یس سر ! آل اوکے سر۔۔۔بریگیڈئیر بشیر آرائیں

میں نے دروش (چترال) میں افغانی مہاجر کیمپ کلکٹک پر بمباری کے واقعے پر لکھا تو مجھے بہت سے فوجی افسروں کے فون آئے، جو اس زمانے میں چترال  سکاوٹس یا آرمی انجنیئرز میں خدمات انجام دے رہے تھے ۔ اس تحریر کی وجہ سے بہت سے رابطے پھر بحال ہوگئے ۔ مجھے ایک ایسے افسر کا بھی فون آیا، جس کا تکیہ کلام Yes Sir اور All Ok Sir ہوتا تھا اور ہمارے کمانڈنٹ کرنل مراد خان نیّر ان سے اسی بات پر خفا رہتے تھے کہ تم اپنی کمزوریوں کی نشاندہی کیوں نہیں کرتے، تاکہ انہیں دور کیا جا سکے ۔ فوج میں جنرل ضیا الحق کے دور میں سینئرز کو All Ok کہہ کر خوش کرنے اور اس سے خود کو لائق فائق افسر ثابت کرنے کا بہت رواج تھا ۔

یونٹ یا خاص طور پر ہارڈ ایریا کا دورہ کرنے والے سینئر افسروں کے مخصوص سوال ہوتے تھے ۔ جوانوں اور افسروں سے پوچھا جاتا ۔ مورال اچھا ہے؟ کھانا اچھا ملتا ہے؟ چھٹی وقت پر ملتی ہے؟ ان سب سوالوں کا جواب جامع اور مستند ایک ہی ہوتا تھا یس سر ۔ آل اوکے سر ۔

کلکٹک کیمپ پر بمباری ہوئی ۔ بےتحاشہ اموات ہوئیں لیکن اصل مسئلہ زخمیوں کی دیکھ بھال تھا ۔ چھوٹا سا سول ہاسپٹل اور او پی ڈی جیسا چترال  سکاؤٹس ہاسپٹل اس ناگہانی آفت کو سنبھال نہیں پا رہے تھے ۔ اطلاع آئی کہ صدر پاکستان دروش آرہے ہیں ۔ ہمیں پتہ تھا کہ جنرل ضیاالحق سے ہمارے کمانڈنٹ کی مدتوں سے بے تکلفی ہے اس لئے زیادہ پریشانی نہیں تھی ۔ کمانڈنٹ نے مجھے اپنے آفس بلوایا اور کہا کہ جنرل ضیاالحق کو زخمیوں کے بارے میں سارا حال تم بتاؤ گے اور ہر سوال کا جواب No Sir ہوگا ۔ خبردار اگر تمہارے منہ سے ایک بار بھی Yes Sir یا All Ok Sir نکلا ۔ یہی موقع ہے کہ ہم ہاسپٹل کی استطاعت بڑھا لیں ۔ میں دوسال نوکری والا کیپٹن اور سامنے چیف آف آرمی  سٹاف اور صدر پاکستان ۔ ہر بات پر No Sir کہنے کو بہت ہمت کی ضرورت تھی ۔ صوبہ سرحد کی انتظامیہ ۔ کچھ کور کمانڈرز اور اسلام آباد سے چاپلوسی کے ماہر  سٹاف افسروں سمیت صدر پاکستان دروش پہنچے اور کلکٹک کیمپ کے دورے کے بعد زخمیوں کو ملنے  سکاؤٹس ہاسپٹل آ گئے ۔ کمانڈنٹ نے مجھے بلاکر RMO کے طور پر میرا تعارف کروا کر مجھے گھور کر کہا کہ وارڈ میں زخمیوں کے پاس لے چلو۔

وارڈ پہنچنے سے پہلے ہی صدر صاحب نے پہلا سوال داغا ۔ بشیر زخمیوں کا علاج اچھا ہو رہا ہے؟ میں  نے کہا No Sir ۔ اس وقت کے انسپکٹر جنرل ایف سی نے مجھے غصے سے دیکھا اور باقی سب افسروں نے حیرانگی سے ۔ دوسرا سوال آیا کہ سب کو دوائی مل رہی ہے میں نے کہا No Sir ۔ جنرل ضیاالحق نے مسکرا کر میرے کمانڈنٹ کی طرف دیکھا اور مجھ سے پھر پوچھا انکے کھانے کا بندوبست ہے ۔ میں نے کہا No Sir . لوگ ایسے کھڑے تھے جیسے انکو سانپ سونگھ  گیا ہو ۔ صدر صاحب کہنے لگے تمہارے پاس کچھ تو ہوگا انکی دیکھ بھال کیلئے ۔ جواب تھا No Sir کچھ نہیں ہے ۔ جنرل ضیاالحق ہنس دیے اور ہم وارڈ سے باہر آگئے ۔ مجھے لوگ ایسی نظروں سے دیکھ رہے تھے کہ میری ٹانگیں کانپنے لگیں ۔ سوچا اب کورٹ مارشل ہونے میں کوئی کسر باقی تو نہیں رہی۔

باہر آکر لان میں رُک گئے ۔ جنرل ضیاالحق کمانڈنٹ سے کہنے لگے مراد تم نے اپنے ڈاکٹر کو اچھی ٹریننگ دی ہے ۔ No Sir کہنے کی جرات کا ٹھیک ٹھیک استعمال کرتا ہے ۔ اشارے سے کسی  سٹاف افسر کو بلوایا اور کہا کہ پنڈی پہنچ کر تمہارا پہلا کام ہے کہ چترال  سکاؤٹس ہاسپٹل کو ضرورت کی ہر چیز مہیا کردو ۔ کوئی کمی نہ رہے ۔ اور جب جنرل صاحب واش روم کی طرف گئے تو مجھے پہلے کھا جانے والی نظروں سے دیکھنے والے سینئر افسروں نے بھی محبت سے Well Done کہا ۔

ایک ماہ کے اندر تین نئے ڈاکٹر پوسٹ ہوگئے ۔ ہاسپٹل کو 50 بیڈ کردیا گیا ۔ ایف سی فنڈز کے علاوہ منسٹری آف انٹیریر سے الگ فنڈز ملنے لگے اور ہاسپٹل ایک منی سی ایم ایچ بن گیا ۔ میری ذرا سی No Sir کی تکرار سے دروش جیسے دور دراز علاقے میں ایک اچھا ہاسپٹل وجود میں آگیا ۔

پھر آہستہ آہستہ جنرل ضیاالحق کے دور کا یہی Yes Sir اور All Ok Sir والا وائرس راولپنڈی اور اسلام آباد کے گلی کوچوں سے ہوتا ہوا وزیراعظم ہاوس میں گھس بیٹھا ۔ اس کے بعد ملک میں سیلاب آئے ۔ بھوک اور مفلسی ہو ۔ مہنگائی کا طوفان آجائے ۔ بیماری سے لوگ مر جائیں ۔ لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ ہو ۔ لوگوں کی عزتیں اچھل رہی ہوں ۔ کورونا پھیل رہا ہو یا سینکڑوں لوگوں کو ریلوے یا پی آئی اے ماردے وزیراعظم کو کہہ دیا جاتا ہے All Ok Sir کیونکہ وہاں بیٹھ کر یہی سریلی دھن اچھی لگنے لگتی ہے ۔ اب نہ تو کسی صاحب اختیار میں No Sir سننے کا حوصلہ ہے اور نہ قومی سطح پر کوئی کرنل مراد خان نیر بچا ہے جو کسی افسر کو یہ سکھا دے کہ کب کب No Sir کہنا ضروری ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اب کی بار ہم اگر کورونا سے بچ بھی نکلے تو Yes Sir اور All Ok Sir کے سریلے نغمے گانے اور سننے کی لت ہمیں جلد ہی مار ڈالے گی ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply