مند ر کی تعمیر،مخالفت کیوں؟۔۔ایم اے صبور ملک

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں پہلے کرشنا مندر کی بنیاد رکھ دی گئی، ہندو پنچایت کی کوششوں سے وفاقی دارالحکومت میں سیکٹر ایچ 9 میں کرشنا مندر کی بنیاد وفاقی پارلیمانی سیکرٹری مسٹر لال مالہی نے رکھی،مندرتعمیر کرنے کے لئے کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے ہندو پنچائت کی درخواست پر چار کنال کا پلاٹ الاٹ کیا ہے،وفاقی پارلیمانی سیکرٹری مسٹر لال مالہی نے اسلام آباد میں ہندو پنچائت کی طرف سے منعقدہ ایک مختصر سی تقریب میں مندر کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے کہا ہے کہاکہ 1947 سے قیام پاکستان کے بعد اسلام آباد میں بننے والاپہلا مندر ہے انہوں نے کہا کہ ہمارا دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتا ہے ہم پاکستانی ہیں بھارتی حکومت کشمیر سمیت بھارت میں اپنی اقلیتوں جو مظالم ڈھا رہا ہے ہم دکھانا چاہتے ہیں کہ پاکستانی اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی ہے یہاں کسی مندر چرچ گوردوارہ میں جانے سے نہیں روکا جا تا ہے اور آج ہم اسلام آباد میں شری کرشن بھگوان کے مندر کی تعمیرکی بنیاد رکھ رہے ہیں، حکومت پاکستان کی اقلیتوں کو حقوق دینے پالیسی پر عملی کام ہوتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ حکومت سے مندر کی تعمیر کے لیے فنڈز فراہم کرنے کی بھی درخواست کی،بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی قانون ساز اسمبلی میں 11اگست 1947 کو کی گئی تاریخی تقریر جس میں آپ نے فرمایا تھا کہ آپ سب آزاد میں اپنی مسجدوں میں جانے کے لئے،اپنے مندروں اپنے کلیساؤں میں جانے کے لئے، ریاست کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ آپ کس مذہب سے تعلق رکھتے ہیں، نو زائیدہ مملکت خداداد پاکستان کے مستقبل کے آئینی اور معاشرتی خدوخال کا اجمالی جائزہ اس تقریر میں بیان کیا گیا،اس تقریرکو عملی شکل دینے کے لئے ریاست پاکستان 73سال کے ایک طویل اور کٹھن دور سے گز ری،جس میں مجمو عی طور پر یہاں مذہبی اقلیتوں کو تو ایک طرف خودکلمہ گو مسلمانوں کو بھی مذہب کے نام پر تہ تیغ کیا گیا،یہ کوئی آسان سفر نہیں،جان سے گزر جانے کا نام ہے،پاکستان کے قیام اور تعمیر پاکستان میں اقلیتوں کا اہم کردار رہا ہے،لیکن اس مذہبی انتہا پسندی اور جنونیت کا کیا کیجئے جس نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا،جنرل ضیاء الحق کے دور میں ہونے والی مذہبی،لسانی اور فروعی برین واشنگ اس قدر گہری ہوچکی ہے کہ اب پاکستان سچ بولنے اور حقائق بیان کرنے کے لئے ایک خطرناک خطہ زمین بن چکا ہے،آپ بھلے کسی بھی مسئلے پر کتنا ہی سچ بول دیں،لیکن کسی نے یقین نہیں کرنا،اپنے مخصوص مذہبی اور فروعی نظریات کو منوانے کے لئے آپ کے اُوپر کیچڑ اُچھالاجائے گا،ذاتیات پر حملے کئے جائیں گئے،آپ کے ایمان کو ماپا جائے گا،پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک یا پھر سوشل میڈیا ہر جگہ ایک جیسا حال ہے،وہ تو بھلا ہو سوشل میڈیا کہ وہاں ابھی وہ حال نہیں ہوا کہ سنسر کی قینچی چل جائے،لیکن پھر بھی ہمارے مذہبی کرم فرما اپنے مخالفین کو جو حشر کرتے ہیں،وہ کسی تعریف کا محتاج نہیں،جو کام خالق کائنات اللہ ر ب العزت کے کرنے کے ہیں وہ آج کل انسانوں نے سنبھال لئے ہیں اور انسانوں کے کرنے والے کام اللہ کے سپرد کرکے خود اللہ کی مخلوق کے ایمان کا جائزہ لیا جارہا ہے، اب مندر بنانے والے معاملے کو ہی لے لیں،سوشل میڈیا پر جو ہاہا کار مچی ہے کہ اللہ بچائے،اچھے خاصے پڑھے لکھے باشعور لوگ اس کے خلاف جو کچھ کہہ رہے ہیں،اس نے کٹھ مذہبی کم پڑھے لکھوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے،کہیں کی مثال کہیں فٹ کردینے والے ہمارے سوشل میڈیا ئی دانشور اب باقاعدہ مندر کی حمایت کرنے والوں کو گالیاں د ینے اور گھر کا پتہ پوچھنے تک آگئے ہیں،اس میں کوئی شک و شبے کی بات نہیں باقی رہی کہ پاکستان کا معاشرہ اب مذہبی،فروعی اور لسانی بنیادوں پر تباہی کے اُس دھانے پر آن کھڑا ہوا ہے جہاں کوئی ہلکی سی چنگاری پورے نشیمن کو جلا کر بھسم کردینے کے لئے کافی ہے،تقسیم در تقسیم کا ایک عمل ہے جو تیزی سے جاری ہے،اور کسی طور نہ تو حکومتی سطح پر اور نہ ہی معاشرتی سطح پر اس کی روک تھام کے لئے کوئی اقدامات کئے جارہے ہیں،آئے روز کلمہ گو مسلمانوں اور اقلیتوں کے ساتھ کوئی نہ کوئی انسانیت سوز سانحہ وقوع پذیر ہو جانا معمول کی بات بن چکی ہے،ظلم تو یہ ہے کہ قرآن مجید فرقان حمید ہمیں ایک انسانی جان بچانے کو گویا پوری نسل انسانی بچانے اور ایک ناحق قتل کو پوری نسل انسانی قتل کرنے کے مترداف ہونے کا درس دیتا ہے،لیکن اب یہ سب باتیں خواہ جناح کی 11 اگست کی تقریر ہویا قرآن مجید کا درس کتابی باتیں بن کر رہ گئی ہیں،یہاں ایک سوال میں مندر بنانے کے مخالفین سے کرنا چاہوں گا کہ جناح نے جب مسجدوں،مندروں،کلیساؤں اور عبادت گاہوں میں آزاد جانے کی بات کی،تو کیا وہ بھارت کے ہندوؤں سے مخاطب تھے؟؟؟یا پاکستان کی دستور ساز اسمبلی سے؟؟؟ظاہر سی بات ہے کہ جناح ریاست پاکستان کی پالیسی بیان کررہے تھے،تو بھائی جب مندر ہوگا،کلیساء ہو گا،گردوارہ ہوگا تو کوئی جائے گا نہ آزادانہ،یا وہ ہوا میں اپناخیالی عبادت خانہ قائم کرکے اپنی عبادت کرے گا؟جب ہم مسلمان غیر مسلم ممالک میں جا کر اپنے اپنے فرقے کی مساجد قائم کرسکتے ہیں،مدرسے کھول سکتے ہیں تو پاکستان میں اگر ہندوؤں نے اپنا مندر بنا لیا تو کون سی قیامت ٹوٹ پڑے گی؟دوسرا اعتراض یہ سامنے آیا کہ جی حکومتی خرچے سے کیوں مندر بنایا جارہاہے،او عقل کے اندھو پاکستان میں رہنے والی اقلیتیں بھی پاکستان کی ہی شہری ہیں،کیا اُن کا حق نہیں ریاست کے وسائل پر؟یہ کیا تُک ہے کہ سرکاری خرچے پر مندر نہیں بن سکتا،یہ تو آئین پاکستان سے بھی انحراف والی بات ہوئی جو تمام پاکستانی شہریوں کو برابر کے شہری حقوق دینے کا ضامن ہے،لہذا یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ مندر کی تعمیر کی اتنی مخالفت کیوں؟مجھے تو ڈر ہے کہ کہیں خدانخواستہ کوئی مذہبی گروہ یا انتہا پسند گروپ مندر والی جگہ پر جاکر توڑ پھوڑ ہی نہ کردے،ان عناصر سے کچھ بھی بعید نہیں،یہ لوگ معاشرے کے خود ساختہ خدا بنے ہوئے ہے،پاکستان کو اپنی مرضی سے اپنے ڈھب سے چلانے کے لئے یہ کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں،لیکن ان سب باتوں سے ایک بہت بڑا نقصان جو ہو رہا ہے وہ ہمارا عالمی اور علاقائی سطح پر بگڑتا ہوا امیج ہے،بھارت جیسا دشمن جو پاکستان کو بدنام کرنے کے لئے کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا،یقینا اس ساری صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہے،مندر بنانے والے معاملے پر اگر کوئی ذرا سی بھی کوتاہی ہم سے سرزد ہوگئی تو بھارت کو بات کرنے کا موقع مل جائے گا،مجھے اُمید ہے کہ ہمارے ذمہ دار ادارے اس پر بھی دھیان رکھے ہوئے ہوں گے،کہ دشمن کو کوئی موقع نہ ملے،لیکن جو طوفان اس وقت سوشل میڈیا پر چھایا ہوا ہے اس کا ادراک بھی کرنا ہو گا،ایسے عناصر پر کڑی نگاہ رکھنی ہوگی جو پاکستان میں بسنے والے اقلیتوں کونقصان پہنچانے کے درپے رہتے ہیں،جس سے اُن کی اپنی مذہبی انا کی تو تسکین ہو جاتی ہے لیکن پاکستان عالمی سطح پر تماشا بن جاتا ہے اور پھر ہمیں ان جاہلوں کی وجہ سے عالمی فورم پر اپنی صفائی دینا پڑجاتی ہے،

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply