چھوٹے کی لیبر۔۔جنیدمنصور

گئے  دنوں کی  بات ہے ،میں بالوں کی کٹنگ کے لیے اس سیلون پر پہنچا  ،جہاں سے  میں کٹنگ کرواتا ہوں۔   رش کافی تھا ، میں اپنی باری کے انتظار میں  ویٹنگ روم  میں بیٹھ گیا۔    اپنی باری  آنے پر  میں  اندر کرسی پر بیٹھ گیا۔  ایک چھوٹی سی عمر کا لڑکا  جس کی  عمر  بمشکل  بارہ  یا تیرہ سال ہو گی،  نمودار  ہوا،  اس لڑکے کو میں نے پہلی بار اس  سیلون پر دیکھا  تھا،  اور انتہائی   چستی اور چابکدستی سے مجھے ایپرن باندھنے لگا۔  عام سی شکل،  سادہ سے تیل کی کثرت سے گولڈن ہوتے ہوئے  بال اور چہرے پر سادگی اور بھولپن لیےوہ مجھے  کسی اور ہی دنیا سے آئی ہوئی ننھی مُنی  مخلوق لگا۔

میں نے   بھائی  سے جو سیلون کے مالک تھے  اور ابھی بھی درد دل رکھنے والے اچھے لوگوں میں شامل تھے، سے پوچھا کہ یہ بچہ کون ہے۔  بھائی جو اب بھی شام کے وقت اپنے خاص خاص کسٹمرز کی کٹنگ  لڑکوں کو سونپنے کی بجائے خود  ہی کیا کرتے تھے، بولے کہ  یہ ” ووائے ” ہے،سات بہن بھائیوں میں  سب سے بڑا ۔   بھائی کی انگلیوں میں  اب بھی جادو تھا، وقت گزرنے کے  ساتھ ساتھ  ایک عجیب سی نفاست ان کی  شخصیت میں شامل ہو گئی تھی۔ بات جاری رکھتے ہوئے بولے،  باپ نکما ہے،  ایک دم ، لال پری کا شیدائی، یہ کہتے ہوئے  بھائی کے گہرے سے رنگ میں مزید  قرمزی  رنگ کا اضافہ سا ہو گیا، کوئی دن نہیں جاتا  جب  بچوں کی  فری ہینڈ ٹھکائی نہیں کرتا ، ڈیش ڈیش،  بھائی نے بات جاری رکھتے ہوئے اپنی  چار تولے  کی سو نے کی چین پر ہاتھ پھیر کر اس کو  محسوس کیا ا ور بات جاری رکھی، سب کو کام پر ڈال رکھا ہے ،ڈیش ڈیش کے ڈیش نے۔۔۔  بھائی  کے چہرے پر ایک درد ناک سا تاثر ٔ اُبھرا ،جیسے ماضی کی کوئی  تلخ یاد اچانک ان کے دماغ میں سے بجلی کی سی  رفتار کے ساتھ  ان کو  جھنجھوڑتے ہوئے  گزری ہو۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

بہر حال اپنے ماضی سے رابطہ منقطع کرتے ہوئے  ہوئے  انھوں نے اپنی بات کا سلسلہ آ گے بڑھایا اور  گویا  ہوئے۔ کل بھی وہ  اس چھوٹے سے بچے کی پٹائی کر رہا تھا، تو میرا گزر ہوا،  بھائی  نے انتہائی نفاست سے   اپنی مونچھوں کو  تاؤ دیتے ہوئے کہا، ان کی  مونچھیں  اور  چہرے کے بال لیٹسٹ فیشن کے مطابق   بالکل  اٹا لین ماڈلز کی  طرح انتہائی  گھنے اور   گہرے   تھے  جو ان کی گہری قرمچی رنگت میں مزید نکھار پیدا کر دیتے تھے،  میری پچھلی گلی میں ہی تو  رہتا ہے، یہ کہتے ہوئے انھوں نے  نئے آنے والے   کسٹمر سے سلام لیا اور شاید اس کی جیب اور پرس کا   ایک ابتدائی سکین بھی کر لیا، ماں بھی اس کی کام کرتی ہے، گھر گھر جا کر  جھاڑو ٹاکی کرتی ہے ، یہ کہتے  ہوئے انھوں نے  بڑے ادب کے ساتھ نئے   آ نے والے کسٹمر کو  ایک نئی سیٹ آفر کی اور  اپنے اسسٹنٹ کو اسے ایپرن باندھنے کے احکامات ایک ہی سانس  میں جاری کر ڈالے،  مجھے ترس  آ  گیا پھر مگر اس سے پہلے غصہ   ،بھائی نے کہا، وہ  غصے کے بہت  وہ والے ” جانور” تھے اور ان کا تمام سٹاف ان کی اس عادت سے بخوبی  واقف تھااو ر  کبھی بھی   کوئی بھی ان کی ‘ لائن  آف فائر’ میں  آنے کی جان لیوا غلطی نہیں کرتا تھا ، جس کو ہو جاں عزیز۔۔۔، میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر  پوچھا  کتنے پیسوں کے لئے مار رہے ہو  بچے کو،  انھوں نے اپنی بات جاری رکھی، بہادر بھی بہت تھے  بھائی ،ایک مرتبہ  رات کو ویلنگ کرتے وقت  بارہ لڑکوں کے ایک  گینگ سے اکیلے ہی  ٹکرا  گئے تھے اور  ان میں  سے تین کو خاک چاٹنے پر  مجبور کرتے ہوئے باقیوں کو  دفاعی پوزیشن میں اتنی دیر  تک ” انگیج” رکھا تھا کہ باقی گینگ  ممبرز بھی پہنچ گئے، ڈیش ڈیش کا ڈیش صرف سو  روپے کی خا طر بچے کو  مار رہا تھا تو میں نے کہا کہ  میں اس کو روزانہ کے  ایک سو بیس   روپے دوں گا تو اس کے باپ کا دماغ ٹھکانے پر آیا ،ورنہ  بچے کی جان ہی  لینے پر آمادہ تھا۔۔ انھوں نے پُرتفاخر انداز سے اس مرتبہ  مجھے اور اس بچے دونوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا،  سائیکل سے گاڑی  کا سفر  بھائی  نے بڑی جلدی سے طے  کیا تھا  ،اور انھیں اس بات پر  فخر تھا بھی  بہت  ،دن میں  پچیس تیس مرتبہ اپنے کارکنوں کو اپنی مثال دے  کر  ‘ موٹیویٹ’ کرتے رہتے تھے،  ساتھ ہی  غلط سمت سے  ٹرمر پکڑنے  والا  سٹاف ممبر ان کی عقابی آنکھوں  کی گرفت سے  بچ نہ پایا اور ڈانٹ کھا  بیٹھا، میرے بال  جادوئی رفتار سے کاٹتے ہوئے  ان کی نگاہیں ہر جگہ کا جائزہ بھی لے رہی تھیں،  میرا دل تو  تمہیں پتا ہی ہے کہ  کتنا نرم ہے  بس میں  یہ برداشت ہی نہیں کر پایا کہ  اس کا باپ اس  کی اس  طرح سے بے عزتی کرے، اس کی بھی تو آخر کوئی سیلف ریسپیکٹ ہے نا، ہے کہ نہیں، یہ بات   مجھ  سے کرتے ہوئے انھوں نے اس بچے سے  کٹر مانگا، بچے نے ہاتھ آگے  بڑھایا مگر  اس سے پہلے کہ  وہ بھائی  کے ہاتھ میں پہنچتا  انھوں نے  بے  خیالی میں  ہاتھ پیچھے کر لیا، نتیجے کے   طور پر  ٹرمر نیچے گر گیا، ڈیش ڈیش ڈیش ڈیش، ان کے منہ سے  گالیوں کی نہ تھمنے والی  غضبناک  قسم کی بوچھاڑ  شروع ہو گئی مگر صرف   اپنے اندر کے فلش کو سب کے سامنے خالی کرنے سے   بھی بھائی کے گرم جذبات کی تسلی نہ ہو پائی۔ چنگھاڑتے ہوئے  اس بچے  پر پل پڑے اور اگلے دو منٹ میں اس کا  نرا کچومر ہی بنا ڈالا۔ہاتھ کے ساتھ ساتھ بھائی کی زبان  بھی برابر  رفتار سے چل رہی تھی۔تمام کارکن بھائی کے جلال کے سامنے  سہم چکے تھے۔غیرت جذبات میں مَیں نے  بھائی کا  فولادی  ہاتھ روک دیا ۔ بھائی کا پارہ مزید  چڑھ گیا ، منہ سے جھاگ  نکالتے ہوئے بولے” سر جی ، یہ آپ کا مسئلہ نہیں ہے، اس بچے کے پیو کو میں  پورے ایک سو وی روپے دیہاڑی دیتا ہو ں۔ روزانہ۔۔ بال کٹوانے ہیں تو ٹھیک ہیں ورنہ تسی نکلو ایتھوں!” تب مجھے اندازہ  ہوا کہ جب تک معاشرے میں چھوٹے کی  لیبر کی ضرورت رہے گی، چھوٹے ہمیشہ ایسے ہی   سلوک سے گزرتے رہیں گے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply