گلگت بلتستان اسمبلی کی حیثیت۔۔محمد ہاشم

ہمارے مشرقی معاشرے کی ایک روایت ہے کہ گھر سے اگر کوئی بہن, بیٹی نے باہر جانا ہو اور گھر کا کوئی مرد   موجود نہ ہو تو ساتھ چھوٹا بچہ (لڑکا) بھیج دیتے ہیں کہ اکیلی نہ جائے کوئی مرد ساتھ ہو۔ یہ بچہ عمر میں چھوٹا اور معصوم ہوتا ہے اور اس بچے کو بھیجنا ایک طرح کی فارمیلٹی ہے جو ہمارے پدرسری نظام اور ہمارے معاشرے میں عورت کے تحفظ اور عورت کی حیثیت کا ایک نمونہ ہے۔

جب اس لڑکی کے ساتھ بچے کو بھیجا جاتا ہے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ بچہ اگر کوئی انہونی ہو جائے تو کچھ کر نہیں پائے گا بس اتنا کر سکتا ہے کہ شور مچائے گا یا گھر آ کے بتائے گا۔ سڑک سے یا کسی مارکیٹ سے گزرتے کوئی گلی کا چمار اس لڑکی کو گھورتا ہے, ساتھ چلتا ہے یا اشارے کرتا ہے تو یہ بچہ بمشکل ہی نوٹس کرتا ہے۔
اور اگر لڑکی خود کسی سے ملنے آئی ہے  تو اندر خانہ دور یا پاس سے ملاقات بھی ہوجاتی ہے اور بچے کو کسی اور چیز میں مشغول کر کے تحفے تحائف تک کا تبادلہ ہوتا ہے۔

ہاں اگر کہیں بچہ کوئی ایسی حرکت نوٹس کرے اور بولے تو لڑکی اس کو کچھ دے دلا کے یا دھمکا کے چپ کرا دیتی ہے۔ اگر کبھی بچہ گھر میں والدین کے سامنے ایسے کسی واقعے کا ذکر بھی کرتا ہے تو لڑکی اس کی نا سمجھی اور بچپن کی آڑ میں  بے وقوف ثابت کر کے معاملہ رفع دفع کرتی ہے اور والدین کو قائل کرتی ہے۔ والدین بھی بچے کی بات کو کوئی خاص اہمیت نہیں دیتے اور بچہ بھی تھوڑی دیر بعد اس بات کو بھول کے اپنے کاموں میں مشغول ہوجاتا ہے۔

مندرجہ بالا منظرنامے سے جو اصل بات نکل کے آتی ہے وہ یہ ہے کہ گلگت بلتستان کے سیاسی اور انتظامی منظرنامے میں گلگت بلتستان اسمبلی کی حیثیت اتنی ہی ہے جتنی اس سارے منظرنامے میں اس چھوٹے بچے کی ہے، جو بیوروکریسی (لڑکی) کے ساتھ بس ایک جواز اور فارمیلٹی کے طور پر چل رہا ہے۔ اگر کبھی اسمبلی (بچہ) اپنی طرف سے وفاق (والدین) سے کوئی ایسی شکایت کرتی ہے یا بیوروکریسی (لڑکی) کے اختیارات میں حد سے تجاوز کرنے کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کرتی ہے تو اس شکایت کی حیثیت اتنی ہی ہوتی ہے جتنی اس لڑکے کی شکایت کا اثر ہوتا ہے یا ایکشن لیا جاتا ہے۔

اور مزے کی بات یہ ہے کہ سات دہائیوں سے نہ یہ لڑکا بڑا ہو کے اپنی حیثیت منوا پایا اور نہ ہی اس لڑکی نے اپنی روش بدلی۔

Advertisements
julia rana solicitors

اور والدین تو اس بات کو کچھ سمجھ ہی نہیں رہے اور خواب خرگوش کے مزے لوٹ  رہے ہیں۔ بس انتظار کر رہے ہیں کہ کسی دن لڑکی کوئی ایسا گل کھلائے گی کہ خدانخواستہ گھر برباد ہوجائے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply