پاکستان میں جبری شادیاں۔۔محمد سعید

میرے پاس لفاظی کا مسحور کن طلسم کدہ نہیں کہ پڑھنے والوں کو موضوع کے بالعموم بامقصد سحرانگیزی میں جکڑ کر رکھ سکوں، میں سادہ اور آسان فہم الفاظ میں اپنے مافی الضمیر کو ادا کرنے کی کوشش کروں گا۔

اگرچہ موضوع اپنی نوعیت کے اعتبار سے ہمہ جہت اور عالمی پس منظر کے حامل عوامل سے براہِ راست تعلق رکھتا ہے لیکن یہاں ہم  محدود پیمانے پر صرف پاکستان کی حد تک عورتوں کی جبری شادیوں کو زیر بحث لائیں گے۔

میری کوشش ہوگی کہ اعداد و شمار کے گورکھ دھندے میں الجھنے کی بجائے مسئلہ سلجھانے کی طرف اپنی آراء  کو سپرد قلم کروں کیونکہ اب سوال یہ نہیں کہ کیوں ہوا بلکہ المیہ یہ ہے کہ ہم بحیثیت مجموعی ایسا ہونے ہی کیوں دے رہے ہیں۔

میں عموماً مسئلے کے دوسرے رخ پر زیادہ توجہ مرکوز کرنے کی کوشش کروں گا،کہنے سے مراد یہ ہے کہ ہم مجموعی طور پر ایسے کونسے اقدامات بآسانی کر سکتے ہیں جن کے بدولت ہم اس معاشرتی و سماجی گراوٹ سے نجات پا جائیں ،زیر نظر تحریر میں آپ کے سامنے جبری شادیوں کی روک تھام کیلئے ممکنہ اقدامات آپ کے سامنے پیش کروں گا۔

سب سے پہلے تو یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ عورتوں کی جبری شادیاں زیادہ تر کہاں وقوع پذیر ہو رہی ہیں۔
پاکستانی معاشرہ لسانی،علاقائی اور صوبائی تعصبات سے مرکب ایک انتہائی الجھے ہوئے سماجی رویے کا حامل معاشرہ بن کر ہمارے لئے درد سر کا باعث بنا ہوا ہے۔شہری اور دیہی زندگی کے تمام تر لوازمات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں یہ سمجھنے میں قطعاً دشواری نہیں ہوتی کہ اصل خرابی کے کیا اسباب ہیں۔

اگر آپ سالہا سال سے کسی بھی بڑے شہر کے رہائشی ہیں،عرصہ دراز سے شہری زندگی کے جدید تعلیمی رجحانات سے ہم آہنگ ہونے کے بعد اب آپ کا مجموعی معاشرتی و سماجی رویہ ویسا نہیں رہا جیسا کہ آپ کے آباء واجداد کا رہا۔۔۔مطلب شہری علاقوں میں بسنے والے بہت سے دیہاتی علاقوں کے پس منظر والے خاندان شعور اور آگہی کے اس دائرہ کار میں شامل ہوتے جا رہے ہیں جسے ہم ایک مہذب معاشرے کی تشکیل نو کا آغاز بھی قرار دے سکتے ہیں لیکن محدود پیمانے پر۔

اچھا اپنے اردگرد بسنے والے دس ایسے پڑھے لکھے گھرانوں میں سے جن کا پس منظر دیہاتی کلچر سے جڑا ہو ،کی مثال تلاش کرنے کی کوشش کیجئے کہ اس گھر کی اعلیٰ تعلیم یافتہ برسرِ روزگار لڑکی کی شادی جبری طور پر کردی گئی ہو۔آپ کو اس قسم کی مثال تلاش کرنے میں کافی مشکل پیش آئے گی۔

عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ برسرِ روزگار لڑکی اپنے حقوق کو جان چکی ہے اور ان کے حصول کے لئے اب اسے پتہ ہے کہ اس کی” ناں” کو ہاں میں بدلنے والی طاقت اس کے اپنے دائرہ اختیار میں ہے۔

ہم مجموعی طور پر شادی بیاہ کے سماجی ومعاشی بندھن کو ذات برادری،فرقہ و مسالک پرستی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ پھر ہر صوبے میں رائج علاقائی مروجہ ثقافتی ورثے کے زیر اثر عورت کے استحصال کو دین و مذہب کی آڑ لے کر درحقیقت عورت کے حقوق کی پامالیوں میں مصروف ہیں۔مخصوص ہندی اور دیگر ثقافتی ورثہ کی آمیزش سے تیار کردہ رسوم و رواج کے گورکھ دھندےکو ہمارے باثر جہلا کے طبقے نے مذہب کے لبادے میں لپیٹ کر مقدس اور محترم بنا دیا ہے جس کے خلاف آواز اٹھانا گناہ کبیرہ تصور کیا جاتا ہے۔

جبری شادی کے واقعات زیادہ تر سوشل میڈیا،پرنٹ یا الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے ہم تک پہنچتے ہیں، جس طرح ہر شعبہ میں اچھے اور برے لوگ کام کر رہے ہوتے ہیں اسی طرح ہمارا صحافت کا شعبہ بھی اس علت سے ہرگز خالی نہیں۔بعض اوقات اصل میں وقوع پذیر ہونے والی شادی کے زمینی حقائق ویسے بالکل نہیں ہوتے جیسا کہ میڈیا ہمیں رپورٹ کر رہا ہوتا ہے۔ہمارے ہاں حقائق کی جانچ پڑتال فی الحال جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔

مذہب عیسائیت میں ایک فرقے کے ماننے والوں میں طلاق کا سرے سے کوئی آپشن ہی نہیں۔اب اسکے ماننے والوں کے ہاں لڑکی کی مرضی کے بغیر زبردستی شادی کردی جاتی ہے لیکن وہ اپنے ہی ہم مذہب کسی دوسرے لڑکے سے شادی کرنا چاہتی تھی۔موقع  ملتے ہی جبری بندھن سے چھٹکارا پانے کے لئے اب لڑکا اور لڑکی ایک محفوظ راستہ اختیار کرتے ہیں۔دونوں اپنے سابقہ مذہب سے منحرف ہو کر نئے مذہب کا اقرار کرتے ہیں اور عاقل بالغ ہونے کے ناطے قانون کے توسط سے اپنا قانونی حق کے حصول کے لئے درخواست دائر کر دیتے ہیں۔اندرون سندھ میں اکثر یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ شودر ذات لڑکا برہمن ذات کی لڑکی سے شادی کا خواہاں ہے لیکن ایسا ہونا ہندو دھرم میں ممکن نہیں لہٰذا دونوں اپنے مقصد کے حصول کے لئے دوسرا محفوظ راستہ اپناتے ہیں۔اب یہاں پر دو متنازعہ رائے قائم ہوتیں ہیں، ظاہر سی بات ہے اس پس منظر میں ہونے والی شادی کے پس پردہ دوسرے عوامل بطور خاص شامل ہیں جن کا حل سردست تلاش کیا جانا ممکن نہیں کیونکہ ہم اپنی زندگیوں میں صدیوں سے مروجہ رسوم و رواج کو چھوڑنے کو تیار نہیں خصوصاً سندھ, بلوچستان ،کے پی کے اور پنجاب کے دیہی علاقوں میں،ان علاقوں میں بسنے والی عورت دراصل سیکس ٹول،پاؤں کی جوتی اورلونڈی کی ہی متبادل کے طور سمجھی جاتی ہے اور اس کے علاوہ اس کو کوئی بھی کردار یا وقعت دینے کے لئےوڈیرہ، سردار،ملائت زدہ طبقہ،جاگیردارانہ نظام تیار ہی نہیں۔یہ سماج کی وہ فرعونیت ہے جس کا علاج کم از کم صدیوں پہ محیط ہے۔

ہندی کلچر کے زیر اثر ستانوے فیصد کے حامل اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مسلمان شہری بذاتِ خود ذات،برادری اور فرقہ وارانہ گروہوں میں تقسیم در تقسیم ہوچکے۔سید سادات خاندان کی لڑکی کی شادی ہر صورت سید خانوادے میں ہی منعقد کی جائے گی بالفاظ دیگر اس کا مستقبل تاریک ہے۔ چودھری،گجر ،جٹ ،رانا الغرض تمام برادریوں سے منسلک کرتا دھرتا لوگ اپنی برادریوں کے دائروں میں مقید ہیں۔۔اپنے گھر آنے والے اخبار میں اشتہارات کے سیکشن میں”ضرورت رشتہ” کے تحت مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے گھرانوں کے اپنے بچوں کے لئے دی گئی ریکوائرمنٹ ملاحظہ فرمائیں۔

اکثریت اس بات کے خواہاں ہوتے ہیں کہ لڑکا یا لڑکی انکی اپنی ذات برادری اور مسلک سے ہی تعلق رکھتا ہو دیگر برادریوں کے حامل رابطے سے گریز کریں ۔آپ بہت کم اس بات کا مشاہدہ کریں گے کہ سید لڑکی اہل تشیع کے لڑکے سے بیاہی جا رہی ہو یا اہل تشیع کی لڑکی اہل حدیث،اہل سنت والجماعت یا دیو بند مسلک کے حامل خاندان میں شادی کرکے لائی جا رہی ہو۔ایسا اگر ہو بھی جائے تو دونوں خاندانوں کے درمیان ایک ذہنی خلفشار و انتشار کا خدشہ بحرحال سر پر منڈلاتا رہتا ہے۔

اب سب سے اہم مسئلے کی طرف توجہ کرتے ہیں اور وہ ہے ہمارا خاندانی نظام۔یہاں زیادہ تر بچے،بچیاں پڑھ لکھ جانے کے باوجود جوائنٹ فیملی سسٹم کے تحت اپنی زندگی کے فیصلے آزادانہ طور پر کرنے سے یکسر محروم ہی رہتے ہیں۔والدین کی جانب سے بچپن سے ہی ایک جذباتی ڈائیلاگ کو بچوں کے اذہان پہ نقش کرکے ان کی قوت فیصلہ کو مجروح کرکے رکھ دیا جاتاہے ،پالنےپوسنے،پڑھائی لکھائی اور اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے احسان عظیم کا بدلہ چکانے کی ایک ہی صورت بچتی ہے کہ بہو یا داماد کا فیصلہ کن انتخاب والدین ہی سرانجام دیں گے،انحراف کی صورت میں اعلان لاتعلقی یاعاق کئے جانے کا واضح احتمال موجود ہے۔مزے داری کی بات یہ ہے کہ اس کو ہم بہت خوب صورتی کے ساتھ مذہبی دینی شعار کے لبادے میں لپیٹ کر مزید مؤثر بنا دیتے ہیں۔

لڑکا یا لڑکی چونکہ اس معاملہ میں خود کو تنہا محسوس کر رہے ہوتے ہیں اس لئے نا چاہنے کے باوجود خود کو والدین کے سپرد کردیتے ہیں کیونکہ پڑھ لکھ جانے کے باوجود ایسے بچے یا بچیاں شادی جیسے بندھن کو اپنی مرضی سے کرنے کے لئےمعاشی و ذہنی طور پر تیار نہیں ہوتے۔بالالفاظ دیگر ان کے آس پاس کوئی ایسی قابل قدر سپورٹ لائن ہوتی ہی نہیں جسے دیکھ کر وہ کوئی مؤثر قدم اٹھانے کی ہمت کر سکیں۔

جوائنٹ فیملی سسٹم کے تحت رہتے ہوئے وہ لڑکیاں یا لڑکے جو کم از کم وقت میں برسر روزگار ہو کر اس پوزیشن میں آجاتے ہیں کہ شادی کے نتیجے میں علیحدہ سے اپنا کاروبار حیات کامیابی کے ساتھ چلا سکتے ہوں ، یہ ناصرف خودمختار ہوجاتے ہیں بلکہ خاندان کے دیگر افراد کو خواہ وہ کوئی بھی رشتہ ہو کو مجبور کر دیتے ہیں کہ انکی زندگی سے متعلق کوئی بھی فیصلہ ان کی مرضی کے خلاف نہیں کیا جائے گا اور ظاہر سی بات ہے کہ اپنی اس آرزو یا خواہش کو منوانے کے لئے انہیں اچھی خاصی تگ ودو کی ضرورت پڑتی ہے تب جا کر تکمیل خواہشات کی ہما ان کے سر پر آکر بیٹھتی ہے۔

المیہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے تعلیمی نصاب میں بچیوں کو انکے اصل حقوق کی آگاہی سے دور رکھا حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ علاقائی و لسانی تعصبات سے بالاتر ہو کر ہم اپنے بہترین محفوظ مستقبل کے لئے زیادہ سے زیادہ کوشش کرتے کہ عورت کو اس کا معاشرے میں جائز حق اور مقام دلا تے لیکن ہم ایک انجانے خوف میں مبتلا ہیں۔

شادی شدہ زندگی ایک طویل ترین صبر آزما تلخ حقیقت کا نام ہے،ایسا عموماً فلموں یا ڈراموں میں ہی ہوتا ہے کہ امیر گھر کی لڑکی غریب مالی یا ڈرائیور کے ساتھ اندھی محبت میں گرفتارہو جائے اور اس کے حصول کے لئے وہ زمانے بھر سے لڑ جائے۔اس بات کا سادہ سا مطلب یہی ہے کہ کم از کم کالج،یونیورسٹیز سے تربیت یافتہ ہماری نسل نے بہت بہتر انداز میں ازدواجی زندگی میں مظبوط معاشی پوزیشن کے اہم ترین فیکٹر کی اہمیت کو بخوبی جان لیا ہے۔کسی بھی نئے نویلے شادی شدہ جوڑے کے لئے جتنا مظبوط اور مستحکم معاشی تحفظ ہوگا انکا مستقبل اتنا ہی پائیدار،شاندار اور مثالی ہوگا۔

جبری شادیوں کے بندھن جیسے عفریت کے آگے ہم انفرادی و اجتماعی طور پر سالہا سال کی مؤثر حکمت عملی کے تحت ہی روک تھام کر سکتے ہیں۔اس میں سب سے اہم فریضہ والدین ہی کو انجام دینا پڑے گا کیونکہ یہ وہ گھاٹی ہے جس میں سے ہر صاحب اولاد کو گزر کر ہی جانا ہے۔ٹین ایج کو ٹچ کرتے ہوئے بچوں کو اگر والدین دوستانہ ماحول میں یہ بات ذہن نشین کروا دیں کہ ہم تمہارے بہترین اور کامیاب مستقبل کے لئے تمہارا ساتھ دیں گے۔جب آپ بطور والدین اپنے بچوں کے اذہان میں مثبت سوچ کے حامل بزرگ کے طور پر جگہ بنانے میں کامیاب ہو گئے تو سمجھ لیں آپ نے اپنی آنے والی نسل کو کامیاب ازدواجی زندگی گزارنے کی شاہراہ پہ ڈال دیا۔

پڑھ لکھ جانے کے بعد اگر لڑکی اپنے والدین سے بالکل دوستانہ ماحول میں اپنے ہونے والے شریکِ حیات کے متعلق استفسار کرتی ہے یا شادی کی خواہش کا اظہار کرتی ہے تو اس میں والدین کے لئے طمانیت کا احساس ہونا چاہیے کہ انکی اولاد نے اپنی زندگی کے انتہائی اہم فیصلہ کرنے میں ان کو اہمیت دی ۔

“اگر تو عاقل بالغ لڑکی اور لڑکا دونوں اپنے اپنے خاندان کے بزرگوں کی مرضی و رضا مندی سے رشتہ ازدواج میں بندھنے سے پہلے تمام تر اخلاقی اقدار اور تہذیبی روایات کا خیال رکھتے ہوئے ایک دوسرے سے ملتے ہیں یا بات چیت کرکے کوئی حتمی رائے قائم کرتے ہیں تو درحقیقت اس عمل کے نتیجے میں ہونے والی شادی اپنی مثال آپ ہوگی”۔اس میں کم از کم والدین اپنی جگہ سرخرو ہو پائیں گے کہ بھئی ہم نے تم پر کوئی زبردستی نہیں کی،تم نے وہی کیا جو تمہیں اچھا اور بہترین لگا،دوسرے اولاد کے دل میں اپنے والدین کی قدرو قیمت میں عزت و احترام اور تکریم کا یقینی اضافہ ہوگا کہ ہماری خوشیوں کی خاطر خاندان کے بزرگوں نے خاطر خواہ تعاون کیا۔

اگر تو آپ مندرجہ بالا بیان کئے گئے طریقے کوبد تہذیبی غیر اخلاقی، بے غیرتی یا بےشرمی پہ محمول کرتے ہیں تو پھر مجھے یہ کہنے میں کوئی عار محسوس نا ہوگی کہ ابھی آپ مندر،مسجد اور گوردوارے سے کوسوں دور صحرائے جہل میں بھٹکتے پھر رہے ہیں،گویا کہ آپ کی اپنی منزل مقصود متعین نہیں ہے ۔اپ کے ہاتھ میں سالہا سال کے رٹے رٹائے نصاب پاس کرنے کی رسیدیں تو ہو سکتی ہیں لیکن بنیادی سماجی و معاشرتی حقوقِ انسانی کی راہنمائی کرنے والی فہم وفراست کا ادراک موجود نہیں جس میں عورت اور مرد بلا تخصیص برابر کے حصہ دار ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

حرفِ آخر میری نظر میں جبری شادیوں کا ہوناوہیں زیادہ شد و مد کے ساتھ نظر آئے گا جہاں عورت کو کمتر حیثیت دی جاتی ہے ،جہاں جہاں عورت نے تعلیم یا دیگر ذرائع کی بدولت اپنی قدرو قیمت اور اہمیت کا لوہا منوا لیا ہے وہاں اب اس کی” ہاں “میں ہی ایک کامیاب خاندان اور صحت مند معاشرے کی تشکیل نو کی شروعات کی عملی تصویر دیکھنے کو ملتی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply