دیوار چین۔۔عبدالغفار غفاری

اس تاریخی دیوار کی بنیاد دو سو قبل مسیح میں چین کے پہلے بادشاہ چن شی ہوانگ نےاس وقت کے چین کے دشمنوں تاتار اور ہون کے وحشی قبیلوں کے حملوں سے اپنے ملک کے لوگوں کو محفوظ رکھنے کے لئے رکھی تھی۔ منگولیا اور تبت کے علاقوں تک پھیلی اس دیوار کی کل لمبائی تیرہ ہزار میل، چوڑائی نیچے سے پچیس فٹ اور اوپر سے بارہ فٹ ہے۔ یہ تیس فٹ تک اونچی ہے۔ ہر دو سو گز کے بعد پہرہ  دینے کے لئے مضبوط پناہ گاہیں تعمیر کی گئی ہیں۔

چن شی ہوانگ کے بعد آنے والے  شاہی خاندانوں نے اس کی تعمیر جاری رکھی، جن میں قابل ذکر منگ خاندان نے اس دیوار کی تعمیر پر  خاص توجہ دی۔

دفاع کے علاوہ اور بہت سے کار آمد مقاصد کے لئے اس دیوار کو استعمال کیا گیا، جیسا کہ سرحدوں کی رکھوالی کرنا، شاہراہ ریشم کے راستے لائے گئے سامان پر کسٹم ڈیوٹی نافذ کرنا، تجارت کی حوصلہ افزائی اور سلطنت کے اصولوں کے مطابق قابو میں لانا اور امیگریشن اور ہجرت کو کنٹرول کرنا ،ان مقاصد میں شامل تھے۔ جبکہ دفاع کو مزید مضبوط بنانے کے لئے اس دیوار پر واچ ٹاور، فوجی بیرک اور فوجی چھاؤنیاں بنائی گئیں ۔ اس تاریخی دیوار نے راہداری کی  خدمات بھی سر انجام دیں  ۔

آثار قدیمہ کے ایک سروے کے مطابق اس دیوارکی پیمائش اس کی  تمام شاخوں کو ملا کر 21,196 کلو میٹر بنتی ہے۔آج تک اس کا دفاعی نظام تاریخ میں آثار قدیمہ کے کارناموں میں سے ایک انتہائی متاثر کن کارنامے کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔
1346ء میں ابن بطوطہ کے چین کے سفر پر لکھی ایک کتاب میں اس دیوار کا ذکر ملتا ہے۔ انہوں نے ساٹھ دنوں کی مسافت پر مشتمل اس دیوار کو  ذوالقرنين کے یاج ماجوج کو قید کرنے کے لئے تعمیر کی ہوئی دیوار سے تشبیہ دی ہے۔ اسی طرح دنیا کے بہت سارے قدیم سیاحوں  نے اس دیوار کا ذکر اپنے سفر ناموں میں کیا ہے۔
بعد اذاں اینگلو-چائنیز لڑائیوں میں شکست کے بعد جب چین نے غیر ملکی تاجروں اور سیاحوں کے لئے اپنی سرحدیں کھول دی تو یہ دیوار سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز بن گیا۔ جنہوں نے اس عظیم دیوار کی مقبولیت میں چار چاند لگا دیے۔
کہتے ہیں کہ دنیا کا  یہ واحد شاہکار ہے جو  سپیس اور چاند سے دیکھا جا سکتا ہے، پر اس بات میں کوئی صداقت نہیں، لیکن 300 تا 350 کلومیٹر ہائٹ سے دور بین کی مدد سے اس دیوار کو دیکھا جا سکتا ہے۔
اس دیوار کو سیمنٹ، بڑے بڑے پتھروں، اینٹوں اور مٹی کے سفوف سے بنایا گیا ہے۔ یہ اب تک دنیا کی طویل ترین تعمیر ہے۔ اس کو تعمیر کرتے وقت ہزاروں ورکرز بڑے بڑے پتھروں کے گرنے، تھکاوٹ، بیماریوں، جانوروں کے حملوں اور بھوک سے لقمہ اجل بن چکے تھے۔ کہتے ہیں کہ اس کی  دیواروں میں ان کو دفن کیا جاتا تھا۔ اس کو تعمیر کرنے کے لئے درکار مزدور سپاہیوں اور قیدیوں پر مشتمل تھے۔

چین کے انیس شاہی خاندانوں نے اس کی تعمیر میں اپنا اپنا حصہ ڈال رکھا ہے اور ساتویں صدی قبل مسیح سے لے کر سولہویں صدی عیسوی تک دو ہزار سالوں میں اس کو تعمیر کیا گیا۔ مطلب اس دیوار کی تاریخ دو ہزار سے زیادہ سالوں پر مشتمل ہے۔ چین کے لوگ اب تک اس پر ناز کرتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

افسوس اس دیوار کی موجودہ حالت پہلے  جیسی نہیں رہی۔ 2012ء میں چین کے ثقافتی ورثہ کی  ایک رپورٹ کے مطابق قدرتی آب و ہوا اور زمینی کٹاؤ اور اس کے ارد گرد آباد گاؤں کے لوگوں کی اس سے اینٹیں چرانے کی بدولت  تقریباً دو ہزار کلو میٹر تک اس عظیم دیوار کا بائیس فی صد حصہ ختم ہو چکا ہے۔

Facebook Comments

Abdul Ghaffar
پیشہ کے اعتبار سے خاکسار ایک کیمکل انجنیئر ہے اور تعلق خیبر پختونخوا کے شہر نوشہرہ سے ہے ۔ بچپن ہی سے لکھنے پڑھنے کا شوقین تھا اور ایک اچھا رائیٹر بننا چاہا۔ آج کل مختلف ویب سائٹ کے لئے آرٹیکل لکھتا ہوں ۔تاکہ معاشرے کی بہتری میں اپنی طرف سے کچھ حصہ ڈال سکوں۔ شکریہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”دیوار چین۔۔عبدالغفار غفاری

  1. رائیٹر کی ناقص معلومات اسی بات سے ظاھر ہے کہ وہ دیوار چین کو دنیا کا آٹھواں عجوبہ کہ رھا ھے۔
    بھائ صاحب۔ دیوار چین دنیا کے سات عجوبوں میں شامل ھے

    1. کمینٹ کرنے کا بہت شکریہ ۔۔ڈاکٹر صاب بجا فرمایا دنیا میں ساتھ عجوبے ہیں اور ان 7 عجائبات عالم میں اہرام مصر، بابل کے معلق باغات، معبد آرتمیس، زیوس کا مجسمہ، موسولس کا مزار، روڈس کا مجسمہ اور اسکندریہ کا روشن مینار شامل ہیں۔ ان تمام عمارتوں میں سے صرف اہرام مصر اب تک قائم ہیں۔
      جبکہ چین کے لوگ بہ ضد ہیں کہ دیوار چین کو آٹھواں عجوبہ قرار دیا جائے ۔۔جوکہ وہ لوگ اس کو آٹھواں عجوبہ مانتے بھی ہیں۔ پر یورپ کے زیادہ تر لوگ اس کو عجوبہ ماننے کے لئے تیار نہیں ۔
      شکریہ

Leave a Reply to Abdul Ghaffar Cancel reply