کرونا ڈائریز:کراچی،کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(قسط 60)۔۔گوتم حیات

آج اتوار کا دن ہے اور ماہِ جون کی چودہ تاریخ ہے۔
حسبِ معمول ہر اتوار کی طرح اس اتورا کو بھی صبح اٹھ کر میں نے ایکسپریس اخبار کی ویب سائٹ پر میڈم زاہدہ حنا کا کالم تلاش کیا، کالم ابھی اپلوڈ نہیں ہوا تھا تو میں کالم کے انتظار میں پرانے فلمی گانے سننے لگا، کچھ دیر بعد جب دوبارہ ویب سائٹ چیک کی تو کالم اپلوڈ ہو چکا تھا۔۔۔ کالم پڑھنے کے بعد اپنی پروفائل اور زاہدہ حنا فین کلب کے پیج پر شیئر کیا اور پھر میں دوسری خبریں پڑھنے لگا، ایک خبر پر نظر رُک سی گئی، وہ موت کی خبر تھی، پاکستان کی مشہور فلم  سٹار صبیحہ خانم ورجینیا میں طویل علالت کے بعد انتقال کر گئیں۔ مجھے ان کی موت کی خبر جان کر دکھ ہوا، یہ پاکستان کی اُن فنکاروں میں شامل ہیں جن سے میری وابستگی بچپن میں  سکول کے زمانے سے ہی شروع ہو گئی تھی، میں ریڈیو پاکستان پر فلمی گانوں کے پروگرام شوق سے سنا کرتا تھا، ریڈیو پاکستان کا دھیما لہجا مجھے نوّے کی دہائی کے درمیانی سالوں سے اچانک اٹھا کر بہت پیچھے سن پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں پہنچا دیتا تھا اور میں وہ پرانے گانے سنتے ہوئے سوچا کرتا تھا کہ کاش میں اُس بلیک اینڈ وائٹ کے زمانے میں پیدا ہوا ہوتا۔۔۔۔ اس طرح کی کئی دوسری باتیں سوچتے ہوئے میں اُس زمانے کو تصور کی آنکھ سے دیکھنے لگتا اور خود ہی یہ فیصلہ کر دیتا کہ وہ زمانہ بہت اچھا تھا اسی لیے تو اس زمانے کو یہ ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی کے میزبان “سنہری زمانے” کے خوبصورت نام سے یاد کر کر کے آہیں بھرتے ہیں۔۔۔ میرے لیے ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی کے میزبانوں کی وہ باتیں ایک ایسی سند رکھتی تھیں جن پر میں آنکھ بند کر کے یقین کر لیتا تھا۔۔۔ میں اُن میزبانوں کی باتوں کی کشش کی وجہ سے پرانے فلمی گیتوں کا اپنے زمانے کے گیتوں سے موازنہ کرتا اور اس بات پر اداس ہوتا رہتا کہ اب ایسے اچھے گیت کیوں نہیں تخلیق ہو رہے، جبکہ حقیقتاً نوّے کی دہائی میں بھی بہت اچھے اچھے گلوکاروں نے اپنا نام بنایا، لازوال گیت تخلیق کیے لیکن میں کسی حد تک ان سے ناواقف رہا، اسی زمانے میں حدیقہ کیانی پی ٹی وی پر بچوں کو گیت سکھانے کے لیے ایک پروگرام کیا کرتی تھیں، ان کے ساتھ ایک سینئر استاد بھی ہوا کرتا تھا جو حدیقہ کے ساتھ ساتھ دوسرے بچوں کو بھی موسیقی کے اسرارورموز سکھایا کرتا تھا، میں اس پروگرام کو نہایت شوق سے دیکھتا تھا، یہ پروگرام لمبے عرصے تک چلا، اس دوران جنید جمشید، عامر سلیم، بنی، نازیہ حسن، زوہیب حسن، ندیم جعفری، جنون گروپ، زرقا، ارم حسن، سیمیٰ رضوی، نازلی نصر، عدنان سمیع، فریحہ پرویز، عارفہ صدیقی، شارق رومی، حمیرا چنّا، انور رفیع، وارث بیگ، شازیہ منظور، سائرہ نسیم اور بہت سے انگنت گلوکار جن کا اس وقت مجھے نام بھی یاد نہیں آرہا میدان میں اترے اور چھا گئے۔۔۔ میں ان سب کے گیت بھی سننے لگا اور پھر “ایف ایم ریڈیو” کا بھی آغاز ہو گیا جس نے مجھے جلد ہی اپنی جانب متوجہ کر لیا، ایف ایم کی چوبیس گھنٹے نان اسٹاپ نشریات کے اپنے پسندیدہ پروگراموں کا شیڈیول میں اپنی اسکول کی کاپی پر نوٹ کر لیتا اور پھر ان سے لطف اندوز ہوتا، ایف ایم پر فون کالز کا سلسلہ بھی تھا، میں گھنٹوں لینڈ لائن فون سے ایف ایم کا نمبر ڈائل کر کر کے تھک جاتا لیکن مجال ہے جو کبھی میری لائن ملی ہو، پھر میں اس بات پر یقین کر کے، اپنے دل کو خوش فہمیوں میں مبتلا کر کے، اطمینان سے بیٹھ جاتا کہ کوئی بندہ بھی ان کو پروگراموں میں فون کال نہیں کرتا، یہ سب خود ہی اپنے مخصوص لوگوں سے کالز پر بات کرنے کا جھوٹا ڈرامہ کر کے ہم سننے والوں کو بیوقوف بنا رہے ہیں۔۔۔ یوں میں نے “ایف ایم ہنڈریڈ” کی نشریات سننا ترک کر دیں اور دوبارہ سے اپنے دادا کا پرانا ریڈیو لے کر “ریڈیو پاکستان” کی دھیمی نشریات سننے لگا۔

میرے دادا کا انتقال کافی پہلے ہو چکا تھا جب میں بہت چھوٹا تھا یا شاید وہ میری پیدائش سے پہلے ہی انتقال کر گئے تھے، مجھے ان کے بارے میں کچھ یاد نہیں، البتہ دادای کے بارے میں کچھ دھندلی سی باتیں یاد ہیں، ایک واقعہ میرے ذہن میں نقش ہے، یہ اُن دنوں کی بات ہے جب میں اپنی امّی کے ساتھ کشمیر میں رہتا تھا، ابّو کراچی میں مقیم تھے، ہم لوگ دادی کے ساتھ کشمیر میں تھے، ایک صبح میری بڑی کزن فہیمہ جو  سکول میں پڑھتی تھی ہمارے گھر آئی، وہ ہر روز صبح  سکول جاتے وقت ہمارے گھر کا چکر لگایا کرتی تھی، اس کے  سکول کا طویل راستہ ہمارے گھر کے بعد آتا تھا اور وہ اپنے گھر سے کافی مسافت طے کر کے جب ہمارے گھر پہنچتی تو کچھ دیر آرام کے بعد چائے پی کر  سکول روانہ ہو جاتی، اسکول سے چھٹی کے وقت بھی وہ ہمارے گھر ہی سے ہو کر اپنے گھر جاتی تھی، تو میں بتا رہا تھا کہ ایک صبح وہ ہمارے گھر آئی اور دادی کو بتانے لگی کہ جہاز کے حادثے میں ضیاءالحق فوت ہو گیا ہے، یہ خبر بقول اس کے ریڈیو اور ٹی وی پر بھی چل رہی ہے، ضیاءالحق کے یوں فوت ہونے ہر دادی بہت بےچین ہو گئیں تھیں اور وہ ان کے غم میں رونے لگیں، دادی کو دیکھ کر امّی بھی رونے لگیں۔۔۔ اُس صبح ان دونوں کا رونا مجھے سمجھ نہیں آیا اور نہ ہی مجھے یہ معلوم تھا کہ ضیاءالحق کے نام سے بھی کوئی شخص ہے جس کی موت پر آنسو بہائے جاتے ہیں اور وہ پاکستان کا حاکم ہے۔۔۔

مجھے ابھی تک دادی کا وہ رونا یاد ہے۔۔۔ کچھ دنوں بعد ہمارے ارد گرد پہاڑوں پر بےنظیر کے نام کی چاکنگ ہونے لگی، امّی نے مجھے خوشی خوشی بتایا کہ اب بےنظیر پورےملک کی حاکم بنے گی۔۔۔ وہ بھٹو کی بہت ہی لائق بیٹی ہے، زبردست تقریریں کرتی ہے، میں چاہتی ہوں کہ تم بھی بڑے ہو کر بےنظیر کی طرح تقریریں کرو۔۔۔
بےنظیر کے بعد جب نوازشریف کی پہلی حکومت بنی تو کچھ عرصے بعد دادی کا انتقال ہو گیا۔۔۔ ان کے انتقال پر ابّو کراچی سے کشمیر آئے تھے، کئی دنوں تک پورا گھر اداس رہا، پھر ابّو واپس کراچی چلے گئے اور چند ماہ بعد ہم سب بھی کراچی شفٹ ہو گئے۔۔۔ دادا، دادی کا وہ ریڈیو میں اپنے ساتھ کراچی لے آیا، اور آنے والے کئی سالوں تک میں اس ریڈیو پر نشریات سنتا رہا۔۔۔

وہ دھیمی نشریات، رکھ رکھاؤ مجھے بیحد فیسینٹ کرتا تھا، کئی سال میں ان دھیمے سُروں کے سحر میں گرفتار رہا، ریڈیو پاکستان میں شام کی نشریات میں ایک پروگرام “فوجی بھائیوں کے لیے” کے نام سے نشر ہوتا تھا، شاید یہ پروگرام ابھی بھی نشر ہو رہا ہے، میں اس پروگرام کو سن کر پینسٹھ کی جنگ میں پہنچ جاتا، مجھے اپنے فوجی بھائیوں کی طاقت اور دلیری پر فخر ہونے لگتا اور اس فخر کو میرے اندر پیدا کرنے میں ریڈیو پاکستان کے ان گمنام میزبانوں کا ہاتھ تھا جن کے لہجے کا میں کئی عرصے تک شیدائی رہا۔ دادا، دادی کا وہ ریڈیو ابھی تک میرے پاس موجود ہے۔

ایف ایم ہنڈریڈ پر کال نہ لگنے کی وجہ سے میں دوبارہ سے ریڈیو پاکستان کے پروگراموں کی طرف متوجہ ہو گیا تھا، چند سال بعد ایک اور ایف ایم کا آغاز ہوا جس کو دراصل ریڈیو پاکستان نے ہی شروع کیا تھا۔ میں نے “ایف ایم ون او ون” کے نام سے اس نئے ریڈیو اسٹیشن کو پابندی سے سننا شروع کر دیا، بدقسمتی سے یہاں بھی میری فون کال کنکٹ نہیں ہوئی لیکن میں ہمت کر کے ریگولر کال ملانے لگا، اور کچھ ماہ بعد ایک پروگرام میں میری فون کال لگ گئی۔

وہ دن میرے لیے بالکل عید کے دن جیسا تھا، میں نے گھر پر سب کو بتایا کہ آج میری فون کال لگی ہے ایف ایم میں۔۔۔ اس کے بعد میں تقریباً روز ہی مختلف پروگراموں میں کالز کرتا اور اپنے پسندیدہ گانوں کو دوستوں کے نام ڈیڈیکیٹ کرتا، تقریباَ دوہزار پانچ تک میں ریگولر ایف ایم ریڈیو اسٹیشن کے پروگرام سنتا رہا اور پابندی سے کالز بھی کرتا رہا۔ مشرف کے زمانے میں بہت سے نجی ریڈیو اسٹیشنز کی بھرمار ہو گئی تھی، آہستہ آہستہ مجھے اب ایف ایم کے پریزینٹرز کی مصنوعی باتوں سے اکتاہٹ ہونے لگی، مجھے ایسا لگنے لگا کہ یہ لوگ صرف اچھی گفتگو کرنا جانتے ہیں، خود ذاتی طور پر ان کی شخصیت میں وہ جھلک نہیں ہے جس کو یہ لوگ اپنے پروگراموں میں خوبصورت آواز کے جادو کی صورت میں اختیار کرتے ہیں، یہاں میں یہ بات اپنے پڑھنے والوں کو بتاتا چلوں کہ پہلی بار عامر لیاقت کو میں نے ایف ایم پروگرام کی میزبانی کے فرائض سرانجام دیتے ہوئے ہی سنا تھا اور پھر کچھ سالوں بعد جب وہ جیو پر “عالم آن لائن” کا پروگرام کرنے لگا تو میں فوراً ہی اس کے بناوٹی لہجے اور لفاظی کو رد کر چکا تھا، شاید اسی وجہ سے میں کبھی بھی اس سے متاثر نہ ہو سکا، جبکہ میرے کالج اور یونیورسٹی کے دوست اور ہم جماعت روزبروز اس کی مصنوعی شخصیت کے سحر میں گرفتار ہوتے چلے گلے۔۔۔

کالج لائف میں ایک سالانہ پروگرام میں ایف ایم کے مشہور پریزینٹر کو ہمارے کالج میں مدعو کیا گیا تھا، میں بہت شوق سے اس کا پروگرام سنتا تھا اور ریگولر کال کی وجہ سے وہ بھی مجھ سے شناسا تھا، ہم کبھی ملے نہیں تھے، اور جب مجھے معلوم ہوا کہ وہ مشہور پریزینٹر میرے کالج کے سالانہ ایونٹ میں آرہا ہے تو میرے لیے خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ اللہ اللہ  کر کے سالانہ تقریب کا آغاز ہوا اور جب اس مشہور پریزینٹر کو اسٹیج پر گفتگو کرنے کے لیے بلایا گیا تو میں اس کو دیکھ کر پریشان ہو گیا، مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا کہ کیا یہ وہی بندہ ہے جس کے پروگرام میں شوق سے سنتا ہوں، لیکن میں کیوں اس کو اتنے سال سنتا رہا، اس کی شخصیت میں وہی مصنوعیت تھی جس سے مجھے نفرت تھی اور میں پھر اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ قول و فعل کا وہی تضاد ہے جو ریڈیو کی وجہ سے مخفی تھا اور اب یہ آشکار ہوا ہے، حقیقت یہی ہے جو میں اپنے سامنے دیکھ رہا ہوں، جو الفاظ وہ ادا کر رہا ہے وہ اس کی شخصیت سے میچ ہی نہیں کر رہے تھے، یہ تو محض لفاظی ہے اس سے بڑھ کر کچھ نہیں۔
کالج کی وہ سالانہ تقریب اختتام پذیر ہوئی، میرے دل میں خودساحتہ بنے ہوئے بُت جن کو میں نے خود ہی بنایا ہوا تھا ٹوٹ چکے تھے، میرے پاس کوئی بات ہی نہیں تھی کرنے کو، ناچاہتے ہوئے بھی رسمی طور میں نے اس مشہور پریزینٹر کو اپنا تعارف کروایا، سلام دعا کے بعد میں دوبارہ کبھی نہ ملنے کے لیے اس مقام سے کوچ کر گیا۔۔۔ میرا وہ پورا دن اداسی میں گزرا تھا۔۔۔

کالج لائف میں ہی بچپن کی ایک یاد کو جس کا تعلق دادی سے تھا سوچ سوچ کر مجھے ہنسی آتی تھی کہ وہ کتنی سادہ دل تھیں جو ضیاءالحق کی موت پر آنسو بہا رہی تھیں اور پھر ان کے ساتھ ساتھ میری امّی بھی ضیاءالحق کے غم میں ہلکان ہوئے جا رہیں تھیں، اگر ان دونوں کو اس وقت ضیاءالحق کے جرائم کا علم ہوتا تو وہ یوں کبھی نہ روتیں۔۔۔ کاش میری دادی دوہزار پانچ تک زندہ رہتیں تو میں انہیں کتابیں پڑھ کر آگاہ کرتا کہ وہ حاکم جس کے لیے آپ نے اپنے قیمتی آنسو بہائے تھے انسان کے بھیس میں ایک ایسا درندہ تھا جس کی موت پر آنسو بہانا ممنوع ہوتا ہے، ایسے درندوں کی موت پر تو صرف ڈھول ہی پیٹے جاتے ہیں۔۔۔

اس قسط کے آغاز پر میں نے صبیحہ خانم کے انتقال کی بات کی تھی۔ آج کے دن وہ رخصت ہو کر سنتوش کمار کے پاس پہنچ چکی ہیں، لیکن ہمارے درمیان ان کا بےمثال کام موجود ہے جو زندہ رہے گا اور دیکھنے والوں کے دلوں کو مسحور کرتا رہے گا۔ اس وقت ان کی پنجابی فلم “مکھڑا” جس میں ان کے ساتھ سنتوش کمار نے کام کیا تھا کہ ایک مشہور گانے کے بول تھے مجھے یاد آرہے ہیں؛
“دلا، ٹھہر جا، یار دا نظارہ لین دے۔۔۔”
یہ گانا مجھے بہت پسند ہے، میں بچپن سے اب تک اس کو سن رہا ہوں۔ اسی طرح صبیحہ خانم کی فلم “ایاز” کا مشورہ گیت “رقص میں ہے سارا جہاں” جب ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے نشر ہوتا تھا تو اس کو سننے اور دیکھنے کے لیے میں اپنے اسکول کا ہوم ورک وقتی طور پر روک دیتا تھا۔
یہ سدا بہار گانا اکثر اوقات میں یُوٹیوب پر سنتا رہتا ہوں۔ آج میں اپنی ڈائری کی ساٹھویں قسط کو صبیحہ خانم کے نام کر رہا ہوں۔۔۔ صبیحہ خانم اب ہمیشہ کے لیے ہمیں چھوڑ کر ایک ایسی دنیا میں چلی گئیں ہیں جہاں پر سنتوش کمار کئی دہائیوں سے ان کی راہ تک رہے تھے۔۔۔ کیا ان دونوں نے اس جہاں میں بھی مل کر “دلا، ٹھر جا، یار دا نظارہ لین دے” کو گایا ہوگا۔۔۔ کون جانے۔۔۔۔ کاش ہم اس بات سے واقف ہو سکتے۔۔۔
صبیحہ خانم کو الوداع کہتے ہوئے ان کے مشہور فلمی گیت “رقص میں ہے سارا جہاں” کے لازوال بول مندرجہ ذیل میں نقل کرتے ہوئے میں اب اجازت چاہتا ہوں۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

رقص میں ہے سارا جہاں
دھوم ہے یہ آج یہاں
آیا ہے وہ شہہِ خُوباں!!
چاند نیا رات نئی، چھیڑ نئی داستاں
راگ بھی ہے، رنگ بھی ہے، حُسن بھی ہے گُل فشاں
بزم جمی، شمعیں جلی، زندگی ہے شادماں
آیا ہے وہ شہہِ خُوباں!!
جس کی جفا ایک ادا، پیار کی نگاہ میں
جدھر گزر، اِدھر اُدھر، پھول کِھلے راہ میں
جُھکنے لگا جس کے لئے، ہیروں جلا آسماں
آیا ہے وہ شہہِ خُوباں۔۔۔
رقص میں ہے سارا جہاں!!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply