسے وسائل سے محروم رکھ کر باہر نکلنے سے روک دیتی ہے۔ فطرت نے اسے کوڑے دان کی صفائی کے لیے چُنا تھا۔ ایڑھی چوٹی کا زور لگانے کے بعد جب یہ قیدی جان لیتا ہے کہ وہ ایک وقتِ معین تک اسی کوڑے دان میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ وہ یہاں سے نہ آزاد ہوسکتا ہے اور نہ فرار۔ تب وہ ایک راستے کا انتخاب کرتا ہے کہ کیوں نہ کوڑے دان کا کچرہ ختم کر کے اسے سبزہ زار میں بدلا جائے۔

اے کوڑے دان کے قیدیو!
یہاں ایک منٹ رُک جاؤ۔۔ جب تم کوڑے دان کا کچرہ صاف کرنے کے لیے آگے بڑھو گے تو سب سے پہلے کون تمہاری راہ میں حائل ہوگا؟۔ چلو میں تمہیں بتاتا ہوں کہ کون تمہاری کلائی اور گریبان پکڑے گا۔ وہ جو بولنا جانتا ہے، جہالت کے اس کوڑے دان کا خطیب، مقرر،اور وہ جو لکھنا جانتا ہے۔ کوڑے دان کا نامی گرامی ادیب، دانشور۔۔۔ان دانشوروں کی ایک پہچان یہ ہے کہ یہ نصف صدی سے کوڑے دان کے تمام ذرائع ابلاغ پر مگر مچھ بن کر بیٹھے ہیں۔ اور یہ مگر مچھ اپنی زندگی میں ہی اپنے بچوں کو بھی اپنے عین پیچھے کھڑا کرجاتے ہیں، کہ مرنے کے بعد خلا فوراً پُر ہوجائے۔ گریبان پکڑنے والوں میں وہ بھی ہوں گے کوڑے دان کی اصل و بنیاد سے واقف ہیں۔ غلاظت کے اس ڈھیر کے معزز سیاسی اور مذہبی رہنما۔ یہ سب تمہاری راہ میں حائل ہوں گے۔ کیونکہ یہ خوب جانتے ہیں کہ جہالت کی مقدار سے ہی ان کا آقائی جثّہ طے ہوگا۔
اے کوڑے دان کے قیدیو!
کیا تمہیں بُو نہیں آرہی؟ یا تم نے زندگی کو بس اسی طرح سے دیکھا ہے؟ اور تم سمجھ رہے ہو کہ کوڑہ اور زندگی لازم وملزوم ہیں۔
اے کوڑے دان کے قیدیو!
اگر تم دھیان دو تو تم کوڑے دان کے ان کوڑے دانی مذہبی، سیاسی رہنماؤں، کوڑے دانی دانشوروں اور پوری اشرافیہ کو پہچان لو گے۔ یہ چند نشانیاں ہیں ان کی۔
1۔ وہ قیدی جو کوڑے دان سے فرار ہوگیا تھا، جب کوڑے دان میں موجود قیدیوں کو باہری دنیا کا احوال سناتا ہے تو یہ کوڑے دانی اشرافیہ فوراً تمہارے درمیان یہ کہتے ہوئے کود پڑتی ہے ’’ہمیں یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ دنیا میں کیا ہورہا ہے، ہمیں خود کو اپنی مقامی تہذیب اور ثقافت کے آئینے میں دیکھنا چاہیے۔ بہ الفاظ دیگر وہ یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ہمیں باہر کے  سبزہ زاروں پردھیان نہیں دینا چاہیے۔ ہمیں کوڑے دان کی مقامی غلاظت کے مطابق اپنی زندگی گزارنی چاہیے۔
2۔ کوڑے دانی دانشور ہمیشہ کوڑے دان میں پائی جانے والی مقامی سوچ کو ہی حل بنا کر پیش کرتا ہے۔ یعنی۔۔
میرؔ کیا سادہ ہیں، بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی  عطّار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
3۔ کوڑے دان کی باہری دنیا ہم سے جلتی ہے، حسد کرتی ہے۔ ایک دن کوڑے دان کی مقامی تہذیب سے ہی دنیا میں چراغ روشن ہوں گے۔ کوڑے دان کے باہر ہر کوئی ہمارے خلاف سازشوں میں مصروف ہے۔
4۔ کوڑے دان کے جن قیدیوں کے دَم سے کوڑے دانی اشرافیہ کا کاروبار چلتا ہے، وہ اور ان کی اولادیں تو تاعمر اسی کوڑے دان میں قید رہتی ہیں۔ اور خود اشرافیہ اور اس کی اولادیں کوڑے دان سے باہر اپنے اپنے پسندیدہ سماجوں میں وہاں کی مقامی تہذیب میں گھل مل کے رہتی ہیں۔

اے کوڑے دان کے قیدیو!
اب ذرا پاکستان کے تمام سیاسی، مذہبی رہنماؤں اور ان کے کاروبار کو چار چاند لگانے والے کوڑے دانی دانشوروں کو ایک ایک کرکے ذہن میں لاؤ اور دیکھو کہ وقتِ اقتدار تو یہ سب کوڑے دان میں رہ کر راج کرتے ہیں۔ لیکن اقتدار کا ہما سر سے اُڑتے ہی یہ سب کوڑے دان سے باہر اپنے اپنے سبزہ زاروں، آشیانوں اور مسکنوں پر پہنچ جاتے ہیں۔
اے کوڑے دان کے قیدیو!

Advertisements
julia rana solicitors

کوڑے دان کی حالتِ زار وہی بدلے گا جو کوڑے دان میں پیدا ہوا ہو، کوڑے دان میں ہی عمر گزری ہو۔ اور اس شرط کے ساتھ اسی کوڑے دان میں مرنا بھی پسند کرے کہ ایک دن وہ کوڑے دان کو مصفّا کرکے چھوڑے گا۔ حقیقی صفائی پسند وہ نہیں ہوتا جو گندے ماحول سے اٹھ کر صاف جگہ جا کر بیٹھ جاتا ہے۔ حقیقی صفائی پسند وہ ہوتا ہے جو گندگی سے بھِڑ کر ایک وقت تک خود بھی سراپا گندگی بن جاتا ہے۔ اس عمل میں وہ خود سراپا جھاڑو بن جاتا ہے۔ وہ گندے ماحول سے اٹھ کر صاف ماحول میں نہیں جا بیٹھتا بلکہ گندے ماحول کو مصفّا کرتا ہے۔
لیکن اے کوڑے دان کے قیدیو!
تمہیں میری باتیں سمجھ میں نہیں آئیں گی۔ تم اب بھی اسی عطّار کے لونڈے سے دوا لو گے۔ تم اب بھی کوڑے دانی داشوروں کو ہی حقیقی دانشور سمجھتے رہو گے۔ تم اب بھی تاجر نوٹنکیوں کو ہی قومی رہنما سمجھتے رہو گے۔ اگر تم ایسے نہ ہوتے تو یہاں قید ہی کیوں ہوتے؟
لیکن قسم ہے سقراط کی!
قسم ہے منطق کے پیامبر ارسطو کی!
قسم ہے ہیراقلیطس کی!
قسم ہے ابنِ رشد، الکندی اور فارابی کی!
میں تاعمر اس کوڑے دان کو سبزہ زار میں بدلنے کی جہد کرتا رہوں گا۔

Facebook Comments