اذان،مؤذ ن اور لاؤڈ سپیکر۔۔راؤ عتیق الرحمٰن

اذان کے لغوی معنی سنا دینا، خبر دار کر دینا اور پکارنا ہیں۔ امام نودی ؒ نے فرمایا اہل لغت کے نزدیک اذان کے معنی اعلام کے ہیں ,اعلام کا مطلب ہے  کسی چیز کے بارے میں لو گوں کو متبنہ کرنا، خبردار کرنا۔ اذان کے معنی سنانے کے ہیں ،تاکہ سننے والے کو خبر ہو اور مسلمان اذان کی آواز سن کر نماز کی تیار ی کر سکیں۔ اسلامی شریعت میں اذان کی یہ تعریف ہے کہ یعنی مخصوص الفاظ شریعہ کے ساتھ نماز کا وقت ہونے کی خبر دینے کا نام شرعی اذان ہے۔اذان لفظ اذن بالفتح سے مشتق ہے جس کے معنی سننے کے بھی آتے ہیں۔ (فتح الباری)

دنیا بھر میں روزانہ پانچ  مرتبہ اذان دی جاتی ہے، مسلمانوں کیلئے یہ لازم ہے کہ اذان کی آواز سن کر دنیاوی کام  کاج چھوڑ کر نماز کیلئے مسجد چل پڑیں۔ روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ محمد  ﷺ جب مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو یہ مسئلہ زیر بحث آیا کہ نماز کیلئے نمازیوں کو کیسے اکٹھا کیا جائے۔ابن ماجہ نے روایت کی ہے کہ اس موقع پر صحابہ کرام نے مختلف تجاویز پیش کیں۔ مثلاً کسی صحابی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ لگائی جائے۔ کسی صحابی نے نرسنگا پھوکنے کا مشورہ دیا۔ کسی صحابی نے ناقوس بجانے کا مشورہ دیا۔تاہم آپ ﷺ نے ان تجاویز کو قبول نہ فرمایا۔کیونکہ اس سے دیگر مذاہب کے طریقے کی پیروی ہوتی تھی۔ ابتدائی دور میں جب نماز کا وقت ہوتا تو کوئی صحابی دوڑتا ہوا آواز لگاتا الصلوٰۃ الصلوٰۃ، لیکن یہ آسان کام نہ تھا۔ بہیقی کی دوسری روایت میں صحابہ کرام ؓ ایک دوسرے کو مخاطب کر کے آواز لگا تے مدینے میں حضرت عمر ؓ کی تجویز پر نماز پر پکارنے/ ندا دینے کیلئے حضرت بلا ل ؓ کو مقرر فرمایا جو کہ نماز کیلئے آگاہ کرتے تھے۔ یہ اذان معروف نہ تھی۔ان مجالس میں حضرت عبداللہ بن زید بھی شامل تھے۔ تاہم انہوں نے اگلی رات کو ایک خواب دیکھا جس میں اذان کے کلمات بتائے گئے آپ الصبح محمد ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو اپنا خواب سنایا۔ آپ ﷺ نے حضرت عبداللہ بن زید ؓ سے اذان اور تکبیر سن کر ارشاد فرمایا بے شک یہ خواب حق ہے پھر آپ ﷺ نے حضرت بلال ؓ کو حکم دیا کہ وہ حضرت زید کیساتھ کھڑے ہو کر وہی الفاظ دہرائیں حضرت عمرؓ اور کچھ دیگر صحابہ کرام نے بھی اس خواب کو دیکھنے کی تصدیق فرمائی۔ ابن سعد نے روایت کی ہے کہ حضرت بلال ؓ اسلام کے سب سے پہلے مؤذن مقرر ہوئے ،آپﷺ نے اذان دینے کا حکم فرمایا۔حضرت بلال ؓ کی آواز بہت ہی بلند، دلکش اور خوش آواز تھی، حسِ صوت کے ساتھ آپ کی آواز میں ایسی تاثیر تھی کہ جو بھی سنتا دیوانہ وار نماز کیلئے مسجد کا رخ کرتا۔

ابتدائی دور میں اذان کی آواز دور تک پہنچانے کیلئے بلند جگہ منتخب کی گئی، مسجد نبوی کے قریب سیدہ حفصہ صحابیہ کا گھر سب سے اونچا تھا۔ حضرت بلال ؓ اس گھر کی چھت پر کھڑے ہو کر اذان دیتے تھے لیکن مختلف حالات میں یہ لازمی نہ تھا۔ مسجد نبوی کی تعمیر کے بعد حضرت بلا ل ؓ مسجد کی چھت پر اذان دیتے تھے۔فتح مکہ پر حضرت بلال ؓ نے بیت اللہ کی چھت پر اذان دی۔ تاہم عرب کے دیگر علاقوں کی مسجدوں میں ایک جگہ متعین نہ تھی ،بلکہ متعدد مقامات پر اذان دی گئی۔ حضرت بلال ؓ مسجد نبوی کے قبلہ سمت ایک ستون پر چڑھتے اور اذان دیتے رہے حضرت عمر بن عبدالعزیز نے مسجد نبوی کے چاروں کونوں میں اذان کیلئے مینار بنائے ،جن پر اذان دی جانی شروع کی۔ وقت کے ساتھ تاہم اذان مکبرا اقامت والی جگہ سے دی جانے لگی۔

اذان کہنے والے کو مؤذن کہتے ہیں۔ مؤذن بلند آواز، خوش آواز اور بھاری آواز والا ہونا چاہیے۔ نبی کریم ﷺ نے مکہ اور مدینہ میں بلند آواز اور خوش آواز مؤذن مقرر کیے تھے۔ اذان میں خوش آوازی مستحسن ہے مگر راگنی تفنی کے طور پر نہیں (احمد ترمذی)

مؤذن اذان کے وقتوں پر امین ہے۔ شریعت نے مؤذن کیلئے کچھ شرائط رکھی ہیں مؤذن غافل، سست، جاہل اور نادان نہ ہو کہ اذان وقت سے پہلے کہے یا بعد میں کہہ دے ،ایسا مؤذن غیر موزوں ہے۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ محمد ﷺ نے فرمایا مؤذن امین ہے یا اللہ میری امت کے مؤذنوں کو بخش دے۔ آپ ﷺ نے صحابہ کو بتایا کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ ہر صحابی تمنا کرے گا کہ مجھے اذان پر مقر ر کیا جائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا تمہارے  بعد ایسی قومیں آئیں گی جو کمینے لوگوں کو اذان دینے پر مقرر کرینگی۔ قیس ابن اعظم سے روایت ہے کہ حضرت عمرؓ نے پوچھا کہ تمہاری اذانیں کون کہتا ہے ہم نے کہا کہ ہمارے غلام، اسی قسم کے گرے پڑے لوگ۔ آپ نے فرمایا تم نے اپنا نقصان کر لیا، اگر خلافت کا بوجھ میرے ذمے نہ ہوتا تو میں مؤذن لگ جاتا (کنز الاعمال جلد دس حدیث ۲)

حضرت علی ؓنے فرمایا کہ مجھے ندامت ہوتی ہے کہ میں نے محمد  ﷺ سے درخواست کیوں نہ کی کہ حسن اور حسین کو مؤذن لگا دیا جائے۔ (حیات الصحابہ جلد ۵ ص ۹۷۱)

مؤذن کا مسائل اذان سے واقف ہونا بے حد ضروری ہے، اگر مؤذن اذان اور اقامت کے آداب و احکام سے ناواقف ہو تو اس کو اذان کا منصب دینا مکروہ ہے۔ مؤذن کا عالم با عمل ہونا ضروری ہے جاہل و فاسق کی اذان مکروہ ہے اگر مؤذن صحیح اذان نہیں پڑھ سکتا تو اس کی اذان درست نہ ہے۔ (استفادہ۔اذان کی تاریخ مصنف قاری محمد کرم داد اعوان)

الیگزینڈر گراہم بل نے سپیکر کی ابتدائی شکل 1876ء میں ایجاد کی۔پیٹر ایل جینسن وارنر بون اینڈ ورڈ کلاگ اور چیسٹر رائیس نے 1924ء تک لاؤڈ سپیکر کو بہتر شکل میں تبدیل کر دیا۔1930 کی دہائی میں اذان کیلئے لاؤڈ سپیکر کا استعمال شروع ہوا۔ دنیا میں پہلی مرتبہ مسجد سلطان سنگا پور میں 1936ء میں لاؤڈ سپیکر نصب ہوا۔ (وکی پیڈیا)

سنگا پور شہر میں شور ہونے کی وجہ سے مؤذن کی آواز سنائی نہ دیتی تھی لہٰذا وہاں کے علماء نے سپیکر کے اذان کیلئے مناسب استعمال کو جائز قرار دیا۔ برصغیر میں لاؤڈ سپیکر کے استعمال کا سال تو یقینی طور پر تعین نہیں کیا جا سکتا تاہم اندازًاذان کیلئے 1940ء کے قریب استعمال شروع ہوا۔بر صغیر میں اذان کیلئے لاؤڈ سپیکر کا استعمال دہلی، لاہور، کراچی، حیدر آباد، بھوپال، ممبئی، احمد آباد وغیرہ کی بڑی مسجدوں میں کیا گیا جہاں رش، بھیڑبھاڑ اور ٹریفک کے شور کی وجہ سے مسلمان نمازیوں کو اذان کی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ تاہم شہروں میں ضرورت کے تابع جہاں سپیکر کے استعمال کو درست قرار دیا گیا وہیں ابتداء میں برصغیر کے مسلمان علماء نے لاؤڈ سپیکر کی ایجاد کو کافروں کی ایجاد قرار دے سپیکر کی اذان کے لیے مسجد میں تنصیب کی مخالفت کی سائنس سے نا واقفیت اور اپنی لا علمی کی بنیاد پر کہا کہ اس میں شیطان بولتا ہے لہٰذا سپیکر کا استعمال غیر شرعی ہے۔یعنی آلہ صوت مکبرکے خلاف برصغیر میں علماء کرام نے باقاعدہ طور پر مسجد میں لاؤڈ سپیکر پر اذان دینے کے عمل کے خلاف تحریک چلائی۔ کافی عرصے تک برصغیر میں مسجد میں سپیکر کے بغیر اونچے یا کھلے مقام پر کھڑے ہو کر اذان دی جاتی رہی۔

1947ء میں قیام پاکستان کے بعد کافی عرصے تک بڑے شہروں کی کچھ بڑی مساجد میں اذان لاؤڈ سپیکر کے ذریعے جبکہ دیگر مسجدوں اور اکثر دیہات میں سپیکر کے بغیر ہی اذان دی جاتی تھی۔ 1960ء کی دہائی میں پاکستان کے اکثر شہروں میں مسجدوں میں لاؤڈ سپیکر کا استعمال شروع ہو چکا تھا ،سوائے دیہات کے۔1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پاکستان قومی اتحاد کے تحت نوجماعتی اتحاد ہوا اس اتحاد میں تمام مسالک کی مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں نے قیادت کی تھی۔ اس دور میں پاکستان کی تاریخ میں مسجدوں کا سیاسی طو رپر بھرپور استعمال کیا گیا۔ 1977ء میں بھٹو کی اقتدار سے معذولی اور جنرل ضیاء الحق کے اقتدار پر قبضے کے بعدفوجی مارشل لاء نے اسلامی ایڈیشن کی نام نہاد طرز حکومت کو پاکستان میں متعارف کروایا اورپھرپاکستان قومی اتحادکی مذہبی پارٹیاں اپنے مسالک شعیہ، وہابی، بریلوی اور دیوبندی اپنی سابقہ پوزیشن پر چلے گئے تو مساجد میں فرق پھر نمایاں ہو گیا۔

علاوہ ازیں 1970ء کی دہائی میں پاکستانیوں کے بیرون ملک ملازمتیں کرنے کی وجہ سے ملک میں خوشحالی آئی اور پاکستان کو دیگر اسلامی ممالک بالخصوص عرب ممالک دیکھنے کا موقع ملا۔ وہاں کی مسجدیں خوبصورت اور سہولیات سے مزین دلکش اور خوبصورت تھیں۔خوشحالی آئی تو پاکستانی مسلمانوں نے دل کھول کر مسجد وں کی تعمیر میں مالی مدد مہیا کی۔ان مسجدوں میں بڑے بڑے سپیکر نصب کیے اور جس شہر کی مرکزی اور اس کے بعد محلے کی مسجد کے سپیکر بڑے ہوتے اور ان کی آواز دور تک جاتی تو اس بات کو بہت بڑا مذہبی فریضہ سمجھا جاتا۔ مسجد پر شرقی، غربی، شمالی اور جنوبی چار سمتوں سے لاؤڈ سپیکر نصب کیے جاتے تاکہ اذان کی آواز تمام اطراف میں زور دار طریقے سے سنائی دے۔ مثلاً ایک شہر کی مسجد کے سپیکر کی آواز ظہر اور عصر کے اوقات میں پورے شہر جبکہ مغرب، عشاء اور فجر کے وقت دس کلو میٹر دور دیہات تک سنائی دیتی تھی۔اس قدر آواز کو مسجد انتظامیہ فخریہ انداز میں بتاتی۔بہاول نگر شہر سے ایک خاتون نے بتایا کہ جب فجر کی اذان کے وقت مؤذن سپیکر کھول کر اذان سے پہلے اپنا گلا صاف کرتے ہیں تو ان کے بچے آواز کی شدت کی وجہ سے ڈر کر جاگ جاتے ہیں۔

مزید مشاہدے میں آیا کہ فجر کی جماعت کے بعد امام مسجد سپیکر پر وعظ دیتے تو گھریلو خواتین اور بچوں کیلئے گھر میں نماز اور قرآن پاک کی تلاوت کرنا مشکل ہو جاتا جبکہ مریضوں کو بھی آرام اور سکون میسر نہ ہوتا۔ بعض جگہ مسجد کی تعمیر کیلئے سپیکر کااستعمال بے دردی سے کیا جاتا ہے جس سے محلے والے بے سکون ہوتے ہیں تاہم ڈرتے ہوئے منع بھی نہیں کر سکتے تاہم اس محلے کے بچے اس جملے کی گردان کرتے ہوئے سنے گئے۔ خیری آؤ خیری جاؤ مسجد نوں چندہ پاندے جاؤ۔۔

1999ء میں نواز شریف کو معزول کر کے جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ پرویز مشرف بنیادی طور پر مذہب بیزار شخص تھا۔ اس کا فوجی مارشل لاء ماڈرن اور لبرل ایڈیشن طرزحکومت تھا۔ اس دورحکومت میں نیکٹا (NECTA) کے تحت ملک سے دہشت گردی کو ختم کرنے کیلئے لاؤڈ سپیکر کیلئے قانون سازی کی گئی اور ایمپلی فائر ایکٹ کے تحت مسجدوں میں سپیکر ز کی تعداد کو کم کر دیا گیا لیکن اس قدم کو پائیدار اور اور مکمل طور پر نافذ کرنے کیلئے حکومت کے پاس Will Power نہ تھی لہٰذا یہ اقدام پائیدار ثابت نہ ہوئے اور اس قانون پر عمل درآمد قصہ پارینہ بن گیا۔

اس امر کی حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہماری مسجدوں کی اساس / بنیاد مسالک کی بنیاد پر ہے۔مسجدوں کی رجسٹریشن میں 90% سے زائد مسجد انتظامیہ نے واضح طور پر مسجد اور مسجد کو چلانے والی کمیٹی اہلحدیث، بریلوی، دیوبندی اور شعیہ مسلک کے تحت رجسٹرڈ کروایا ہے ۔ تاہم پاکستان میں مسجدکمیٹی چاہے کسی مسلک کی بنیاد پر ہو۔لیکن پاکستانی مسلمانوں کی اکثریت مسالک کی تقسیم سے قطع نظر مسجدوں میں باہمی محبت اور اخوت سے بلا تفریق مسلک نماز پڑھتی ہے۔ جو مساجد گنجان آباد علاقوں /محلوں میں واقع ہیں۔ ان کے 90% نمازیوں کو سارا سال کے اوقات نماز معلوم ہوتے ہیں۔اور ان مسجدوں سے ملحقہ مارکیٹیں، دفاتر اور گھروں میں مقیم لوگوں کو بھی نماز کے اوقات کا پتہ ہوتا ہے۔ جبکہ مسافر یا اتفاق سے کام کے سلسلے میں آئے ہوئے لوگ اذان سن کر قریب کی مسجد میں با جماعت نماز ادا کر لیتے ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ ہمیں باجماعت نماز کی اذان / ندا اطلاع کیلئے کس مقدار کی آواز کی ضرورت ہے۔مسجدوں میں سپیکروں کی کثرت اذان کی آواز کو لوگوں کیلئے ذہنی بے سکونی کا باعث بنا رہی ہے۔قبل اس کے کہ لوگ سپیکر کی پر شور آواز کی وجہ سے اذان جیسے پیارے عمل سے دور ہوں۔ اس امر میں اصلاح بہت ضروری ہے۔پھر اذان دینے والے مؤذن جن کی اکثریت شریعت کے مطابق مؤذن کے معیار پر پورا نہ اترتی ہے ملحقہ گلیوں کی مساجد میں ایک ساتھ اذان دینا شروع کر دیتے ہیں اس عمل سے اذان سننے اور دہرانے کا لطف بے مزہ ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں خوشحال طبقے نے اذان دینے جیسا شرف سماجی طور پر غریب اور کمزور لوگوں کیلئے وقف کر دیا ہے۔

کیا ہمارے علماء کرام قریبی مساجد کے مؤذن کی تربیت کا اتنا اہتمام بھی نہ کروا سکتے ہیں کہ اگر ایک مسجد میں اذان شروع ہو جائے تو پھر دوسرا قریبی مسجد والا مؤذن پہلی اذان کے ختم ہونے کے بعد اذان پڑھ لیں۔ نماز مغرب کی اذان ایک ایسی اذان ہے جو بیک وقت تمام مسجدوں میں شروع ہوتی ہے۔مغرب کی اذان کے علاوہ دیگر چار اذان کے دوران قریبی مسجدیں ایک دوسرے کی اذان ختم ہونے کے بعد اذان پڑھ لیں تو کیا جماعت تاخیر کا شکار ہو جائیگی۔ مساجد خواہ کسی مسلک کی ہو انہیں اذان کا احترام کرتے ہوئے انتظار کرنا چاہیے۔ آواز کو مانپنے والے پیمانے کا نام (Decibel) ہے۔ اس میں آواز کا معیار / مقدار طے کر دی گئی ہے کہ کس قدر مناسب اور کس قدر آواز غیر مناسب ہے یعنی سماعت کو بھلی لگنے والی آواز اور سماعت پر گراں گزرنے والی آواز۔

موجودہ دور میں مسجدوں کے قریب گھروں کے مکین لاؤڈ سپیکر پر نعت، اذان اور کثرت اور باآواز بلند استعمال کی وجہ سے اذیت کا شکار ہیں۔ پاکستان کے تمام مسالک کے علماء کرام، مفتیان کے لیے ضروری ہے کہ وہ دیہات، قصبہ، تحصیل اور ضلع کی بنیاد پر کمیٹیاں تشکیل دیں اور مسجد کے (Catchment Area) ملحقہ گلیاں اور آبادی کو مد نظر رکھ کر مسجد کی اذان کیلئے آواز کا پیمانہ مقرر کریں۔تاکہ اذان دینے کے طریقہ میں سلیقہ اور معیار قائم ہو یہ کام اقوام متحدہ، امریکہ یا برطانیہ وغیرہ کی ذمہ داری نہیں  ہے۔ یہ ہمارے علماء کرام کے کرنے کا کام ہے۔بڑے سپیکروں پر اگر اذان دینے کا یہی سلسلہ جاری رہا تو مسجد کے قریبی گھروں اور اہل محلہ کا سکون جواب دے جائے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

پاکستان کے علماء کرام دیگر اسلامی ممالک کے اذان کا معیار اور دورانیہ کا جائزہ لیں پھر پاکستان میں اذان کے معیار اوردورانیہ کا تعین کر کے ایک معیاری اذان کی ترتیب طے کریں۔ کیونکہ ہر مؤذن کا اذان دینے کا معیار اور دورانیہ بہت مختلف ہے اذان راگنی، تغنی کے طریقے کے مطابق نہ کہی جائے۔تمام مساجد میں خواہ وہ مارکیٹ، دفاتر اور محلے میں ہو ان مساجد کے نمازیوں کی رہائش، کام کاج اور دفاتر جہاں سے وہ نماز پڑھنے آتے ہوں اس کے مطابق اذان کی آواز کا پیمانہ مقرر کیا جائے۔تاکہ اذان دینے میں ایک نظم و ضبط قائم ہو اور سننے والے کیلئے دلکش ہونہ کہ سماعت پر گراں گزرے۔ وزارت مذہبی امور، اسلامی شریعت کونسل، شرعی عدالت اور تمام مسالک کے علماء کرام کو اجتہاد کے تابع عصری تقاضوں اور ضرورت کے تحت اذان کہنے کیلئے بہتر طریقہ کار وضع کرنا چاہیے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply