سکون لے لو سکون۔۔شاہد محمود

زندہ رہنا آسان نہیں۔ اسے آسان بنانے کے لئے ایک دوسرے کے غمگسار بنو، ایک دوسرے کے احوال سے باخبر رہو اور ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شامل رہو۔ کسی اپنے کو تنہا نہ چھوڑو اور غم کے مارے کو تو بالکل بھی تنہا نہ چھوڑو۔
یاد ہے ناں امجد نے کہا تھا:

پیڑ کو دیمک لگ جائے یا آدم زاد کو غم
دونوں ہی کو امجد ہم نے بچتے دیکھا کم

اور ہاں ! کبھی اپنی پارسائی و تقویٰ کے زعم میں کسی کو تنہا نہ چھوڑ دینا۔ غم کے دریا میں ڈوبنے والے کو سہارا دینے سے پہلے اس کا دین، مذہب، مسلک نہ پوچھتے رہنا ۔ یاد رہے اللہ کے ایک نبی علیہ السلام نے بھی بوڑھے مہمان سے ” بسم اللہ ” نہ پڑھنے کی بابت پوچھ لیا تھا ۔ بہت سبق ہیں ہمارے لئے ان واقعات میں ، جس نے ایک انسان کو بچایا اس نے کل انسانیت کو بچایا ۔ بھوک صرف روٹی کی نہیں پیار و ہمدردی کے دو بولوں کی بھی ہوتی ہے۔ سکون سکون کرتے سکون کی تلاش میں پھرتے سب میرے پاس آ جائیں، اپنی بے سکونی مجھے دے دیں ۔ اللہ کے حکم سے میں انہیں سکون دوں گا ۔۔۔۔ لیکن “پانڈا خالی کر کے آنا” ۔۔۔۔۔ بھرے کہ میں تو چائے بھی مزید نہیں ڈلتی ۔۔۔۔۔ نسخہ کیمیا بزرگ ایک ہی بتاتے ہیں ہر دین و مذہب و مسلک کے جس میں تین نقاط ہیں اور تینوں الفاظ کے تھوڑے رودوبدل ساتھ ایک ہیں کہ؛

1۔ اپنے خالق سے تعلق رکھو
2۔ خالق کی پہچان کرانے والے سے محبت رکھو
3۔ خالق کی مخلوق کی خدمت کرو

یہ جو آخری نکتہ ہے یہ امرت دھارا ہے اور باقی دو کی سیڑھی بھی ۔۔۔۔ حدیث قدسی ہے کہ میرے پیارے آقا کریم رحمت اللعالمین خاتم النبیین شفیع المذنبین سردار الانبیاء ابوالقاسم سیدنا حضرت محمد رسول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

۔’’قیامت کے دن اللہ تعالیٰ انسان سے کہے گا: اے ابن آدم! میں بیمار پڑا رہا لیکن تُو نے میری عیادت نہیں کی۔ انسان گھبرا کر عرض کرے گا: اے میرے رب! تُو سارے جہانوں کا پروردگار، تُو کب بیمار تھا اور میں تیری عیادت کیسے کرتا؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تجھے نہیں معلوم تھا کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہے لیکن اس کے باوجود تُو اس کی تیمارداری کے لیے نہیں گیا۔ اگر تُو اس کے پاس جاتا تو مجھے وہاں پاتا۔
پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے ابن آدم! میں نے تجھ سے کھانا مانگا لیکن تُو نے مجھے کھانا نہیں دیا۔ انسان عرض کرے گا: اے رب العالمین! تُو کب بھوکا تھا اور میں تجھے کیسے کھانا کھلاتا؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تجھے یاد نہیں کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا طلب کیا تھا لیکن تُو نے اُسے کھانا نہیں کھلایا۔ اگر تُو نے اُس کا سوال پورا کیا ہوتا تو آج اس کا ثواب یہاں پاتا۔
اسی طرح رب العالمین فرمائے گا: اے ابن آدم! میں نے تجھ سے پانی مانگا تھا لیکن تُو نے مجھے پانی نہیں پلایا۔ انسان عرض کرے گا: اے دوجہاں کے پروردگار! تُو کب پیاسا تھا اور میں تجھے پانی کیسے پلاتا؟ فرمایا جائے گا: میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی طلب کیا تھا لیکن تُو نے اس کی پیاس بجھانے سے انکار کردیا تھا۔ اگر تُو نے اس کی پیاس بجھائی ہوتی تو آج اس کا ثواب پاتا‘‘۔(مسلم، کتاب البر والصلۃ)۔

تو سکون پانے اور اپنے خالق تک پہنچنے کی سیڑھی یہی ایک ہے اور اس میں محبت، شفقت و خلوص کی چاشنی اس کو بدرجہ اتم تصوف و روحانیت کی “جاگ” لگا دیتی ہے بلا تخصیص مذہب و ملت ۔۔۔۔ یاد ہے میرے رحمت اللعالمین آقا کریم ﷺ جب کوڑا پھینکنے والی بڑھیا کی عیادت کو گئے تو کیا کایا پلٹ ہوئی تھی؟؟؟

میرے پیارے آقا کریم رحمت اللعالمین خاتم النبیین شفیع المذنبین سردار الانبیاء ابوالقاسم سیدنا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت پاک سے ایک واقعہ کا مفہوم ہے کہ ایک عورت جس کا ذہنی توازن درست نہیں تھا وہ مسجد نبوی ﷺ کے دروازے پر آئی، میرے آقا کریم رحمت اللعالمین ﷺ کو پکارا اور آپ ﷺ دیر تک دھوپ میں کھڑے اس خاتون کی بات سنتے رہے اور جب وہ اپنا دل ہلکا کر کے چلی گئی اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے پوچھا کہ اس مخبوط الحواس عورت کی بات سننے کی خاطر آپ ﷺ نے اتنی تکلیف اٹھائی اور دھوپ میں کھڑے رہے تو صدقے جاوں اپنے آقا کریم رحمت اللعالمین ﷺ کے جنہوں نے فرمایا جس کی پورے مدینے میں کوئی نہیں سنتا میں بھی کیا اس کی بات نہ سنوں؟ اس کے درد کا مداوا نہ کروں؟ (واقعہ کا مفہوم بیان کیا ہے کمی بیشی رب کریم معاف فرمائے آمین ثم آمین)۔

Advertisements
julia rana solicitors

تو احباب جس جس کو سکون چاہیئے وہ یاد رکھے کہ یہ وہ چیز ہے جو بانٹنے سے ملتی ہے۔ جتنا سکون بانٹتے جاو گے، جتنا کسی کے دکھ درد کا مداوا کریں گے اتنا سکون زندگی میں آئے گا اور آپ کی اپنی زندگی آسان ہو گی۔

Facebook Comments

شاہد محمود
میرج اینڈ لیگل کنسلٹنٹ ایڈووکیٹ ہائی کورٹ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply