میں اور قرنطینہ۔۔ڈاکٹر اظہر وحید

قرنطینہ کسی ہسپانوی حسینہ کا نام نہیں بلکہ قرنطینہ اُس علیحدگی کے دوارنیے کا نام ہے، جو ایک ممکنہ مریض پرلازم ہوجاتا ہے جب اس میں کسی وبائی مرض کی علامتیں ظاہر ہوں یا ظاہر ہونے کا امکان ہو۔

صاحبو! ہم بھی آج کل ایک گوشہ تنہائی میں یہ قرنطینیائی ایام گزار رہے ہیں۔ جب کرونا کی وَبا بے لگام ہوئی تو ہمارے اکثر پرائیویٹ پریکٹس کرنے والے ہم پیشہ فیملی فزیشن نے اپنے کلینکس کو مقفل کر دیا اور منظر عام سے خود کو دُور کر لیا۔ ایسا کرنا اُن کا حق ہے۔ یہاں یہ بتاتا چلوں کہ ہمارے ہاں اور دنیا بھر میں میڈیکل کے بنیادی قانون کے تحت ایک ڈاکٹر کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جب چاہے اپنی خدمات پیش کرنے سے کر سکتا ہے۔ یہ بالکل اُسی طرح ہے‘ جس طرح ایک جج اور وکیل کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ اگر چاہے تو کسی مقدمے کی سماعت اور وکالت سے معذرت کر لے۔ قصہ مختصر یہ کہ اس فقیرپیشہ کو یہ پیشہ ورانہ حق استعمال کرنا گوارا نہ ہوا۔ مجھے قطعاً مناسب معلوم نہ ہوا کہ جن خاندانوں کے ساتھ دو اڑھائی عشروں سے طبی ہی نہیں بلکہ معاشرتی اور روحانی حوالے سے بھی تعلقات استوار ہیں‘ انہیں اِس افتادِ ناگہانی میں بے یار ومدد گار چھوڑ دیا جائے۔ بیس پچیس برس پہلے جن بچے بچیوں کو گود میں دیکھا کیا کرتے‘ آج وہ اپنے بچوں کو گود میں اٹھا کر لا رہے ہیں۔ چنانچہ میں نے کلینک بند نہ کیا۔۔۔۔۔ آخر وہی ہوا جس کا احتمال تھا کہ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں  تمام تر حفاظتی تدابیر کے باوجود ایک مریض سے مجھے یہ وائرس منتقل ہو گیا۔ ابتدا میں جونہی بخار، گلے میں ہلکی سی سوزش اور جسم میں درد اور نقاہت کا آغاز ہوا‘میں نے فوراً اپنے گھر کے ایک چھوٹے سے لائبریر ی نما کمرے میں‘ جسے ہم نماز والا کمرہ کہتے ہیں‘ خود ساختہ قیدِ تنہائی کاٹنے کی ٹھان لی۔ چند ضروری ادویات، برتن، کپڑے، تولیہ اور بستر وغیرہ لے کر سب سے الگ تھلگ خود کو محصور کر لیا، لیکن ہم ایسے بھی معتکف نہ تھے کہ دنیا سے رابطہ کٹ جائے، لیپ ٹاپ اور موبائل ساتھ ہو تو دنیا آپ کے ساتھ ہے، ایسے میں بندہ معتکف کم اور مشتہر زیادہ ہوتا ہے۔ ہم نے ایک احتیاط البتہ ضرور اختیار کی، سوشل میڈیا پر بیماری کا سٹیٹس نہ لگایا۔ دعاؤں کی ضرورت تو ہمیں تھی لیکن ہمدردیاں سمیٹنے کا کوئی ارادہ نہ تھا۔ ابھی چار یا پانچ دن گذرے تو دوستوں کے فون آنے لگے، طبیعت کے بارے میں دریافت کرنے لگے، چند قریبی لوگوں کے فون موصول ہوئے‘ تو یہی سمجھا کہ انہیں ہمدمِ دیرینہ یوسف واصفی سے اطلاع ملی ہو گی، لیکن جب پے در پے دوسرے شہروں سے بھی فون کالز آنے لگیں تو میرا ماتھا ٹھنکا۔ میں نے ایک صاحب سے استفسار کیا کہ انہیں میری طبعیت کی ناسازی کے بارے میں کیسے معلوم ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ جناب ’’واصفؒ خیال‘‘ گروپ میں آپ کی طبیعت کی ناسازی کے متعلق پوسٹ لگی دیکھی ہے۔ حُمیر اَنور کو فون کیا کہ پتہ لگایا جائے‘ بغیر اجازت یہ حرکت کس نے کی ہے۔عقدہ کھلا، طیب منیر کہ جوہر ٹاون کا مکین ہے اور ہمارا سادہ لوح شاگرد بھی ‘ اُس نے نادان دوست کا کردار نبھایا ہے، ڈھیروں القابات کے ساتھ دعائے خیر کا ایک اعلان نشر کر رکھا ہے۔ پھر اسی سے درخواست کی ‘ میاں اب یہ پوسٹ مٹا دو ‘ خلقِ خدا کو تشویش میں مبتلا نہ کرو، لوگوں کے لیے کرنے کے اور بھی بہت کام ہیں۔ یہ عقدہ بھی کھلا کہ دعاؤں کے حصول میں یہ فقیر بہت امیر ہے۔ والدین، بہن بھائی، دوست احباب اور میرے غریب مریضوں نے جھولیاں بھر کر دعائیں دیں۔ اس موذ ی مرض کی دوا تو عنقا ہے‘ بس دُعا ہی دُعا ہے۔ ایامِ قرنطینہ میں بغرضِ علاج برادرم ڈاکٹر انجم جلال سے روزانہ کی بنیاد پر مشورہ جاری رکھا۔ زبان زدِ عام دیسی ٹوٹکے بشمول انجیر کا قہوہ، شہد ، یخنی ، ڈرائی فروٹ وغیرہ سب زیرِ استعمال رہے۔ ہماری ڈاکٹر میمونہ اور اُس کی ماما کسی چابک دست نرس کی طرح بر وقت دوا اور غذا پیش کرتی رہیں۔

یہ قرنطینہ زندگی کو عجب قرینہ سکھا گیا۔ یہ چودہ دن دراصل ایک ایسے قیدی کی قیدِ تنہائی کی داستان ہوتی ہے جسے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس کے ساتھ کیا سلوک ہو گا، اسے زندگی کی قید سے رہائی دینے کیلئے تختہ دار پر بھی لٹکایا جا سکتا ہے، اسے کسی آئی سی یو میں ایک سے دو ہفتے کی قیدِ بامشقت بھی سنائی جا سکتی ہے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ بخار اور نقاہت کے چند دْرّے لگا کر چودہ دن کے بعد اسے واپس نارمل زندگی میں بھیج دیا جائے۔ یعنی قرنطینہ میں داخل ہونے والا ان تینوں ممکنات سے گزر سکتا ہے۔ ممکنہ موت کی چاب اپنے اس قدر قریب محسوس کرتے ہوئے خود احتسابی کا گوشوارہ نظروں کے سامنے کھلنے لگا۔ ’’پہلی کرن‘‘ میں درج اپنا ہی جملہ آنکھوں کے سامنے گھومنے لگا
’’مہلک بیماریوں کا علم سیکھنے والے یہ نہیں جانتے کہ وہ خود کس بیماری سے ہلاک ہوں گے ‘‘

سوچا ، وبا میں مرنے والا شہید ہوتا ہے، ممکن ہے اسی بہانے معصیت مغفرت میں تبدیل ہو جائے۔ زندگی میں کیا کھویا‘ کیا پایا؟ مالک کی نعمتوں کی لگاتار ناقدری پر افسوس ہوا۔
وقت ،وجود اور وسائل جو اِس حیاتِ مستعار میں امانت کے طور دیے گئے تھے‘ اُن کے بے ڈھب ضیاع پر افسوس رہا۔ اُس کی عطا اور اپنی خطا میں کوئی نسبت معلوم نہ ہو سکی۔
سب سے زیادہ افسوس اپنی زیرِترتیب کتابوں کے ممکنہ ضیاع کا ہوا۔ دل میں آیا کہ جلدی سے فہرست بنا دوں، ممکن ہے ‘ پس ماندگان اور شاگردان فراغت ملنے پر انہیں کتابی شکل دے سکیں۔ “سازِ اَنا البحر” ، “عکسِ خیال” اور “درِ احساس” کے ترتیب شدہ مسودے تو دوستوں کو یاد ہی ہوں گے۔ البتہ آیاتِ حسرت میں دو قیمتی تالیفات دل میں پھانس بن کر موجود رہیں۔۔ “کشف المحجوب” کا آسان اْردو ترجمہ اور مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ کے ساتھ گزرے ہوئے شمسی کیلنڈر کے آٹھ سال اور آٹھ دن کی “بیتی” کے نام سے رُوداد۔ مخلص دوستوں کے بارہا اصرار کے باوجود بوجوہ آپ بیتی کا سلسلہ شروع نہ کر سکا، سوچتا رہا ‘ ایسی بھی کیا جلدی ہے، زندگی کی شام پڑے گی تو اپنے شام کی باتیں لکھنا شروع کریں گے۔۔ کیا معلوم تھا کہ بعض اوقات اچانک جھٹپٹا ہو جاتا ہے، تاریک بادل چھا جاتے ہیں اور شام سے پہلے ہی کسی ترتیب کے بغیر زندگی کا یوم ختم ہو جاتا ہے۔ اچھا کیا کہ اپنی ای میل اور فیس بک کا پاسورڈ بچوں کو دے رکھا ہے، تعزیتی مصروفیات سے فارغ ہو کر وہ لیپ ٹاپ کے پیٹ سے سب کچھ برآمد کر سکیں گے۔ اَشعار و اقوالِ واصفؒ کی تشریحات پر مشتمل کتاب ’’کتاب چہرے‘‘ تبصرے کی غرض سے چوہدری ریاض احمد اور ظہیر بدر سمیت کچھ دوستوں کو دے رکھی ہے، رفیق ِ طریق علی فراز علی کا تبصرہ بھی شامل ہے، اُس نے فون پر عیادت کرتے ہوئے اَدبی انداز میں دعائیہ تبصرہ کیا‘ تمہیں کیسے کچھ ہو سکتا ہے‘ ابھی تو تمہاری کتاب پر میرا تبصرہ چھپنا ہے۔ “کتاب چہرے” کے بعد “نصاب چہرے”۔۔اور اس کے بعد بشرطِ زندگی اور توفیق و اجازت ‘مرشدی کی اِس غزل کے جتنے قافیے ہیں‘ ان سب پر کتابیں ترتیب دینی ہیں۔

؎ مرے جہاں کا نصاب چہرے
میں پڑھ رہا ہوں کتاب چہرے

میں نے جلدی سے فہرست جاری کر دی ہے تاکہ لواحقین و متاثرین کیلئے سند رہے اور بوقتِ ’’ضرورت‘‘ کام آئے۔

بہرحال دوستوں کو نوید ہو اور دشمنوں کو خبر۔۔ کہ سات دن کے بعد علامات واپس جانا شروع ہو گئیں۔ غسلِ جمعہ کے بعد جسم نے بتایا کہ بیماری کا جِنّ نکل چکا ہے، کمزوری کے اثرات ابھی باقی ہیں۔ رب سے مہلت مانگ لی ہے کہ آئندہ زندگی میں پہلے کی طرح بے دریغ وقت ضائع نہیں ہو گا۔ آج کا کام کل پر نہیں، بلکہ کل کا کام بھی آج پر ڈالوں گا۔ جو کام ابھی شروع کرنے ہیں‘ وہ ابھی سے شروع کر دوں گا۔

آج بارہواں دن ہے ، دو دن مزید اور پھر رہائی مل جائے گی۔ ویسے آپس کی بات ہے‘ ہمیں یہ خود ساختہ قید بہت پسند آئی۔ ہماری اخبار کے زاہد رفیق گواہ رہیں کہ قرنطینہ کے دنوں میں بھی کالم کی چھٹی نہیں کی۔ کلینک سے بھی بس دو ایک دن سے زیادہ چھٹی نہیں کی، لیپ ٹاپ پر اسکائپ کے ذریعے آن لائین مریضوں کے مشورہ جات جاری تھے۔ اب جو مریض کلینک پر آ جائیں‘ وہ بیچارے واپس کیسے جائیں اور کدھر جائیں؟ سرکاری ہسپتالوں کے آوٹ ڈور بند ہیں یا پھر کرونا کے مریضوں کے رش کی زد میں ہیں۔ عبداللہ نے ایک لیپ ٹاپ نیچے کلینک میں رکھ دیا اور دوسرا میرے پاس۔ یوں اپنے لیپ ٹاپ پر کالم چلتے رہے اور دوسرے پر مریض۔ مشقِ سخن اور چکی کی مشقت جاری رہی۔ ’’نعت ورثہ‘‘ کے بانی ابوالحسن خاور کافی دنوں سے ایک طرح مصرع ارسال کر چکے تھے…
’’حضورؐ آپؐ کا اُسوہ جہانِ رحمت ہے‘‘

بحمد للہ! اس طرح مصرع پر ایک نعت بھی عطیہ ہوئی۔ اسکائپ پر کم و بیش ہر مریض کو نسخہ لکھوانے سے پہلے ایک لیکچر دینا پڑا کہ قرنطینہ کس بلا کا نام ہے، قرنطینہ کیوں ضروری ہے، اور یہ کہ اس وقت میرا اْن کے پاس آنا کیونکہ خطرے سے خالی نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سوچتا ہوں‘ آئندہ پوری زندگی ہی کیوں نہ قرنطینہ میں گزاری جائے۔ لوگوں سے کم تعلق، لکھنے پڑھنے سے رغبت، عبادت و عبرت سے تمسک اور ہر دن کو ایک غنیمت سمجھتے ہوئے گزارا جائے۔ آخر وہ بیماری جو اپنے ساتھ لے کر جائے گی‘ اُس نے بھی تو کسی دن آ کر ہی رہنا ہے۔ اُس مہلک بیماری کے آنے سے پہلے ، یعنی جانے سے پہلے تمام کام مکمل باشد کیوں نہ کر لیے جائیں، تاکہ وقتِ مفارقت حسرت کی بجائے مسرت کا شادیانہ بجائے، اور یہ کہا جا سکے کہ
ع شادم از زندگی خویش کہ کارے کردم!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply