تنخواہ نہ بڑھاؤ،  مراعات واپس  لو یا برابر کرو۔۔ابرار خٹک

کہا جاتا ہے کہ ایک بادشاہ  شدید سردی کی رات اپنے محل میں داخل ہورہا تھا تو رستے  میں ایک بوڑھے دربان سے ملاقات ہوئی، جس نے    باریک لباس پہنا تھا  او ر سردی سے کانپ رہا تھا۔بادشاہ نے اس سے  پوچھا کہ تمہارے  پاس گرم کپڑے نہیں؟ دربان نے کہا بادشاہ سلامت بس اسی لباس سے  خود کو گرم رکھنے کی کوشش کرتا ہوں!!بادشاہ نے کہا میں اندر جاکر تیرے لیے گرم  کپڑے بھیجتا ہوں۔دربان انتظار کرنے لگا جب کہ بادشاہ محل کے اندر گیا تو لباس بھیجنا بھول گیا۔صبح ہوئی تو دربان شدید سردی کی وجہ سے مرچکا تھا،ساتھ ہی اس نے بادشاہ کے نام ایک خط چھوڑا تھا ۔ بادشاہ سلامت! میں طویل عرصے سے یہی کپڑے پہن کر خود کر گرم رکھتا تھا،لیکن رات آپ نے لباس بھیجنے کا کہہ کر مجھے توقع  اور  آسرے پر چھوڑا،یہی وجہ ہے کہ میرے اندر کی  گرمی سرد پڑ گئی  جس کی وجہ سے اب  سردی میری  جان لینے کو آئی ہے۔بادشاہ سلامت ۔کسی کو آسرا نہ دینا ورنہ آپ کی بھول میری طرح بہت ساروں کی جان لے لے  گی۔

ہمارے وزیر اعظم صاحب نے بھی قوم کوتوقعات اور آسرے کی گھٹی پلائی تھی مگر حال یہ ہے کہ وہ اقتدار میں آکر سب کچھ بھولتے نظر آرہے ہیں۔جناب وزیر اعظم! آپ  کی مجبوریوں کا پوری قوم کو ادراک ہے،۲ لاکھ کی تنخواہ آپ کے لیے ناکافی تھی ،آپ کا ہیلی کاپٹر ۵۴ روپے کلومیٹر سے اڑان بھرتا ہے،آپ کے کچن،یوٹیلٹی بلز  اور دیگر اخراجات کا تقاضا تھا ،کہ تنخو اہ بڑھا لی جاتی ۔ یہی معاملہ صدر محترم ،وزراء،ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کا بھی تھا کہ ماورائے بجٹ ان کی تنخواہیں ۴۰۰ فی صد سے بھی زیادہ بڑھا لی جاتیں۔اسی طرح آپ،صدر محترم  کے ہاؤسز،دفاتر اور سیکرٹریٹ کے دیگر ملازمین ،جوڈیشنری ،محکمہ خزانہ و دیگر ’’حساس اور پوش‘‘محکموں  میں کام کرنے والوں کا بھی حق تھا کہ وہ اس مال غنیمت سے لطف اندوز ہوتے ،جس کے لیے کوئی قاعدہ و قانون ملحوظ نہیں رکھا جاتا۔وہ بے شمار الاؤنسز(طویل فہرست ) اور اضافی بنیادی تنخواہیں جو ہر ماہ نہ سہی سال کے بیشتر مہینوں میں   ’’من و سلویٰ‘‘کی طرح درج بالا محکموں اورکارپوریشنوں کے ملازمین   پر اتاری جاتی ہیں     ،وہ بھی آپ سمیت سب کا حق ہے کہ آپ سب قوم کے غم میں گھلتے ہیں اورپاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست ،خصوصاً “مدینہ ” کی مثالی ریاست  جیسا بنانا  چاہتے ہیں۔ علاوہ ازیں عدالت عالیہ کی ناک کے نیچے  مراعات کی جو بارشیں ہوتی ہیں،اس کا حساب ، کتاب  بہت طویل ہے،جس کا احاطہ شاید  کیلکولیٹر بھی نہ کرسکے۔ایک ہی ملک کے ملازمین کی تنخواہوں میں  زمین و   آسمان کا فرق  شایدآپ کو بھی    “غیرمنصفانہ “نظر نہیں  آئے گا  کیونکہ یہاں “نظریہ ضرورت اور رخصت “کے دروازے  کبھی بھی  بند نہیں ہوتے ،کہ یہ اس  مملکت  کی ہمیشہ سے  بدقسمتی رہی ہے۔صوبائی محکموں میں کام کرنے والوں کو یہاں”ویش اور شودر”  جیسی   تقسیم بندی سے گزارا جاتا ہے۔ایک صوبے میں  تنخواہ اور مراعات کا نظام ایک  انداز کا تو  دوسرے میں،دوسرے انداز کا ۔مساوات اور برابری اگر  کہیں ہے تو وہ صرف ۱۷۰۰۰ ہزار تنخواہ لینے والے مزدور کے لیے (جس میں سے بھی آجر پوری نہیں دیتے )    کے لیے ،یا ا ن ملازمین کے لیے  جو’’ قوم  و انسانیت  کی خدمت “کا فریضۃ  “آخرت کے اجر “کے نام پر سرانجام دیتے ہیں۔پنشن یافتہ طبقہ تو (جوڈیشری کے علاوہ )کسی شمار قطار میں نہیں۔ واہ رے تیری منطق ۔

جناب وزیر اعظم !آپ سے زیا دہ  کس کو معلوم ہوگا کہ  ہر حکومتی   عہدے دار اور  ملازم کی تنخواہ اور مراعات کی قیمت قوم کو ادا کرنا پڑتی  ہے۔اس قوم کی قسمت میں بم دھماکے، وبائیں،سیلاب،اندرون و بیرون  ملک ہجرت و  جلاوطنی  یا خوراک،رہائش،صحت ،تعلیم ،انصاف  اور تحفظ  کے لیے ترسنا ہی لکھا ہے؟یہ ملک” مافیاز “کاملک بن چکا ہے، اور ہرکوئی اپنے اپنے  نفع کا سوچتا ہے،سب سے زیادہ افسوس اس بات کا ہے ،جو لوگ منصوبہ ساز،انتظام کار چلانے والے ہیں ،وہ ہی اس کو مختلف طریقوں اور حربوں سے لوٹ  رہے ہیں۔ ہر سکینڈل اٹھتا ہے،قوم کو لوٹا جاتا ہے اور پھر اس کی فائل بند ہوتی ہے، جب کہ بحث کی ساری تا ن غیر مراعات یافتہ ملازمین اور پنشن یافتہ  پر آکر ٹوٹتی ہے؟ ماورائے بجٹ مراعات اور تنخواہوں میں اضافے کے لیے وسائل کی بہتات ہے مگر ان ملازمین کی باری آتی ہے ،تو خزانہ خالی ہوجاتا ہے؟زندگی کے ہر شعبے،محکمے اور نظام (پبلک و پرائیویٹ)میں عدم مساوات، امتیازات  کی وسیع خلیجیں ہیں ،جن کی وسعت میں دن بدن اضافہ ہوررہا ہے ،کوئی نہیں جو اس کو پاٹ سکے ؟ انتظامیہ ان کووسیع سے وسیع تر کررہی ہے جب کہ عدالت خاموش تماشائی ہے؟ تنخواہیں بڑھنے اور نہ بڑھنے کی تشویش اپنی جگہ  ایک حقیقت ہے،وبا میں زندگی بچ جائے تو بڑی غنیمت مگر عدم مساوات کی درج بالا فہرست  انتہائی روح فرسا ہے،جس نےمایوسی  اور کرپشن کے دروازے کھول دیے  ہیں،آپ ۵۰ سال مزید بھی حکومت کریں،اس ملک سے کرپشن ختم نہیں کرسکتے جب تک ان امتیاز ات اور عدم مساوات کو ختم نہیں کرتے۔

جناب والا ! بے شک تنخواہ میں اضافہ نہ کیجیے کہ یہ قوم مزید ٹیکسوں اور مصائب کا بوجھ نہیں اٹھاسکتی مگر خدارا ،اپنے سمیت صدر،وزراء،جوڈیشری،سیکرٹریٹ اور مذکورہ بالا تمام محکموں سے ساری مراعات  واپس لے کر سب کی تنخواہیں ایک برابر کردیں تاکہ قوم کو مزید قیمتیں نہ ادا کرنی پڑیں۔ ریاست مدینہ کا تقاضا تھا کہ اس خلیج کو پاٹنے کا آغاز ،آپ  خود سے کرتے  اورصدر،وزراء ممبران ِ پارلیمنٹ،ججز  اورمراعات یافتہ طبقے اور ملازمین   سے سارے اضافی الاؤنسز واپس  لیتے  ،مگر آپ نے تو اس خلیج کو اور بھی وسیع کردیا ہےکیا”تحریک انصاف ” اسی کا نام تھا ؟ یا تو سب کو دیجیے یا سب سے لیجیے, تاکہ انصاف کی تحریک کی کامیابی کی پہلی اینٹ تو رکھی جاسکے

اجمل خٹک کے  یہ  اشعار آپ   کی نذر کہ :

کہ پہ یو گُٹ کی یوہ سانگہ چرتہ گل شی نو سہ

سپرلے ھغہ چہ ہم پہ گل او ھم پہ خار راشی

د یو غٹئی  نیمی سپرلی تہ سوک سپرلے  نہ وائی

سپرلے ھغہ چہ ناقلارو تہ قرار راشی

Advertisements
julia rana solicitors

اگر باغ کے کسی کونے میں کوئی ایک غنچہ کھل جائے  تو کیا فائدہ ؟ بہار تو وہ  ہے کہ غنچے اور کانٹے دونوں پر آجائے۔کسی  ایک غنچے کے کھلنے کو بہار نہیں کہا کرتے بلکہ بہار تو یہ ہے کہ ہر  بیمارکو قرار آجائے۔

Facebook Comments

ابرار خٹک
میں کہ مری غزل میں ہے آتش رفتہ کا سراغ۔ مری تمام سرگزشت کھوۓہوٶں کی جستجو۔۔۔(اقبال)

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply