جوہری کو کیا معلوم۔۔ ابرارخٹک

سوچ و فکر کے دائرے تنگ ہوں تو وسعت قلب و ذہن کی توقع بھی حسرت کا کفن اوڑھ لیتی ہے کہ اخلاقی لحاظ سے روبہ تنزل افرادحسد ، بغض، تعصب اور لالچ کی آگ میں مسلسل جل کر ہر شعبہ ٔ حیات کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ عظیم تر مفاد ،اعلیٰ اقدار اور سب سے بڑھ کر انتہائی ’’عظمت و ترجیحات ‘‘پر مبنی امور کو بھی نفع و نقصان اور منفی سوچ کی نذر کردیتے ہیں۔کرونا کی وبا نے ہماری ساری خوبیوں اور خامیوں کو آشکا ر کردیا ہے۔سوشل میڈیا کے جغادریوں نے جس طرح منفی پروپیگنڈے سے موت کا رقص جاری کیا ،کسی بھی ذمہ دا ر اور مہذب معاشرے میں اس کی مثا ل نہیں ملتی۔ وبا سے بچاؤ کےحفاظتی اقدامات اور سب سے بڑھ کر طبی اصولو ں پر عمل پیرا ہونے سے ہم نقصانات کی شدت سے جس قدر بچ سکتے تھے،اسی شدت سے نقصان اٹھا رہے ہیں،کہ یہاں علم سے زیادہ منفی پروپیگنڈے کو اہمیت دی جاتی ہے اور تحقیق سے زیادہ سنی سنائی بات پر حقیقت کی مہر ثبت کی جاتی ہے۔ایسے میں اگر کوئی استاد کو گھر بیٹھے کام نہ کرنےاور چارمہینے کی تنخواہ لینے کا طعنہ دے تو کوئی تعجب خیز بات نہیں کہ ایسے لوگوں سے اس سے زیادہ کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی۔ یہ لوگ جس کیلکولیٹر سے استاد کی تنخواہوں کا حساب لگاتے ہیں ،اس میں ہندسوں کے سوا کچھ نہیں ،وہ صرف منفی اور جمع کے تصور کا احاطہ کرتا ہے جب کہ اس کے لیے وجدان،احساس اور روح و قلب کے جذبوں کا شمار کرنے والے آلے کی ضرورت ہوتی ہے جو ابھی تک ایجاد نہ ہوسکا۔

افتخار عار ف نے کہا تھا:

جوہری کو کیا معلوم، کس طرح کی مٹی میں کیسے پھول ہوتےہیں

کس طرح کے پھولوں میں کیسی باس ہوتی ہے

جوہری کو کیامعلوم

جوہری تو ساری عمر پتھروں میں رہتا ہے

زرگروں میں رہتا ہے

جوہری کو کیا معلوم

یہ تو بس وہی جانے

جس نے اپنی مٹی سے ،اپنا ایک اک پیماں استوار رکھا ہو

جس نے حرف ِ پیماں کا اعتبار رکھا ہو

جوہری کو کیا معلوم، کس طرح کی مٹی میں کیسے پھول ہوتےہیں

کس طرح کے پھولوں میں کیسی باس ہوتی ہے!

تدریس کا رشتہ روح و جسم کا رشتہ ہے،استاد کا روحانی وجسمانی سکون ،خوشی،اطمینان ِ قلب وذہن اور سب سے بڑھ کر ذوق و شوق کا مرکزو محور تدریس ہوتا ہے،یہی اس کی سب سے بڑی عیاشی بھی ہوتی ہے ۔جس نے بھی مشرقی اقدار کی گود میں آنکھ کھولی ، اسلاف کا طرز عمل دیکھا، وژن ومشن رکھتا ہے او ر مشرق و مغرب کے مثبت تعلیمی وتدریسی تجربات کا مطالعہ،مشاہدہ کیا ہوگا ، وہ کبھی بھی کلاس روم کے باہر خوش نہیں رہ سکے گا۔ایک عجیب سی بے کلی،بے چینی ہے،جو تدریسی عمل کے موقوف ہونے کے ساتھ ہی اساتذہ کے دلوں پر طاری ہوچکی ہے،ہر روز اس میں اضافہ ہورہاہے مگر کیا کیجیے ،کہ اس کا احاطہ ہر کوئی نہیں کرسکتا۔کرونا کی وبا نے جان و مال کو ہی سولی پر نہیں رکھا بلکہ جزبوں،خواہشوں،سوچ و فکر کی وسعتوں اور دلوں کے منبعوں سے نکلنے والے بے شمار سوتوں کو بھی خشک کردیا ہے۔ دارلتدریس، کمرہ ٔ جماعت،ماحول،دیواریں ،قلم،بورڈ،مارکر،طلبہ ،تعلیمی وتخلیقی فضا ،ہماری زندگی اصل میں وہی ہے،آپ کسی بھی استاد سے پوچھیں ،وہ بے چینی کے ایسے عہد سے گزر رہاہے ،جو ناقابل بیاں ہے ۔ تدریسی عمل ،جو مطالعے،مشاہدے اور تجربے ،حیرت اور رومان جیسی کیفیات کا مجموعہ ہوتا ہے، سے دور رہ کر وہ کیسے پرسکون رہ سکتا ہے؟تزکیہ  نفس اور خیر کثیر کے امتزاج سے جنم لینے والا علم ہی دراصل تجربات سے نکل کر انفرادی و اجتماعی انقلابات کی راہیں ہموار کرتا ہے۔مگر کیا کیجیے کہ :

شہر آسیب میں آنکھیں ہی نہیں ہیں کافی

الٹا لٹکوگے تو پھر سیدھا دکھائی دے گا!

استثنا  زندگی کے ہر شعبے میں ہے،اس سے کوئی مبرّا نہیں،اساتذہ میں بھی کمزور یوں کے حامل لوگ موجود ہیں کہ ان کا تعلق بھی اسی معاشرے سے ہے،تاہم اقلیت کی خاطر اکثریت کو تنقید کا نشانہ بنانا،قرین انصاف ہرگز نہیں۔استاد چاہے جہاں کہیں ہو،مدرہ،دارلعلوم، مسجد، سرکاری ، پرائیویٹ، سکول،کالج ،یونیورسٹی غرض کسی بھی تدریسی و تربیتی مرکز سے اس کا تعلق ہو،حساس طبیعت کا مالک ہوگا،اس کے اندر دوسرے انسانوں کااحساس اور درد کا مادہ ہر دوسرے شعبے سے منسلک انسان کے مقابلے میں زیادہ متحرک ہوگا کہ وہ خود ان جذبوں کا انتقال دوسرے انسانوں اور شعبوں میں کرتا ہے۔ وہ اس کو ایک عظیم تر مقصد، دیر پا ذمہ داری اور مشن وکام سمجھتا ہے،کہ اس کا تعلق قوموں کے عروج و زوال اور بچوں کے عظیم تر مستقبل سے ہے۔مدارس،نجی تعلیمی اداروں کے لاکھوں اساتذہ آج جس کسمپرسی کے عالم سے گزر رہے ہیں،اور سفید پوش طبقے کی مانند خیرات مانگ سکتے ہیں نہ حق ، اس کا احاطہ وہی کرسکتا ہے جو اس کرب و درد سے خود گزر چکا ہو۔سسٹم کا مسئلہ افراد پر ڈالنا ،ہر گز درست نہیں ہوتا۔ ہر شعبے کو دوسرے کے برابر کرنا بھی درست نہیں لیکن کیا کیجیے کہ ہم نفسیاتی لحاظ سے بے شمار ذہنی و اخلاقی بیماریوں کے شکار ہیں۔استاد کو تھپڑ مارو،ہتھکڑی لگاؤ،سلاخوں کے پیچھے بند کرو،اس کو کام چور کہو،سوشل میڈیا پر اس کی کردارکشی کرو،زبان سے کچھ نہیں جاتا کہ وہ شریف ہے اور خاموش رہ کر سب کچھ سہہ لیتا ہے ، مگر کسی جج،جرنیل،یہاں تک کہ ایک سپاہی کی شان میں گستاخی کی جائے تو زلزلہ برپا ہوجاتا ہے،ایسے میں اگر کسی استاد سے تنخواہ میں اضافے کی بات کا جرم سرزد ہوجائے تو اسے نشان عبرت بنانا ضروری ہے کہ یہاں تحفظ کرنل کی بیوی، آفیسرز،بیلٹ،وردی،منصب و کرسی پر براجمان فرد کو حاصل ہے،یہ خاک نشین کس حساب وکتاب میں ؟

میں ایسے بے شمار اساتذہ کو جانتاہوں جن کا مشن اس معاشرے کی رگوں میں اعلیٰ اقدار کا انتقال ہے،وہ شہرت ،انعامات و اکرامات،صلہ و ستائش سے بے نیاز ایک مشن اور مقصد کے تحت اپنی مقدور بھر کوشش کرتے ہیں۔امانت،دیانت،صداقت،عدل و مساوات کے قائل ہوکر ایمان داری سے اپنی ڈیوٹی ادا کرتے ہیں،مگر کیا صرف لفظوں سے آپ ان کی قدر افزائی کرکے خلاص ہوجاتے ہیں ؟مغرب پر ہزار بار واری ہونے والے ،فلاحی ریاست کی مثالیں دینے والے سیاست دان اور سوشل میڈیا کے جوکر و مداری نہیں جانتے کہ سسٹم کیا چیز ہے اور استاد کو ماحول دے کر کیسے استعمال کرنا ہے؟آکسفرڈ و کیمرج،بغداد،قرطبہ ، غرناطہ کی مثالیں دیتے ہوئے ہمیں اس ماحول کو بھی مدنظر رکھنا ہوگاجو وہاں کے حکمرانوں نے اساتذہ کو فراہم کیا تھا ۔ایسے میں بھی استاد کی عظمت کو سلام ،کہ جب بھی وطن عزیز نے پکارا،ہر میدان میں قومی خدمت کی انجام دہی کے لیے لبیک کہا!

اذیت ،مصیبت،ملامت ،بلائیں

Advertisements
julia rana solicitors

تیرے عشق میں ہم نے کیا کیا نہ دیکھا!

Facebook Comments

ابرار خٹک
میں کہ مری غزل میں ہے آتش رفتہ کا سراغ۔ مری تمام سرگزشت کھوۓہوٶں کی جستجو۔۔۔(اقبال)

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply