آہ!میری لاڈلی بہن۔۔آغرؔ ندیم سحر

زندگی کس قدر بے اعتبار شے ہے،اس کا اندازہ کرونائی عہد میں زیادہ شدت سے ہوا۔صبح سے شام تک موت کی خبریں سنتے ہوئے اس قدر خوف زدہ اور ڈپریشن کا شکار ہو چکا ہوں کہ اب تو معمولی سے طبیعت کی خرابی پہ بھی یہی گماں ہونے لگتا ہے کہ بس اب جانے کا وقت آ پہنچا۔اس عجیب و غریب کیفیت میں انسان نہ تو کوئی خوشی ٹھیک سے انجوائے کر پا رہا ہے اور نہ ہی غم کا ماتم۔جون کا آغاز ہوا اور شروع کے پندرہ دنوں میں پچیس کے قریب اموات دیکھی اور سنی اور ان میں زیادہ تر لوگ جاننے والے تھے یاکہ عزیز و اقارب۔اسی دوران ایک اہم ترین حادثہ میری بڑی ہمشیرہ کی وفات کا بھی ہوا جو گزشتہ ایک برس سے دل کے عارضے میں مبتلا تھیں اور یہ عارضہ جان لیوا ثابت ہوا۔پندرہ جون کی صبح گیارہ بجے ان کی حالت خراب ہوئی،جس پر ہسپتال لے جایا گیا مگر شاید وہ ہسپتال پہنچنے سے قبل ہی داعی اجل کی آواز پر دائمی منزل کا سفر اختیار کر چکی تھی۔کتنی تکلیف اور اذیت بھرا وہ لمحہ ہوتا ہے جب آپ اپنے کسی بھائی یا بہن یا کسی بھی ایسے عزیز کو منوں مٹی میں رکھ کر آرہے ہوتے ہیں جس کے ساتھ آپ نے زندگی کے پچیس سے تیس سال گزارے ہوں۔

ایسا ہی لمحہ تھا جب میں اپنی بہن کے جنازے کو کندھا دے رہا تھا،اسے اپنے ہی ہاتھوں سے قبر میں اتار کر اسے ہمیشہ کے لیے الوداع کہہ رہا تھا،یقین جانیے وہ لمحہ شاید زندگی کا سب سے بھاری لمحہ تھا۔کیا کہا جائے،خدا کے فیصلوں کے سامنے سرنڈر کرنا ہی مسلمان کا شیوہ ہے اور میں اور میرے اہلِ خانہ نے خدا کے اتنے بڑے اور سخت ترین فیصلے پر سرِ تسلیمِ خم کر لیا لیکن دل ہے کہ اس بات کو ماننے کو تیار ہی نہیں کہ ہماری وہ بہن جو سب سے زیادہ بہادر اور ذہین تھیں،اس دنیا سے کوچ کر چکی۔کہتے ہیں اچھے لوگوں کی اوپر بھی ضرورت ہے،شاید یہی وجہ ہے کہ پینتیس سال کی عمر جو یقیناً کوئی زیادہ عمر نہیں،ہارٹ اٹیک سے وہ چل بسی اور اپنے پیچھے تین بیٹیاں اپنی نشانی کے طور پر چھوڑ گئیں۔زندگی کتنی طویل اور کٹھن ہوتی ہے اس سے ہم سب بخوبی واقف ہیں۔آپ اندازہ کریں کہ جن تین بیٹیوں کو وہ ظالم دنیا کے حوالے کر کے چل بسی،کیا وہ اس دنیا میں ماں جیسی عظیم ترین ہستی کے بغیر زندگی کی رعنائیوں سے لطف اندوز ہو سکیں گی یا کیا وہ تکلیف دہ مراحل میں ماں کی کمی کے دکھ کو برداشت کر سکیں گی،یقینا ً بالکل نہیں۔

میں آج ایک ہفتے بعد سنبھل سکا ہوں،تعزیت کرنے والوں کا تانتا بندھا رہا۔دنیا بھر سے سوشل میڈیا اور کالز کے ذریعے تعزیتی پیغامات موصول ہوتے رہے مگر میں اپنی تکلیف کی وجہ سے کسی بھی دوست کو جواب نہ دے سکا لیکن میں سب کا شکر گزار ہوں کہ مجھے اس مصیبت کی گھڑی میں آپ دوستوں نے اکیلا نہیں ہونے دیا اور مسلسل رابطے میں رہے۔یہ نقصان ایسا حادثہ ہے جو کبھی پورا نہیں ہو سکتا کیونکہ بیٹیوں کو نہ دوبارہ ماں مل سکتی ہے اور ہمیں نہ بہن۔اگرچہ کسی بھی رشتے کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا لیکن ماں اور بہن کا تعلق ہی ایسا ہوتا ہے کہ جس کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے اور جن کی کمی ہمیں ادھ موا کر دیتی ہے۔مجھے خوب یاد ہے کہ زندگی میں کئی ایسے مقامات آئے جب میرے ساتھ کوئی کھڑا ہونے والا نہیں تھا،مگر میری اسی مرحومہ بہن نے میرا ساتھ دیا۔ایک سال بیماری سے لڑتی رہی لیکن کبھی چہرے پر مایوسی نہ آئی،کبھی دوسروں کو مایوس نہ کیا بلکہ ہمیشہ یہی تاثر دیا کہ میں بالکل ٹھیک ہوں اور موت میرے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی۔آخری روز بھی حسبِ معمول ناشتہ کیا،عیادت کرنے والوں سے باتیں کیں،انہیں زندگی کی رعنائیوں کادرس دیا اور طبیعت خراب ہونے پر ہسپتال روانہ ہوتے ہوئے بھی سب سے سورۃ یٰسین پڑھنے کا درس دیتی ہوئے رخصت ہوئی اور واپس صرف اس کا جسدِ خاکی پہنچا۔

Advertisements
julia rana solicitors

آج جب میں یہ کالم لکھنے بیٹھا تو زندگی کے پچیس سال میری نظروں کے سامنے کھڑے ہو گئے۔ایک ایک واقعہ،ایک ایک لمحہ مجھے آنکھیں دکھا رہا ہے کہ مجھے بھی لکھو،میرا بھی ذکر کرو لیکن میری ہمت جواب دیتی جا رہی ہے۔میں کسی بھی واقعے یا گزشتہ لمحے کو نہیں لکھنا چاہتا یا شاید میں لکھ نہیں سکتا کیونکہ میں یہ کالم نم آنکھوں سے لکھ رہے ہیں،لفظ میرے سامنے مختلف شکلیں اختیار کرتے جا رہے اور انگلیاں لیپ ٹاپ کے کی بورڈ پر چلنے کی بجائے میرے دل پر چل رہی ہیں۔میں نے پہلے ذکر کیا کہ بہنوں کا نعم البدل نہیں ہوتا۔جیسے بھائی بہنوں کا تاج ہوتے ہیں ایسے ہی بہنیں بھی بھائیوں کا مان ہوتی ہیں اور اگر ایسے اچانک عین جوانی میں وہ مان آپ سے رخصت ہو جائے تو زندگی واقعی تکلیف دہ ہوتی ہے۔آج جب اس ہمشیر ہ کی بیٹیاں آپس میں لڑائی جھگڑا کرتی ہوئی یہ کہتی ہیں کہ میں ماما کو شکایت کرنے جا رہی ہوں تو وہاں بیٹھے لوگ دھاڑیں مار کے رونے لگتے ہیں،ان ننھی پریوں کو کیا پتا کہ ماں تو اس دیس جا چکی ہے جہاں سے واپسی کا راستہ نہیں ہے۔اس ایک ہفتے میں دلاسے اور صبر جیسے الفاظ اس قدر میری سماعتوں سے ٹکرائے کہ اب تو مجھے یہ الفاظ بے معنی سے لگنے لگے ہیں۔صبر کہاں آتا ہے؟حوصلہ کہاں ملتا ہے؟۔یہ سب کہنے کی باتیں ہیں ورنہ دکھ تو نسلوں ساتھ چلتے ہیں،دکھ تو آپ کا پیچھا کرتے ہیں اور تب تک آپ کو نہیں چھوڑتے جب تک آپ کو بھی مار نہ دیں۔اپنوں کی وفات پر صبر کا درس دینے والے کیوں بھول جاتے ہیں کہ دکھ لفظ ہی ایسا ہے جس نے مرتے دم تک آپ کے ساتھ چلنا ہے۔یہ سچ ہے کہ وقت ہر زخم کو بھر دیتا ہے لیکن موت ایک ایسا زخم ہے جو وقت کی گرد میں دب تو جاتا ہے مگر کبھی بھرتا نہیں ہے۔جب لوگ عین جوانی میں جائیں تو زخم بھرنے کا جواز ہی پیدا نہیں ہوتا۔میں گزشتہ ایک ہفتے سے ایک ہی دعا کر رہا ہوں کہ خدا اس کی تین چھوٹی چھوٹی بیٹیوں کو تنہا نہ چھوڑے،ان کی کفالت ایسے لوگ کریں جو انہیں ماں کی کمی کم سے کم محسوس ہونے دیں۔ان کی پڑھائی سے لے کر زندگی کے تمام معاملات اچھے طریقے سے طے ہوں اور وہ اپنی ماں کانام ملک و قوم کی ترقی میں حصہ ڈال کر روشن کریں۔کسی نے کیا خوب کہا تھا:
ابھی جامِ عمر بھرا نہ تھا،کفِ دستِ ساقی چھلک پڑا
رہی دل کی دل ہی میں حسرتیں کہ نشاں قضا نے مٹا دیا
یا احمد مشتاق کا شعر دیکھیں:
رفتہ رفتہ تھم گیا مانوس آوازوں کا شور
دل میں یادیں،ڈائری میں فون نمبر رہ گئے!

Facebook Comments

آغر ندیم سحر
تعارف آغر ندیم سحر کا تعلق منڈی بہاءالدین سے ہے۔گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔آپ مختلف قومی اخبارات و جرائد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔گزشتہ تین سال سے روزنامہ نئی بات کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔گورنمنٹ کینٹ کالج فار بوائز،لاہور کینٹ میں بطور استاد شعبہ اردو اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل بھی کئی اہم ترین تعلیمی اداروں میں بطور استاد اہنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔معروف علمی دانش گاہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم اے جبکہ گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم فل ادبیات کی ڈگری حاصل کی۔۔2012 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ لوح_ادراک شائع ہوا جبکہ 2013 میں ایک کہانیوں کا انتخاب چھپا۔2017 میں آپ کی مزاحمتی شاعری پر آسیہ جبیں نامی طالبہ نے یونیورسٹی آف لاہور نے ایم فل اردو کا تحقیقی مقالہ لکھا۔۔پندرہ قومی و بین الاقوامی اردو کانفرنسوں میں بطور مندوب شرکت کی اور اپنے تحقیق مقالہ جات پیش کیے۔ملک بھر کی ادبی تنظیموں کی طرف سے پچاس سے زائد علمی و ادبی ایوارڈز حاصل کیے۔2017 میں آپ کو"برین آف منڈی بہاؤالدین"کا ایوارڈ بھی دیا گیا جبکہ اس سے قبل 2012 میں آپ کو مضمون نگاری میں وزارتی ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔۔۔آپ مکالمہ کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہو گئے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply