عاشورہ محرم کی فضیلت۔مفتی مکرم

اسلامی احکام کا دار و مدار قمری مہینوں کے حساب سے ہی چلتا ہے۔ سال کے بارہ مہینے ہوتے ہیں۔ سورۃ التوبۃ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا کہ بے شک مہینوں کی گنتی اللہ کی کتاب میں بارہ ہے، یہ آج سے نہیں ہے بلکہ جب سے تخلیق کائنات ہوئی ہے تب ہی سے اللہ تعالیٰ نے سال کے بارہ مہینوں میں سے چار مہینوں کو فضیلت اور حرمت والا بنایا ہے۔ وہ چار مہینے ہیں– محرم، رجب، ذی قعدہ، ذی الحجہ۔ تمام انبیاء علیہم السلام کی شریعتیں اس پر متفق ہیں کہ ان چار مہینوں میں ہر عبادت کا ثواب زیادہ ہے اور ان میں کوئی گناہ کرے تو اس کا وبال اور عذاب بھی زیادہ ہے۔ سابقہ شریعتوں میں ان چار مہینوں کے اندر قتل و قتال بھی ممنوع تھا۔

یوں تو محرم کا پورا مہینہ ہی افضل و حرمت والا ہے لیکن عاشورہ محرم الحرام کی فضیلت خصوصیت کے ساتھ احادیث شریفہ میں مذکور ہے اور ان احادیث کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر نبی کے دور میں کچھ نہ کچھ اس کا اہتمام تھا۔

شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی تصنیف ما ثَبَتَ من السُنَّۃ فِی اَیَّام السَّنَہ میں قدرے تفصیل کے ساتھ عاشورہ کے فضائل و اعمال کو روایات کی روشنی میں ذکر کیا ہے اور انھوں نے کربلا پر جو شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ کا واقعہ پیش آیا تھا اس کے بارے میں بھی روایات کو جمع کیا ہے۔ فضیلت عاشورہ کے بارے میں مندرجہ ذیل روایات ہیں:

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رمضان کے روزوں کی فرضیت نازل ہونے سے پہلے عاشورہ کا روزہ رکھا جاتا تھا جب رمضان کے روزوں کی فرضیت نازل ہو گئی تو عاشورہ کا روزہ اختیاری اور نفلی ہو گیا جو چاہے روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔

حضرت عائشہ روایت کرتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم عاشورہ کے دن روزہ رکھنے کا حکم دیا کرتے تھے۔ رمضان کی فرضیت کے بعد یہ روزہ نفلی ہو گیا۔

حضرت عائشہ سے ہی روایت ہے کہ جاہلیت (بعثت سے قبل) کے زمانہ میں قریش عاشورہ کے دن روزہ رکھتے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی روزہ رکھتے تھے۔ مدینہ منورہ آنے کے بعد بھی یہی عمل رہا لیکن رمضان کے روزوں کی فرضیت کے بعد یہ روزہ لازمی نہیں رہا۔

ابو موسیٰ روایت کرتے ہیں کہ یوم عاشورہ کی یہودی لوگ تعظیم کرتے تھے اور اس دن عید مناتے تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ خیبر والے یوم عاشورہ پر روزہ رکھتے تھے اور خوشی کا دن مناتے تھے، عمدہ کپڑے پہنتے تھے اور عورتوں کو بھی زیور وغیرہ پہناتے تھے۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو یہود سے معلوم کیا گیا کہ اس دن یہ لوگ عید کیوں مناتے ہیں تو انھوں نے بتایا کہ اس دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو فرعون سے، جو سب سے بڑا دشمن تھا، اس سے نجات دی تھی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی روزہ رکھا تھا اور بنی اسرائیل نے بھی روزہ رکھا تھا اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا تھا چونکہ فرعون اور اس کی قوم اس دن دریائے نیل میں غرق کر کے ہلاک کر دیے گئے تھے۔

قیس بن سعد بن عبادۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم عاشورا کے دن روزہ رکھتے تھے اور فطرہ بھی دیتے تھے۔ جب رمضان کے روزے فرض ہو گئے اور زکوٰۃ کے احکام نازل ہو گئے تو پھر نہ ہمیں اس کا حکم دیا گیا اور نہ روکا گیا اور ہم روزہ رکھتے تھے۔ (نفل روزہ کے طور پر)

حضرت ابو قتادہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یوم عاشورہ کا روزہ ایک سال پہلے کے گناہوں سے مغفرت کرا دیتا ہے۔

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب حضور کو معلوم ہوا کہ یہودی بھی یوم عاشورہ پر روزہ رکھتے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ آئندہ سال انشاء اللہ میں نویں تاریخ کا روزہ بھی یوم عاشورہ سے ملا کر رکھوں گا تاکہ یہود سے مشابہت نہ ہو لیکن اس سے پہلے حضور کی وفات ہو گئی۔

حفصہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ چار چیزیں حضور نہیں چھوڑا کرتے تھے، ایک تو یوم عاشورہ، ذی الحجہ کے شروع کے 9 روز کے روزے، تین ایام بیض کے روزے ہر مہینے اور فجر کے فرض سے پہلے کی دو رکعتیں سنتیں۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رمضان کے بعد سب سے زیادہ حرمت والا مہینہ محرم ہے اور فرض نمازوں کے بعد سب سے زیادہ فضیلت صلاۃ اللیل (رات کی نماز) کی ہے۔

حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ رمضان کے بعد کس مہینے کے روزے رکھا کروں۔ فرمایا محرم کے مہینے میں۔ اس میں ایک دن بہت افضل ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے بہت سے لوگوں اور قوموں کی توبہ قبول کی ہے اور آئندہ بھی اس دن توبہ قبول کرے گا۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نے فرمایا جو محرم کے مہینے میں جمعرات، جمعہ اور ہفتہ کا روزہ رکھے گا اللہ تعالیٰ اسے دو سال کے روزوں کے برابر ثواب عطا کرے گا۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نوح علیہ السلام طوفانِ نوح کے اختتام پر جودی پہاڑ پر کشتی سے اترے تھے تو روزۂ شکر رکھا تھا اور اپنے ساتھیوں کو بھی روزے کا حکم دیا تھا اور یہ عاشورہ کا دن تھا۔ اس دن حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ بھی قبول ہوئی تھی اور حضرت یونس علیہ السلام کے شہر والوں کی توبہ بھی قبول ہوئی تھی اور اس میں بنی اسرائیل کے لیے دریا میں راستے بنائےگئے تھے، اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ولادت ہوئی تھی اور عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کی بھی۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو یوم عاشورہ پر اپنے اہل و عیال کے خرچ میں وسعت کرتا ہے تو اس کے دسترخوان پر پورے سال وسعت (برکت) رہتی ہے۔

دیکھنے کی بات یہ ہے کہ یوم عاشورہ کی فضیلت کو ہر نبی کے دور میں برقرار رکھا گیا ہے اور تخلیق ارض و سماوات سے یہی عمل ہے تو اس کی فضیلت کو کماحقہٗ کون بیان کر سکتا ہے۔ یہ دن نفل نمازوں، صدقہ خیرات، ذکر و استغفار، توبہ اور شکر کا ہے، تلاوت اور تسبیحات کے وِرد کا ہے۔ کوشش کرنی چاہیے کہ اس دن کو زیادہ سے زیادہ عبادت اور نفلی روزے کے ساتھ گزارا جائے اور جو توفیق ہو نفل نمازیں ادا کی جائیں، غربا، یتامیٰ اور مساکین نیز رشتہ داروں کے حقوق کا خیال رکھا جائے جس کا لین دین باقی ہو اسے جلد از جلد پورا کر کے اللہ کی رحمت کا طلب گار بننا چاہیے۔ اس دن سب کی توبہ قبول ہوتی ہے یہ دن زندگی میں بار بار نہیں ملتے لہٰذا عاشورہ پر بازاروں میں گھوم کر ڈھول تاشوں میں ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ حضرت امام حسین اور کربلا کے سب ہی شہدا کا مقام بہت بلند ہے کہ یوم عاشورہ ان کے لیے مخصوص کیا گیا جس دن انبیاء کرام علیہ السلام کو نوازا گیا تو ان کی آل کو بھی اس دن نوازا گیا اس سے ان کی عظمتوں کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ امام حسین اور اہل بیت اطہار سے محبت فرض ہے۔

جب قرآن کریم کی سورۃ شوریٰ کی آیت قُل لا… نازل ہوئی جس کا مفہوم یہ ہے کہ اے نبی آپ کہہ دیجیے کہ میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا مگر میرے رشتہ والوں سے محبت کرو، تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ کے قرابت داروں میں کون ہیں جن سے محبت کرنا ہمارے لیے واجب ہے تو آپ نے فرمایا علی اور فاطمہ اور ان کے دو لڑکے (حسن اور حسین) رضی اللہ عنہم۔

لہٰذا ہمیں ان کی محبت ہر وقت دل میں رکھنی چاہیے اور ان کی سوانح اور ارشادات کو پڑھ کر عمل ضرور کرنا چاہیے تاکہ ہمارا دین بھی محفوظ رہے اور زندگی بھی کامیاب بنے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ قومی آواز!

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply