پاکستانی کورونا، مذہب، سیاست اور افواہیں۔۔ہما

آئیے کورونا کے دنیا میں ظہور پذیر ہونے کے بعد پاکستان میں پہنچنے کا تھوڑا بہت جائزہ لیتے ہیں۔
کورونا کی ابتداء پاکستان کے  پڑوسی ملک چائنہ سے ہوئی جس سے پاکستان کے انتہائی قریبی اور تجارتی تعلقات قائم ہیں۔
کورونا چائنہ کی عوام اور معیشت کو تباہ کررہا تھا، ساتھ ہی دنیا بھر ایران، امریکہ، اٹلی، کینیڈا ہر ملک میں افراتفری اور اموات ہورہی تھیں تو اس وقت پاکستانی حکمران اور پاکستانی عوام غفلت اور مستی میں شرابور تھے،چائنہ اور ایران سب سے  زیادہ متاثر ہونے والے وہ ممالک تھے جن کا سرحدی تعلق پاکستان سے ملحق ہے۔

ایک بات  روزِ   اوّل سے تصدیق شدہ تھی کہ یہ مرض موسمی نہیں، اس مرض کے جراثیم وبائی ہیں، ایسی وبا جو ایک شخص دوسرے تک لے کر جاتا ہے، اس نازک صورتحال میں بے فکر حکومتوں نے ملک کو کوئی اکھاڑہ یا پناہ گاہ بناتے ہوئے ایران سے پاکستان آمد کی غیر مشروط اجازت دی۔

سب سے پہلا منظر عام پر آنے والا کیس ایک ایرانی طالب یحیٰ جعفر تھا، جس کی وجہ سے ملک بھر میں خوف وہراس پھیلا،یحیٰ ایک سترہ سالہ نوجوان تھا، جو ملک بھر کی نظروں میں آجانے کیوجہ سے ہسپتال ،حکومتی کاروائیوں اور احتیاطوں سے نہ بچ سکا،۔حکومتی نمائندے اسد عمر کا بیان ریکارڈ پر ہے کہ ایران نے ہمارے زائرین کو بارڈر پر بے یارو مددگار پھینک دیا ہے۔
پھر زلفی بخاری کے سلسلے میں افواہیں گردش کرتی رہیں کہ ان کی مدد سے کس طرح زائرین سرحدی حدود پار کرکے پاکستان میں بغیر کسی حفاظتی تدابیر کے داخل ہوئے،لیکن اس سب کو فرقہ بازی کی نذر کرکے ہمدردیاں سمیٹی گئیں، کہ اہل تشیع ہونے کی وجہ سے ایک خاص فرقے کو نشانہ بنایا جارہا ہے، غرض تمام ملکی عوام کو فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھانے کیلئے دو طرفہ محاذ شروع ہوا،
اس سب کی ذمہ دار کیا حکومتی نرمی نہیں تھی؟؟
پاکستان تبلیغی جماعتوں کی بھی شاید مستقل سکونت ہے، یہ افراد دنیا بھر میں اللہ کے پیغام کو پہنچانے کیلئے گھومتے اور اور گھوم پھر کر پاکستان کا رخ کرتے ہیں،اسلام آباد کے دارالخلافہ بارہ کہو میں جب فلسطین سے واپس آئے تبلیغی نمائندوں میں وائرس کی موجودگی کا شبہ ظاہر کیا گیا تو اس پر بھی دو فرقے آپس میں دست و گریباں ہوئے، کہ انہیں کھلی چھوٹ دی گئی اور ہمیں مذہبی منافرت کا نشانہ بنایا جارہا ہے،پنجاب کے ایک صوبے میں تبلیغی جماعت کے پیروکاروں کو ایک جگہ قرنطینہ میں نظر بند کیا گیا۔

قرنطینہ کی حالت پر سینکڑوں تحفظاتی سوالات تھے، لہذا وہ تبلیغی پیروکار جو اللہ اور اس کی مخلوق کی خدمت کو عین عبادت سمجھتے تھے ہر چیز کو فراموش کرتے ہوئے صرف اپنی جان اور مرنے کی صورت میں اپنی لاش کی بے حرمتی اور عیال سے دوری کا سوچ کر ہر سیاہ و سفید طریقے سے قرنطینہ سینٹرز سے نکل بھاگے، وہ لوگ اپنے اپنے مقامات تک ایک صوبے سے دوسرے صوبے پھر مقررہ مقامات تک کیسے پہنچے؟

یہ بات عام عوام سے ڈھکی چھپی نہیں تو حکومتی ادارے کیسے لاعلمی کا اظہار کرسکتے ہیں؟؟
پاکستان میں کیسز گاہے بگاہے بڑھتے رہے، مراد علی شاہ وزیراعلی سندھ اس ضمن میں فعال نظر آئے اور شروع میں ہر ممکن کوشش کی کہ لاک ڈاؤن کے ذریعے وائرس کو پھیلنے سے روکا جائے، امداد دینے اور لوگوں کو گھروں تک راشن پہنچانے کے دعوے بھی کئے گئے،کراچی جیسے بڑے شہر میں عوامی ضروریات کا فقدان کا خدشہ ہوا تو ہر سماجی تنظیم اور ذمہ دار شہری اپنا اپنا حصہ ڈالنے میدان میں اترے، اور کوشش کی گئی کہ حکومت کا بازو بنا جائے، لیکن سندھ حکومت صرف سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کرسکی اور 8 ارب کی کاغذی امداد عوام تک گھر گھر پہچانے میں ناکام رہی، سندھ حکومت دعوؤں کے برعکس ہوئی تو عوام اپنی زندگی کا چراغ جلائے رکھنے کیلئے دربدر ہوئی، اور ہر طرح کی سوشل ڈسٹینسنگ کو بھلا کر قطار ہو یا ہجوم بے ہنگم نظر آئی، اور یوں لاک ڈاؤن کی سختیاں محدود ہوئیں،وفاقی حکومت اور اس کے ماتحت باقی تین صوبے اپنی اچھی کارکردگی دکھانے میں بری طرح ناکام ہوئے ۔

وزیراعظم روز اول سے لاک ڈاؤن کے مخالف تھے، لیکن ایک بے اختیار فرد کی طرح ڈانواں ڈول ہوتے رہے،
ہم لاک ڈاؤن نہیں کرنا چاہتے،
دیہاڑی دار طبقہ متاثر ہوگا،
پاکستان میں جو وائرس ہے اس سے ایک یا ڈیڑھ انسان مرسکتا ہے،
وزیراعظم اپنی مضحکہ خیز باتوں سے عوام کو پریشانیوں کے دلدل میں دھکیلتے رہے،
پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے سربراہ وزیراعظم کے چشم و چراغ وزیراعلیٰ عثمان بزدار المعروف وسیم اکرم نے کرونا سیریز کا آغاز اپنے صوبے میں اس سوال سے کیا کہ کرونا کاٹتا کیسے ہے؟؟؟
یہ سوال وزیراعلیٰ کے عہدے پر ایک بدنما داغ تھا لیکن پھر بھی انہیں تو وفاق کے ماتحت کام کرنا تھا،آج پنجاب لاہور پاکستان کا ریکارڈ کورونا کیسز رجسٹر کروانے والا شہر ہے،حکومتی نااہلی کی سزا بھی وزیر صحت یاسمین راشد لاہوریوں کو جاہل کہتے ہوئے دیتی ہیں، کہ یہ تو ہیں ہی جاہل ۔

ہوسکتا ہے صرف لاہوری نہیں پورا پاکستان جاہل ہو لیکن ان کے سربراہ؟

مشہور کہاوت ہے کہ اگر کتوں کی سربراہی ایک شیر کرے گا تو تمام کتے شیر کی طرح لڑیں گے،جبکہ اگر شیروں کی سربراہی کوئی کتا کرے گا تو سب شیر کتوں کی طرح مریں گے۔

پاکستان کرونا کے انتظامی معاملات سنبھالنے میں بری طرح ناکام ہوا،پاکستانی حکومتیں صوبائی ہو یا وفاق قرض کیلئے کشکول پھیلاتی رہیں،اور اس سے بوگس منصوبے بناتی رہیں، ٹائیگر فورس کی تیاری کسی جنگی فوج کی طرح کی گئی جبکہ میدان عمل خالی رہا،کورونا سے نمٹنے کیلئے پاکستانی ڈاکٹرز نے حل نکالا کہ کورونا سے صحتیاب ہونے والے مریض کا پلازما کورونا سے متاثر مریض کو لگایا جائے تو وہ صحت یاب ہوسکتا ہے۔

ہوسکتا ہے کہہ کر پہلے تجربے کیلئے پہلے مریض یحیٰ جعفر کی خدمات حاصل کی گئیں،یحی ٰ جعفر کے خون سے حاصل کردہ پلازما دوسرے مریض میں منتقل ہونے کی دیر تھی کہ جیسے پاکستانیوں کو کوئی تعویذ مل گیا ہو، ہر کوئی دوسرے صحتیاب مریض کا پلازما ڈھونڈتے ہوئے نظر آیا،اور اتنی ڈھونڈ مچائی کہ پلازمہ فروشی کی لہر دوڑ گئی، ہر کوئی اپنے خون کی قیمت طلب کرتے ہوئے نظر آیا ،
سوچنے والی بات تھی کہ صحتیاب ہونے والے مریض صرف خود کو قرنطینہ تک محدود کرکے صحتیاب ہوسکتے ہیں تو اس قدر افراتفری کا بازار کیوں گرم کیا جارہا ہے؟؟

یہ جائزہ ابھی اختتام پذیر  نہیں ہوا،جیسا کہ شروع میں لکھ چکی ہوں کہ پاکستانی کرونا فرقہ واریت میں گھر چکا تھا،اہل سنت مساجد میں نماز و تراویح کیلئے بضد رہے تو اہل تشیع یوم علی پر جلوس نکالنے کیلئے ،ایکدوسرے کی ضد میں جس سے جو بن پڑا وہ کیا گیا اور مذہب کی آڑ میں انسانیت کا جنازہ نکالا گیا،اس کے بعد آتے ہیں افواہوں کے بازار میں،کرونا کی حقیقت مسلم ہے، یعنی دنیا میں کورونا اور اس سے ہونے والی اموات سے انکار نہیں لیکن پاکستان میں کورونا یقین اور بے یقینی کے درمیان گردش کرتا رہا۔کچھ شک نہیں کہ ہماری قوم کی ناخواندگی کورونا کی حقیقت سے لاعلم رہنے کی بڑی وجہ تھی لیکن اس ضمن میں کچھ ایسے حقائق بھی تھے جن کا آشکار ہونا لازم تھا۔

رمضان المبارک کے ایام میں قریبی دوست ڈاکٹر نے بتایا کہ ان کا ایک مریض سالوں سے گردے کے مرض میں مبتلا تھا اور زندگی کا چراغ ڈائلاسز کے ذریعے جل رہا تھا،پاکستان کراچی کے ایک بڑے ہسپتال تبَعہ سینٹر میں سالوں سے یہ مریض اپنا علاج کروارہا تھا۔ایک رات اچانک گردوں میں شدید تکلیف کی وجہ سے تبعہ لے جایا گیا تو ڈاکٹرز نے اصرار کیا کہ پہلے ان پیپرز پر سائن کریں کہ یہ کورونا مریض ہیں پھر ان کا علاج ہوگا۔ورثاءنے ڈاکٹرز کی بات ماننے سے انکار کیا اور اس دو طرفہ بحث و مباحثہ کے دوران وہ مریض تکلیف کی شدت برداشت نہ کرتے ہوئے انتقال کرگیا۔
میری والدہ  21 اپریل کی صبح  نیشنل ہاسپٹل میں داخل تھیں جب ماموں امی سے ملنے گئے جو خود بھی علیل تھے انہیں  ہاسپٹل کے گیٹ پر ہی چیک اپ کرکے قرنطینہ میں ڈال دیا گیا،پھر اسی ہاسپٹل کے ڈاکٹر نریش کمار سے ہسپتال عملے کی بات کروائی گئی جوکہ اس وقت ہاسپٹل میں موجود نہیں تھے تو صرف لفظی کاروائی پر انہیں قرنطینہ سے باہر نکالا گیا کہ یہ میرے انڈر آبزرویشن مریض ہیں ان کا ایسا کوئی مسئلہ نہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مریضوں کو محض شبے کی بناء پر بغیر کسی ٹیسٹ کے کس حیثیت سے قرنطینہ کیا جاسکتا ہے؟۔اور قرنطینہ کرنے کے بعد کسی بااثر کا فون آجائے تو ٹھیک ورنہ کیا سلوک ہورہا ہے؟

مزید قریبی خبریں بھی موجود ہیں جو یہاں لکھی جاسکتی ہیں اور ان خبروں سے  زیادہ فکر انگیز  ہے  لیکن صرف ان دو واقعات پر اکتفا کروں گی کہ ان کی صداقت پر کوئی شبہ نہیں ،یہ واقعات لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ کورونا کے متعلق پاکستان میں گردش کرتی افواہوں میں کچھ دم موجود ہے،جو کورونا کو پاکستان میں مزید پنپنے کی وجوہات فراہم کررہی ہیں۔
حکومت کورونا کے خاتمے کیلئے وقت مقرر کرکے لاک ڈاؤن کرتی آئی ہے، یعنی صبح پانچ سے شام پانچ تک کورونا کے آرام کا وقت اور پانچ کے بعد بھاگ دوڑ کرکے کاروبار یوں بند کروایا جاتا ہے جیسے کورونا کے بیدار ہونے کا وقت ہو ۔

اب  پاکستان کورونا کو کنٹرول کرنے کیلئے ایک بار پھر سے اسمارٹ لاک ڈاؤن کی جانب جاچکا ہے۔
اس لاک ڈاؤن کی حقیقت بھی یہ ہے کہ نشاندہ علاقوں کو ٹینٹ لگاکر بند کردیا گیا ہے، جب کہ ٹینٹ کے اندر لڑکے کرکٹ کھیل رہے ہیں، عوام کی غیر سنجیدگی کی بڑی وجہ بھی حکومتی نااہلی ہے،تاجر حکومت سے اپیل کرتے رہے کہ چوبیس گھنٹے کاروبار کھولنے کی اجازت دی جائے تاکہ وقت کی مہلت سے لوگوں میں خریداری کی افراتفری کم ہو لیکن حکومت نے شنوائی نہ کی،اس کے برعکس عدالتی حکم نامے پر لوگوں کو کورونا اسپیشل عید کی خریداری کی اجازت دی گئی،اگر حکومت پاکستان اس مرض سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتی تو ایک پیج پر جمع ہوکر مکمل لاک ڈاؤن کیا جاتا، فرقہ واریت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے سخت فیصلے لئے جاتے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بہرحال پاکستانی حکومت اور عوام اس مرض کے خاتمے کیلئے متحد ہوں یا نہ ہوں ،اہداف تباہی پورا کرنے کے بعد یہ مرض بالآخر پاکستان سے بھی چلا جائے گا لیکن نہ ختم ہونے والے مسائل کا سلسلہ حکومت کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے ہمیشہ اس وائرس کی یاد بن کر یہاں رہ جائے گا،

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply