اُمیدِ بہار رکھ۔۔سائرہ خلیل

نیوز اینکر کی تیز آواز نے اچانک میری توجہ ٹی وی کی جانب مبذول کروائی۔ سنسنی خیز انداز میں کرونا سے متاثرہ افراد کی تعداد بتائی جارہی تھی۔ بعدازاں ورلڈمیٹر سے دنیا بھر میں اب تک کی کرونا ہلاکتوں کا گراف دکھایا گیا گویا کوئی مقابلہ چل رہا ہے اور یہ جاننا نہایت اہم ہے کہ کون کس پر سبقت لے گیا ہے۔
اس بیماری کی اب تک کوئی دوا نہیں بنی اور عالمی ادارہ صحت کا بہترین عملہ بھی سوائے اموات کی پیشنگوئی کے آگے نہیں بڑھ پایا۔ یہ سب سنتے ہی دل و دماغ پر ایسی کیفیت طاری ہوگئی جسےسائیکالوجی کی زبان میں انگزائٹی یا اضطراب کہتے ہیں۔ اور انگزائٹی ہمیں ڈپرشن کی طرف لے جاتی ہے۔

آج لگ بھگ پانچ ماہ ہونے کو ہیں اور روزانہ ہمارے ملک میں کرونا سے متاثرہ افراد کی تعداد اور اموات پچھلے دن کا ریکارڈ توڑ رہی ہیں۔
اس صورتحال میں اچانک ایک سائیکاٹرسٹ وِکٹر فرینکل کی کتاب”(1946) Man’s search for Meaning” یاد آگئی۔ یہ کتاب انھوں نے دوسری عالمی جنگ کے بعد ذاتی تجربے کی بنیاد پر لکھی۔ نازی کنسنٹریشن کیمپس میں روزانہ قیدیوں کو بےپناہ ظلم و  زیادتی کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ قیدیوں کے خاندان دوست اور رشتہ داروں کے ساتھ کیا ہوا کوئی نہیں جانتا تھا۔ سب کو نامعلوم مقام پر بھیج دیا گیا اور یکے بعد دیگرے موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ قیدیوں کے سامنے روزانہ اس ظلم وبربریت کا مظاہرہ کیا جاتا اور وہ اپنی آنکھوں کے سامنے بےبسی سے اپنے ساتھیوں کو مرتا ہوا دیکھتے۔ ہر طرف مایوسی دکھائی دیتی تھی۔ جنگ بندی کے بعد اچانک اعلان کیا گیا کہ11 اپریل 1945 کو تمام قیدی رہا کر دیئے جائیں گے۔ یہ سننا تھا کہ سب کے دلوں میں آزادی کی لہر دوڑ آئی اور تمام خستہ حال قیدی خوشی خوشی اس دن کا انتظار کرنے لگے۔ مقررہ تاریخ پر سب قیدی صبح سویرے تیار ہوگئے اور اپنی رہائی کا انتظار کرنے لگے۔ صبح سے شام ہوگئی مگر انھیں لینے وہاں کوئی نہ آیا۔ اُس رات نازی کیمپ میں بہت سے قیدیوں کی اچانک موت واقع ہوئی۔

وکٹر فرینکل لکھتے ہیں ہماری زندگی میں ہر لمحہ ایک اُمید پائی جاتی ہے جو ہمیں زندہ رکھتی ہے۔ اُس رات جن قیدیوں کی اچانک موت واقع ہوئی ان کی زندگی کا مقصد اس تاریخ کا بےصبری سے انتظار تھا جس دن وہ اس زندان سے رہائی پاتے۔ لیکن اس رات جب کوئی آزاد نہ ہو پایا تو ان کی اُمید نے ایسا دم توڑا کہ وہ دوبارہ سانس نہ لے پائے۔

موجودہ حالات کے پیشِ نظر ہماری حالت بھی ان قیدیوں جیسی ہے جنھیں روزانہ یہی سننے کو ملتا ہے کہ اب تک اس جان لیوا مرض کا علاج دریافت نہیں ہو پایا۔ آج فلاں کا دوست فلاں کا بھائی فلاں کا بیٹا حتیٰ کہ سارا خاندان گاؤں کا گاؤں کرونا کی زد میں آگیا۔آج دنیا کا سب سے  زیادہ خوفناک منفی لفظ “مثبت” قرار پایا ہے۔اس کے سامنے ہر شخص بےبس اور لاچار کھڑا ہے۔ چہروں کی بےرونقی اور اداسی مزید خوف و حراس پھیلاتی ہے۔ وقت تو چل رہا ہے مگر زندگی رُک سی گئی ہے۔ ان دُشوار حالات میں ہمیں زندگی کا مقصد اور معنی تلاش کرنا ہے۔ زندگی میں پہلی بار ہمارے پاس اتناوقت ہے کہ ہم اپنی فیملی کے ساتھ گزار سکتے ہیں۔ اپنی من پسند کتابیں پڑھ سکتے ہیں۔ والدین کو ان کے پسندیدہ کھانے بنا کر خوشی دے سکتے ہیں ان کے ساتھ باتیں کر کے ان کے گِلے شکوے مٹانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ ان کے ساتھ فیملی موویز ، فنی ویڈیوز اور معلومات پر مبنی پروگرامز دیکھ سکتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پرانے دوستوں سے بات کریں۔ضرورت مند افراد کی مدد کریں۔ سب کی اُمید بڑھائیں جوکہ وقت کی اشد ضرورت ہے۔ والدین اپنے بچوں کو نماز پڑھنا سکھائیں۔ قرآن کا مفہوم سمجھائیں۔ سیرت النبی ﷺ کا مطالعہ کریں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر رات کے بعد دن اور ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ مومن کبھی مایوس نہیں ہوتا لہذا مایوسی کو دل میں جگہ نہ دیں اور اُمید کا دامن تھامے رکھیں۔صرف گھر میں ہی تو رکنا ہے کچھ دن اور سہی۔ کرونا کے ساتھ ساتھ اسکی خبروں سے بھی فاصلہ رکھیں کیونکہ جو محدود ہے وہی محفوظ ہے۔
اللّہ سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے اور ہمیں اس آزمائش پہ پورا اترنے کی توفیق عطا کرئے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply