بجٹ کی تاریخ اور ہم۔۔سیدہ ہما شیرازی

ہمارے ہاں مختلف قسم کے میلے لگائے جاتے ہیں جن میں مذہبی میلے یعنی عرس (جس میں عقیدت مند لوگ شرکت کرتے ہیں ) سماجی میلے ,جیسے بیساکھی کا تہوار جس میں اس ثقافت سے جڑے لوگوں کا ایک بڑاحصہ شامل ہوتا ہے اس کے علاوہ ادبی میلے بھی سجائے جاتے ہیں جس میں ادب سے محبت کرنے والے افراد جوش و خروش سے حصہ لیتے ہیں .بیساکھی کے علاوہ دیگر میلوں کو سجانے اور ان کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے مناسب موسم اور ماحول کا انتخاب کیا جاتا ہے تاکہ میلے میں شرکت کرنے والے افراد بھرپور طریقے سے لطف اندوز ہو سکیں ,اس کے برعکس ایک سیاسی میلہ ہر سال گرمی کے موسم میں لگایا جاتا ہے لیکن اس میلے میں شریک لوگ مصنوعی طریقے سے پیدا کردہ ٹھنڈی فضا میں اس میلے کو سجاتے ہیں جبکہ عوام دور سے اس میلے کی حدت کو محسوس کرتی ہے اس میلے میں کئی کلو کاغذات پر مشتمل وزنی سالانہ ملکی بجٹ پیش کیا جاتا ہے۔جو کہ ہر سال نوآبادیاتی دور کی یاد تازہ کرنے کا سبب بھی بنتا ہے یہ بات کس قدر تکلیف کا باعث ہے کہ ہم آج تک نوآبادیاتی دور سے نکل نہیں پائے۔

بظاہر تو نوآبادیاتی دور کا خاتمہ ہو چکا ہے لیکن اس خاتمے کے بعد استعماری طاقتیں ایک نیا روپ دھار کر سامنے آئیں  اور نوآبادیاتی نظام کو مختلف طریقوں اور موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق رائج کیا جس کی بہترین مثال آج ہمارا ملک ہے۔

ایک سوال تو میری طرح سب کے ذہنوں میں جنم لیتا ہوگا کہ دنیا بھر میں نیا سال تو یکم جنوری سے شروع ہوتا ہے اور 31 دسمبر کو اختتام پذیر ہوتا ہے اور دنیا میں ہر منصوبہ بندی اسی سال کے مطابق ہوتی ہے لیکن ہمارا معاشی سال یکم جولائی سے کیوں شروع ہوتا ہے؟

یہ معاشی سال بھی باقی چیزوں کی طرح استعماری قوتوں کی دین ہے ہندوستان اور خصوصاً پنجاب کی اہم پیداوار گندم ہونے کی وجہ سے ساری صنعت کا پہیہ اسی پر چلتا تھا اور آج بھی پاکستانی معیشت کا زیادہ تر انحصار گندم کی فصل پر ہے اُس دور میں بھی استعماری قوتیں اس سے بھرپور فائدہ اٹھاتی تھیں 13 اپریل جس کو بیساکھی کے تہوار کے طور پر آج بھی پنجاب میں منایا جاتا ہے یہ گندم کے سیزن کی شروعات سمجھی جاتی ہے نوآبادیاتی دور میں انہیں پچیس سے تیس دنوں میں جس قدر اس فصل سے وصولیاں ہوتی تھیں اس کو پیش نظر رکھ کر اگلے سال کا معاشی بجٹ تیار کیا جاتا تھا اور یہی وجہ تھی کہ مالی سال کا آغاز یکم جولائی سے ہوتا استعماری طاقتوں کے جانے کے بعد بھی آج تک ہم وہی حکمت عملی اپنائے ہوئے ہیں صرف یہی نہیں ہمارا ہر ادارہ اور زندگی کا ہر شعبہ استعمار زدگی کا شکار ہے جس کو ہم بڑے فخر سے اپنائے ہوئے ہیں۔

اب بجٹ پر آتے ہیں بجٹ آنے پر ہر طرف ہمیشہ کی طرح شدید بے چینی پیدا ہوگئی کسی نے عوام دشمن بجٹ قرار دیا تو کسی نے عمرانی بجٹ کسی نے بجٹ کو حکم قرار دیا تو کسی نے پاکستان کے خلاف سازش میرے لئے یہ بات ہمیشہ کی طرح حیران کن تھی کہ ایسے معاملات آتے ہی اتنے دانشور کیسے پیدا ہو جاتے ہیں جو پہلے کبھی نظر نہیں آتے دوسری بات یہ حیران کرتی ہے کہ جب سے ہوش سنبھالا ہے ہر بجٹ کو عوام دشمن ہی پایا۔ ۔۔ اللہ جانے پاکستان کی تاریخ میں عوام دوست بجٹ کون سی خوش قسمت حکومت لائے گی۔۔معجزے کا انتظار رہے گا۔
بجٹ پر ہزاروں باتیں کی جاسکتی ہیں، دانش مندانہ گفتگو کے دریا بہائے جا سکتے ہیں لیکن اس سب کا کوئی فائدہ نہیں۔۔

جس ملک کا وجود قرضے میں ڈوب چکا ہوں جس کا ہر سرکاری ادارہ خسارے کا شکار ہو جہاں “لیکس” کے آنے سے یہ معلوم ہو کہ ہر بڑی اور بااختیار شخصیت کا پیسہ باہر بینکوں کی زینت بنا ہوا ہے جہاں ہر سطح پر حیثیت کے مطابق ڈاکا ڈالنے کا رجحان عام ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جہاں ٹیکسوں کا جال پھیلا ہو اور چند افراد پوری ریاست کی معیشت  کا بوجھ اٹھائے بیٹھے ہوں وہاں عوام دوست بجٹ کیا اور دشمن بجٹ کیا۔
ایک ایسا گھر جو خستہ حالی کا شکار ہو چکا ہے جس کی عمارت اپنوں کی مہربانی سے جگہ جگہ سے خستگی کا شکار ہو چکی ہو گھر کا سارا سازو سامان گروی رکھے جا چکا ہو جہاں کے مکین غیر یقینی صورتحال کا منظر پیش کر رہے ہوں جہاں  دشمن سے زیادہ دوستوں سے خطرہ ہو اس گھر کا کیا بجٹ ہوگا اور کیسا بجٹ ہوگا۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply