وباکے دن اور محفلِ موسیقی۔۔محمد علی عباس

ایک بار پھر سرپاک کی گلیاں تھیں اور شام کا وقت تھا۔میری وہی کیفیت تھی جو اکثر ایسے مواقع پر ہوا کرتی ہے۔سرپاک کی گلیاں مجھے شروع سے ہی ایک سحر میں جکڑ لیتی ہیں۔لوگوں کو تنگ و تاریک گلیوں میں گھٹن محسوس ہوتی ہوگی مگر مجھے سرپاک کی یہی تنگ و تاریک گلیاں اور کچھ پرانی طرز پہ بنی پُرشکوہ عمارتیں پُرکشش لگتی ہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے کچھ لوگوں کو پرانا لاہور اچھا لگتا ہے۔ایک ناسٹیلجیا ہے سرپاک کی  شاموں اور گلیوں سے۔پچھلے سال رمضان کی بات ہے جمعتہ الوداع کی نماز ادا کرنے کے بعد سرپاک گراؤنڈ میں ایک مذہبی تنظیم نے ریلی کا اہتمام کیا تھا۔صاحب سپیکر ریلی میں شرکت کرکے ثواب دارین حاصل کرنے کی ترغیب دے رہے تھے۔اپنے قدم اندرون سرپاک کی طرف مڑ رہے تھے۔معلوم ہوا تھا کہ کوئی ایک آدھ گلی اب تک آنکھوں سے اوجھل ہے تو اس گلی کے درشن کر کے پورا سرپاک دیکھنے کا دعویٰ بھی کسی حد تک سچ کے مزید قریب ہو گیا۔

سرپاک میں شامیں بہت کم گزری ہیں مگر پُرسکون گزری ہیں۔جب خاموشی چھارہی ہوتی ہے تو یہاں اذان شروع ہوتی ہے۔گو کہ سُر اور ماتروں میں فرق ضرور ہوتا ہوگا مگر وہ پُر کیف لمحات ہوتے ہیں۔اس شام جسے گزرے کچھ ہی دن ہوئے ہیں۔ہمارے دوست اسد شاہ صاحب کے گھر پہنچنا تھا۔صدارتی ایوارڈ یافتہ وائلن نواز استاد رئیس احمد خان اور ان کے ساتھ طبلہ نواز استاد ججی خان یہاں پہلے سے بیٹھے تھے۔استاد رئیس کی باتوں  سے لگ رہا تھا کہ  وباء کے دنوں میں گھر میں بیٹھ کر عاجز آچکے ہیں۔ہمارا پروگرام تھا کہ استاد صاحب کا تفصیلی انٹرویو کریں گے مگر دامنِ وقت میں گنجائش نہ تھی۔ چوہدری محسن حسن خان نے ”ڈاک“ دھن آرٹس اینڈ کلچر کے ممبران کے اعزاز میں ایک شاندار شام کا اہتمام کیا تھا جس میں استاد رئیس اور ججی خان نےفن کے جوھَر دکھانے تھے۔میں اور ڈاکٹر بابر صاحب پیدل ہی کوٹ سرفراز کے لئے نکل پڑے۔راستے میں دربار سخی ثابت ثبوتؒ حاضر حضور آتا ہے۔یہاں دن کو بھی اکثر رونق دیکھی ہے مگر رات کو جب گلی میں نارنجی رنگ کی روشنی ہوتی ہے اور ہواؤں سے مد مقابل دربار کے چراغ اور برقی قُمقُمے جل رہے ہوں تو منظر اور بھی روح پرور دکھائی دیتا ہے۔کوٹ سرفراز میں چوہدری محسن حسن خان کی رہائش گاہ ہے۔جہاں فنون لطیفہ کے دلدادہ دوستوں کی آمد اکثر رہتی ہے۔

اس گھٹن زدہ معاشرے اور ماحول میں سر پر طرح طرح کی قدغنیں لگنے سے کلاسیکی موسیقی اپنی وقعت کھورہی ہے۔
داد دینا پڑے گی چوہدری محسن حسن خان اور سید اسد علی شاہ صاحب کو کہ ہر سال دو سےتین بار بین الاقوامی شہرت یافتہ گلوکاروں کو بلاتے ہیں۔ پہلے یہ کام انفرادی تھا۔پھر چار سال قبل دوستوں کو ساتھ  ملایا اور ”ڈاک“ کے نام سے ایک ادارے کی بنیاد رکھی۔جس کا کام چکوال کی ثقافت کو اجاگر کرنا تھا۔اس ادارے کے پلیٹ فارم سے سب سے پہلا پروگرام محفل مسالمہ کا ہوا۔ ہر سال موسیقی کی محفلیں جو ہوتی تھیں اب وہ ”ڈاک“ کے پلیٹ فارم سے منعقد ہوتی ہیں۔ اب یہ بات مد نظر رکھی جاتی ہے کہ جہاں استاد شفقت سلامت علی خان جیسے بڑے فنکاروں کو بلایا جاۓ وہیں کچھ وقت چکوال کے مقامی گلوکاروں کو بھی دیا جائے تا کہ نہ صرف کلاسیقی موسیقی کو فروغ ملے بلکہ چکوال کے گلوکاروں کو بھی سامعین موسیقی سے روشناس کرایا جائے۔چکوال کے استاد لیاقت علی خان کا ”ٹوٹا“ (شہنائی کی مدد سے مختلف دھُنیں بکھیرنا) ”ڈاک“ یوٹیوب چینل سے لاکھوں لوگوں نے دیکھا۔اسی طرح استاد رئیس خان نے اپنے وائلن پر نعتیہ کلام تاجدار حرم کی جو دھُنیں بکھیریں وہ بھی اب تک نو لاکھ سے زائد افراد دیکھ چکے ہیں۔خوشی ہوتی ہے کہ جس ادارے کی بنیاد رکھنے میں ناچیز کا کردار (براۓ نام ہی سہی) تھا اب وہ دنیا موسیقی میں ایک برانڈ بن چکا ہے۔

کرونا وائرس کی وجہ سے دنیا بھر میں اموات کی شرح بدستور بڑھ رہی ہے پاکستان میں جس تیزی سے کرونا وائرس پھیل رہا ہے اور اموات ہو رہی ہیں ایسے میں ایک عجیب ہیجانی کیفیت طاری ہے۔ ہر بندہ اس صورت حال سے پریشان ہے۔ ایسے میں ہم چند دوستوں کے لئے ایک شاندار محفل کا اہتمام تھا۔رات کے ساڑھے 9 بجے استاد رئیس خان کو کرسی پر بٹھا کر روشنیوں کو ان پر فوکس کر دیا گیا۔

آغاز میں ہی جب قصیدہ بردہ شریف کی دھُن سب کے کانوں میں پڑی تو عجب سرور آگیا۔استاد رئیس خان وائلن کے ہی نہیں سننے والوں کے دلوں کے تار بھی چھیڑ رہے تھے۔پھر استاد نصرت فتح علی خان کی گائی ہوئی مشہور زمانہ غزل ”تمہیں دل لگی بھول جانی پڑے گی“ کی دھُن نے سماں باندھ دیا۔تین گھنٹے تک جاری رہنے والی محفل میں درجنوں گانوں، غزلوں اور قصیدوں کی دھنیں  استاد رئیس خان کے وائلن اور ججی خان کے  طبلے سے نکل کر سامعین کے کانوں سے ٹکراتی گئیں اور روح تک کو سیراب کرتی گئیں۔

چکوال میں ایسی محفلیں بہت کم ہوتی ہیں۔سننے والے موجود ہیں لیکن تعداد میں بہت کم ہیں۔جو کلاسیکی موسیقی سے پیار کرنے والے ہیں وہ تعداد میں کم ہی کیوں نہ ہوں محفل جما دیتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ایسی محفل میں بیٹھ کر واقعی احساس ہوتا ہے کہ موسیقی روح کی غذا ہے۔ اس پہ قدغنیں سمجھ سے بالا تر ہیں۔گھٹن زدہ معاشرے میں اور پھر وبا  کے ان دنوں میں یہ موقع میسر آنا یقیناً غنیمت ہے مگر سننے اور سمجھنے والوں کے لئے۔ بلاشبہ یہ ایک حسیِن شام تھی ان بہت سی شاموں جیسی جو اس سے قبل سرپاک میں گزری تھیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply