کرونا ڈائریز:کراچی،کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(قسط 58)۔۔گوتم حیات

بارہ جون دوہزار بیس کے دن سوات کے ہسپتال میں آکسیجن سیلنڈر نہ ہونے کی وجہ سے کرونا کے تین مریض جاں بحق ہو گئے، فیصل آباد کے ہسپتالوں میں حفاظتی ماسک اور کِٹس نہ ہونے کی وجہ سے ڈاکٹرز کرونا کا شکار ہو رہے ہیں، اس وقت فیصل آباد کے 254 ڈاکٹرز کرونا کے مریض بن چکے ہیں۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ ہسپتالوں میں مریضوں کی طرف سے “ایس او پیز” کو بھی نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ اس وقت ملک بھر میں کرونا کے مریضوں کی سب سے زیادہ تعداد صوبہ پنجاب میں ہے، کرونا مریضوں کی تعداد پچاس ہزار کا ہندسہ کراس کر کے اب پچاس ہزار ستاسی ہو چکی ہے۔
اب میں اپنے شہر کراچی کی طرف آتا ہوں، یہاں کی صورتحال بھی خراب ہے، آکسیجن سیلنڈرز ہسپتالوں میں کمیاب ہو چکے ہیں، بازاروں میں یہ سیلنڈرز آسانی سے دستیاب نہیں ہیں اور اگر دستیاب ہو بھی رہے ہیں تو ان کی قیمتیں بڑھا دی گئی ہیں، اس ہنگامہ خیز وبا کے موسم میں ان بڑھتی ہوئی ناجائز قیمتوں کو روکنے کے لیے صوبائی حکومت نے چُپ سادھ لی ہے۔ کیا اب یہ تاجروں کی مافیا اور دکاندار حضرات اس وبا سے بھی منافع کما کر اپنے بینک اکاؤنٹ میں اضافہ کریں گے۔ یاد رہے کہ انسانوں کے بھیس میں یہ وہی مگرمچھ ہیں جنہوں نے صوبائی حکومت پر زور ڈال کر وقت سے پہلے لاک ڈاؤن کو ختم کروانے کے لیے منظم طریقے سے مہم چلائی تھی، افسوس کہ حکومت نے بھی ان کی حمایت کر کے سب کچھ کھول دیا، پبلک ٹرانسپورٹ تک کھول دی گئی جو اب کرونا کے موذی و مہلک وائرس کو شہر بھر میں ٹراسفر کر رہی ہے۔
آج ہی کے دن شہر بھر میں ایک درجن لوگ کرونا کی وجہ سے ختم ہوئے اور مریضوں کی کُل تعداد جو ان چوبیس گھنٹوں میں پورے شہر میں ریکارڈ کی گئی وہ ہم سب کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا رہی ہے، تقریباً 2049 مریض آج کے دن سامنے آئے ہیں۔ یہ تو وہ حقائق ہیں جو ہسپتالوں کی وجہ سے رپورٹ ہوئے، اس وقت بھی بہت سے ایسے مریض ہمارے ارد گرد موجود ہیں جو اس وبائی بیماری کو لے کر بازاروں اور چوراہوں میں گھوم پھر رہے ہیں، شہر کے گنجان آباد علاقوں کی ابتر صورتحال سے ہر کوئی واقف ہے اگر کوئی واقف نہیں ہے تو وہ ہیں ہمارے چہیتے حکمراں جو نجانے کب اپنی جمہوری سمت درست کر کے عوام کے زخموں پر مرہم رکھیں گے۔ ان کے پاس عوام کی فلاح و بہبود، تعلیم و صحت کے لیے کوئی خاص پلاننگ ہی نہیں ہے۔ پہلے یہ لوگ تمام تر کوتاہیوں کا ذمہ دار نواز شریف اور زرداری کو قرار دیتے تھے اب ان کی لسٹ میں ایک اور لفظ کا اضافہ ہو چکا ہے، جی ہاں اب یہ لوگ اپنی تمام تر ناکامیوں کا ذمہ دار نواز، زرداری اور کرونا کوٹھہرا رہے ہیں۔ اگر دیانتداری سے پچھلے کچھ مہینوں کا تجزیہ کیا جائے تو کرونا کو لے کر صوبہ سندھ کی حکمراں جماعت جس کا تعلق زرداری سے ہی ہے نے عوام کی زندگیوں کو محفوظ بنانے کے لیے اہم فیصلے کیے، اگر ان فیصلوں پر وفاقی حکومت کی طرف سے بھی سنجیدگی سے نوٹس لیا جاتا تو آج کرونا کے اتنے مریض ملک بھر میں نہ ہوتے۔
حکومتِ سندھ نے عوام کی زندگیوں کو کرونا کی وبا سے بچانے کے لیے فوری طور پر لاک ڈاؤن کا اعلان کر کے ایک دانشمندانہ فیصلہ کیا تھا لیکن افسوس کہ لاک ڈاؤن کے ساتھ ساتھ ہنگامی بنیادوں پر ہماری صوبائی حکومت کو کچھ ایسے فیصلے بھی کرنے چاہئیں تھے جن کا تعلق ہسپتالوں کی مخدوش ہوتی صورتحال کو بہتر کرنے سے ہونا چاہیے تھا، لیکن افسوس کہ وفاقی حکومت کی عدم دلچسپی اور کچھ سندھ حکومت کی غفلت کی وجہ سے آج یہ خراب صورتحال ہم سب کے سامنے ہے۔ اس پر کس کو موردِ الزام ٹھہرایا جائے اور کس کے جرائم پر پردہ ڈالا جائے۔ میرے خیال میں یہ فیصلہ اب ہمیں عوام پر چھوڑنا چاہیے۔ عوام جنہوں نے پارلیمنٹ کو کرکٹ گراؤنڈ سمجھ کر ایک ایسے شخص کا چناؤ کیا جس کی انا ہر گزرتے دن اونچی سے اونچی ہوتی جا رہی ہے، گردن میں سریا لگ چکا ہے، اپنی مکّاری، عیّاری، نااہلی اور ظلم کو چھپانے کے لیے ہاتھوں میں تسبیح پکڑ لی ہے۔ کیا ہاتھوں میں تسبیح اور زبان پر کلامِ پاک کا ورد کرنے سے مخلوقِ خدا کی آنکھوں میں دھول جھونکی جا سکتی ہے۔ وقت اب ان تلخ باتوں کا فیصلہ کرے گا، ایک ایسی افسوسناک تاریخ کو بنتے ہوئے عوام دیکھ رہی ہے جس کو کبھی بھی چھپایا نہیں جا سکے گا، نسل در نسل سینسر کی ہزاروں، لاکھوں پابندیوں کو لگا کر بھی یہ تاریخ دفن نہیں کی جا سکے گی۔
آج سے کئی سالوں اور دہائیوں یا صدیوں کے بعد اس خطے میں آنے والے انسان ہم پر لعنت و ملامت کرتے ہوئے ہم پر فقرے کسیں گے، یونیورسٹی کے طالبعلم اور اساتذہ کلاس رومز میں یہ فقرے دہرائیں گے کہ
“جانے وہ کیسے اندھے لوگ تھے جنہوں نے آنکھیں رکھتے ہوئے بھی شہباز شریف کے مقابلے میں عثمان بزدار کو چُنا اور نوازشریف کے مقابلے میں ایک ایسے شخص کا چناؤ کیا جو ہر لحاظ سے نااہل تھا، نالائق تھا اور پورے ملک کو دیمک کی طرح کھا کھا کر ایسا کھوکھلا کر گیا جس طرح کوئی دیمک کسی لکڑی کو کھوکھلا کرتی ہے”

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply