حقیقی یوگ کیا ہے؟۔۔کوثر عظیمی

‎جسم کاروح سے اور روح کا رب سے ملاپ ،حقیقی یوگ ہے۔جو بندہ دنیا میں رہتے ہوئے دنیاوی معاملات کے ساتھ ساتھ جسمانی  ذہنی اور روحانی اپنے رب سے جڑا رہے وہ یوگی کہلائے گا۔ یوگ بندے کو خدا سے ملا دیتا ہے اور بہترین یوگ نماز ہے ۔ یوگا میں انسان کے ذہنی جسمانی اور روحانی درجات کو بہتر بنانے کیلئے بنیادی آٹھ درجات ہیں۔

پہلا اُصول۔ سچ بولنا چوری نہ کرنا!

دوسرا نیم۔طہارت اور پاکیزگی!

تیسرا آسن۔جن کی تعداد لاکھوں میں ہے!

چوتھا۔پرانا یام،سانس لینے کے طریقے!

پانچواں پریتاھارا!

چھٹا۔دھرنا !

ساتواں ۔دھیان!

آٹھواں۔سمادی یعنی حقیقی خوشی!

جب یوگی دن میں پانچ بارنیم کا پالن کرتے ہوئے وضو کرتا ہے ،وہ ذہنی جسمانی اور روحانی تینوں طرح سے تیار ہو جاتا ہے، اپنے رب سے ملاقات کے لیے اور جب یوگی اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے ہوئے رکوع میں جاتا ہے تو ریڑھ کی ہڈی کے تمام کالم کھل جاتے ہیں۔ رکوع کے فوراً بعد سیدھا کھڑے ہوتے ہوئے جب بندہ سجدے میں جاتا ہے، تو جیسے ہی ماتھا یعنی ہمارا آگیا چکر زمین سے چھوتا    ہے تو ہمارے جسم کی تمام نیگٹو انرجی زمین میں ارتھ ہوجاتی ہے، سجدے کے بعد وجر آسن میں بیٹھتے ہیں ،جو یوگ کے لاکھوں آ سنوں میں سے ایک مشہور آسن ہے، وجر آسن میں ہماری کمر کا بیلنس ایک سیدھ میں رہتا ہے، اور ریڑھ کی ہڈی میں موجود تینوں ناڑیاں ایڑا پنگلا اور شوشمنا میں آکسیجن اور خون کا بہاؤ تیز ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارے معدے کے نظامِ ہاضمہ کی رطوبت میں اضافہ ہوتا ہے اور کھانا تیزی سے ہضم ہوتا ہے ۔ وجر آسن لاکھوں آسنوں میں واحد آسن ہے، جو ہم کھانا کھانے کے فوراً بعد کرسکتے ہیں وجر آسن میں ہی نمازی  اپنا پورا دھیان صرف ایک نقطہ پر رکھتا ہے اور پورے یقین کے ساتھ کہ اللہ پاک مجھے دیکھ رہا ہے، میں رب العالمین کے سامنے ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سمادی میں بندہ دنیا سے بے نیاز ہو کر اپنے اصل سے مل کر رب سے ملاقات کرتا ہے، اس کا سفر کنڈلنی کی طرف ہوتا ہے جس نے رب کو پہچان اور  جان لیا اور اپنے نفس کو قابو میں رکھا بس یہی یوگ ہے۔۔ میں یوگ کی طالب علم ہوں سیکھنے کی جستجو رکھتی ہوں، مضمون کے طویل ہونے کے ڈر سے میں تشنگی محسوس کررہی ہوں اور میں ڈاکٹر سوم ویر آچاریہ کی شکر گزار ہوں کہ آپ نے مجھے موقع دیا ۔اللہ سبحان تعالیٰ آپ کو آسانی بانٹنے کا آجر عطا فرمائے آمین ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply