افلاطون کا نظریہ امثال۔۔عفت سلیم

افلاطون سقراط کا شاگرد ہے,
افلاطون کو تصوریت پسند کہتے ہیں۔۔
افلاطون کے نزدیک حسی ادراک سے اشیا ء کی حقیقت کا علم نہیں ہو سکتا بلکہ محض اس کے شہود و نمود کا علم ہوتا ہے۔
خان محمد چاولہ اپنی کتاب ”اسلام اور فلسفہ“ میں لکھتے ہیں کہ افلاطون اپنی کتاب کے چھٹے حصے میں علم کے چار مدارج یا اقسام بتاتا ہے۔

1- گھٹیا ترین علم وہ ہے، جو حسی ادراک سے حاصل ہوتا ہے ۔ یہ محض ظاہری صورت سایہ اور عکس سے آگاہ ہوتا ہے۔ اس لئے یہ محض دھوکہ اور فریب ہوتا ہے۔ اس کی مثال وہ صحرا میں نظر آنے والے سراب سے دیتا ہے ۔یہ علم محض قیاس ہوتا ہے۔
2- دوسرا درجہ یقین ہے۔ یہ محسوس اشیاء  کا علم ہے۔ خواہ وہ اشیاء  مادی ہوں یا انسانی مصنوعات ہوں۔ اس کا ذریعہ حسی ادراک ہے۔
3- تیسری قسم کے علم کا ذریعہِ حصول بھٹک جانے والی سمجھ و فراست ہے۔ یا وہ سمجھ جو اشیا ء کے حسی ادراک پر انحصار نہیں کرتی بلکہ ریاضیاتی موجودات کو کام میں لاتی ہے جیسے اعداد، خطوط ، خاکے، تکونیں وغیرہ۔ علم کی یہ قسم فرضی hypothetical ہے، کیونکہ اس میں غیر ثابت شدہ مفروضات اور تعریفات سے استخراج کیا جاتا ہے۔
4- اس اعلیٰ  قسم کے علم کا ذریعہِ حصول عقلی بصیرت Rational insight ہے ۔ اس علم کا مفروض تصورات Ideas ہوتے ہیں ۔ یہ علم جس طریقے سے حاصل کیا جاتا ہے وہ منطقdietetics

ہے۔
افلاطون اس دنیا کے متعلق کہتا ہے کہ یہ دنیاحقیقی نہیں ہے بلکہ یہ حقیقی دنیا کا ایک عکس ہے ۔ جس طرح آئینے میں کسی شخص کا عکس نظر آتا ہے ویسے ہی یہ دنیا بھی حقیقی دنیا کا ایک عکس ہے۔ اور اس کی مثال وہ ایک غار سے دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ایک جنگل میں ایک غار ہے اور اس غار میں تین شخص بیٹھے ہیں جن کا رخ غار کی اندرونی دیوارکی طرف ہے ۔ اب غارکے باہر جو بھی ہوتا ہے انہیں وہ اس دیوار پر سائے کی شکل میں نظر آتا ہے کہ کوئی جانور باہر شکار کر رہا ہے یا جو بھی ہو رہا ہے۔ افلاطون کہتا ہے کہ ان بندوں کے ہاتھ شروع دن سے بندھے ہوئے  ہیں اور ان کےلئے  دنیا کاویژن صرف اس پردے پر ہے۔ ایک دن ان میں سے ایک کے ہاتھ کھل جاتے ہیں اور وہ باہر نکلتا ہے وہ دیکھتا ہے کہ ہر چیز روشن ہے سورج درخت جانور سب رنگین ہیں اندر سب 2D تھا باہر سب 3D ہے۔ دیکھتا ہے کہ باہر شیر کسی ہرن کا شکار کر رہا ہے وہ واپس غار میں جاتا ہے اور اپنے ساتھیوں کو بتاتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ نہیں جی تم جھوٹ کہتے ہو ہم تو سب دیکھتے ہیں اور ایسا ہی ہےجیسے ہم دیکھتے ہیں۔ وہ بندہ کہتا ہے کہ تم لوگوں نے پردے پر دیکھا جبکہ میں نے اصل میں دیکھا۔ تم لوگوں نے سب سیاہ دیکھا جبکہ میں نے رنگین دیکھا۔

یہ افلاطون کی عالمِ امثال کی مثال ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ ہم پردے پر دیکھ رہی ہیں۔ یہ بھی ایک 3D عکس ہے۔ ہمارا بھی ایک عکس آ رہاہے عالمِ امثال سے اور وہ جہان بالکل پرفیکٹ ہے۔ ساری مکمل چیزیں وہاں ہیں اور غیر کامل یہاں ہیں۔ یہ دنیا حقیقی دنیا نہیں ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس کی مزید توجیہہ یہ دی جاتی ہے کہ مثلاً ہمیں ایک پھول اچھا لگتا ہے تو ہم اس کے پیچھےکھنچے چلے جاتے ہیں۔ کیونکہ ہمارا وجود غیر کامل ہے اسی لئے  ہم اس کے پیچھے کھنچے چلے جاتے ہیں جو نامکمل پن ہمارے اندر ہے وہ پھول سے پورا ہوجائے ۔ یا پھر ہمیں خواب نظر آتے ہیں جوسچے بھی ہوتے ہیں اور کبھی کسی شخص کو دیکھ کر ہمیں لگتا ہے کہ ہم اسے پہلے مل چکے ہیں یا ہم نے پہلے اسے دیکھا ہے جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا تو افلاطون کے مطابق یہ سب کچھ حقیقی دنیا میں ہوتا ہے وہاں بھی ہم جیسے لوگ ہیں ان کے ساتھ یہ سب ہوچکا ہے ،چونکہ ہم ان کا عکس ہیں تو ہمارے ساتھ بھی ہورہا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”افلاطون کا نظریہ امثال۔۔عفت سلیم

Leave a Reply