محو حیرت ہوں کہ دنیا ۔۔محمد حسین ہنرمل

انٹرنیٹ اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے آنے سے پہلے ہماری دنیا ایک مستورالحال دنیا تھی ۔ ایک علاقے کے لوگوںکے رسم ورواج اور طرز معاشرت دوسرے علاقے کے لوگوں پر آشکار نہیںتھی ۔ہم نے نام تو بے شمار مذاہب کا سناتھا لیکن اپنے مذہب کے علاوہ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے نظریات ہم نابلد ہوتے تھے۔ہمارے بیچ بس وہی زیادہ باخبروہی لوگ ہوتے تھے جو کتابوں ، اخبارات یا ریڈیو کے ذریعے دوسری دنیا کے لوگوں کے مذہب اور طرز معاشرت کے بارے میں کچھ پڑھتے یاسنتے تھے ۔ کیمرے کی آنکھ ہر جگہ موجودنہیں تھی جس کے ذریعے ہر انسان کی ہر ادا کو محفوظ کرلینے کا اہتمام کیاجاسکتاتھا ۔لیکن اس وقت ہم بہت آگے آگئے ہیںاورایک ایسی دنیا میں رہتے ہیںجن کی نت نئی ایجادات کو دیکھ کربندہ فی البدیہہ طور پر یہ کہنے پہ مجبور ہوجاتاہے ، محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوگئی جس دنیا میں اس وقت ہم جی رہے ہیں، یہ ایک ایسا عالمی گائوں(Global village) کہلاتاہے جہاں پرانسانی آنکھ کودیکھنے اورسننے کیلئے سب کچھ دستیاب ہے۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی ویب سائٹوں نے سات ارب انسانوں کو نہ صرف ایک دوسرے سے آشناکردیا ہے بلکہ لوگ ایک دوسرے کے خیالات اور اذہان کو بھی پڑھنے لگے ہیں ۔ کمپیوٹر کی ایک کلک پر آپ سوئٹزر لینڈ اور فرانس کے شہروں کے نظارے سے بھی محظوظ ہوسکتاہے اور انٹارکٹیکا کے برفانی تودوں اور پہاڑوں سے بھی۔اکیسویں صدی کی اس ترقی یافتہ دنیا میں یقیناً انسان نے ترقی کے وہ منازل طے کرلئے جو پچھلی بیس صدیوں میں ممکن نہیں تھے ۔ لیکن ساتھ ساتھ بہت کچھ پانے کے ساتھ ساتھ ہم بہت کچھ سے ہاتھ بھی دھوبیٹھے ہیں۔ ہم انٹر نیٹ ، فیس بک ، ٹویٹر ، سکائپ اور واٹس ایپ پر پل پل بدلتی ایسی خبریں توسن اور دیکھ رہے ہیں جو انسان کے رونگھٹے کھڑے کردیتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہم ایک دوسرے کی مددنہیں کرسکتے ۔ان رابطوں کی ویب سائٹس توہمیں برما کے روہنگھیاووں کے خون آلودچہرے اور مظلوم افغانستان اورشام میں روز ہونے والے خودکُش حملوں کی ویڈیوکلپس تودکھاتے ہیںلیکن ہمارے اندر مسیحا پیدا نہیں کرتے ۔ہم انٹرنیٹ کے ذریعے دنیا کے کونے کونے تک پہنچ گئے ہیں ،گھر بیٹھے ہم ہوائی جہاز کی ٹکٹ کی بک کراسکتے ہیں، ہم بلوچستان یا گلگت بلتستان کے دور دراز علاقے میں بیٹھ کر اسلام آباد سے مشتہر آسامیوں کیلئے چند منٹوں میں آن لائن اپلائی کرسکتے ہیں اور صبح سویرے نیویارک ٹائمز اور الجزیرہ کے کالمز تو پڑھ سکتے ہیں لیکن اپنے نزدیک دوستوں اور گھر والوں سے ہم بہت دور ہوگئے ہیں۔ایک گھر میں رہنے کے باوجود ہم نے اپنے بیچ فراق کی دیواریں کھڑی کردی ہیں ۔ ایک آفس میں نشست وبرخاست کے باوجود ہمارے درمیان رابطہ عنقا ہو گیا ہے۔ اکیسویں صدی کے ان سہولتوں نے ہمیںکسی کی ذاتیات کے اندر گھسنے اور برہنگی کا رسیا تو بنایا لیکن کسی کی پردہ پوشی کا گُر ہمیں نہیں سکھایا ۔ای میل کولے لیںجس کے ذریعے ہم اپنے دوستوں کو پل بھر میںاپنے دل کی بات تو بتا سکتے ہیں لیکن دوسری طرف ہم ڈاک کے ان خطوط سے محروم ہوگئے جس کیلئے ہم ایک زمانے میں عجیب میٹھی انتظار کیا کرتے تھے ۔ کتنی سچائی تھی ان خطوط میں ، کتنامٹھاس تھی ان الفاظ میں جسے ہم اور ہمارے احباب قلم سے لکھتے اور ڈاک کے ذریعے بھیجتے تھے ۔ خط سے ہمارا رومان وابستہ تھا ۔ عشاق حضرات کیلئے اپنے محبوب کے ہاتھ کا لکھا ہوا خط کس قدر شیرین ہوتاتھا اور اس سے کتنی میٹھی یادیں وابستہ تھیں۔اثر لکھنوی کہتے ہیں۔ آپ کا خط نہیں ملا مجھ کو دولت دو جہاں ملی مجھ کو انٹرنیٹ کی آمد اور سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی نت نئے معلومات نے ہمیںآگاہی تو دے دی لیکن ساتھ ساتھ ہماری اخلاقی قدریں بھی دیوالیہ کرگئی۔ ایک حساب سے ہم آج بھی اُسی دنیا میں جی رہے ہیں جس دنیا حجاج بن یوسف اور یزید جی رہے تھے ۔ ہم آج بھی اس دور کے باسی ہیںجس میں چنگیز خان طوطی بولتاتھا، جہاں انسانی کھوپڑیوں کی میناریں کھڑی کرنے والا سب سے زیادہ سمجھاجاتاتھا۔انٹرنیٹ اورسوشل میڈیا کی اس دنیا کے باسیوں کا شرف تو ہمیں مل گیا لیکن دوسری طرف ہمارے اندر وہی درندگی اب بھی باقی ہے جو ہزاروں سال پہلے انسانوں کا شیوہ تھا ۔ ہم جدت کے ایک نئے دور میں تو داخل ہوگئے ہیں لیکن اخلاقیات کی اس بلندی پر اب بھی نہیں پہنچے ہیں جو کہ ہمارے لئے حددرجہ ضروری ہے ۔ ہم نے بے شک بہت کچھ حاصل کرلیا لیکن بدقسمتی سے بہت کچھ گنوا بھی بیٹھے ہیں ۔ہم صنعت کے بہت قریب آگئے ہیں لیکن افسوس کہ فطرت سے کوسوں دور ہوگئے ہیں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply