بادامی باغ کی سلمیٰ(سچی کہانی) ۔۔بشریٰ نواز

جہاں اما ں آج خوش تھیں۔ وہاں دل وسوسوں کا شکار بھی تھا  ۔ خاندان میں کوئی بھی رشتہ نہیں تھا اسی لیے رشتے والی کو کہا گیا تھا، اچھے رشتوں کا تو ویسے بھی کال پڑا ہے، و ہ دل میں سوچ رہی تھیں پچھلی بار جو رشتہ آیا تھا وہ بھی لڑکا کہاں تھا پکا مرد اور پھر موٹرسائیکل بھی مانگ لی ،اب دیکھو بتول کیسے لوگوں کو لاتی ہے ،وہ دل ہی دل میں سوچ بھی رہی تھیں۔ اور کباب بھی بنا رہی تھی انہوں نے سلمیٰ  کو تیار ہونے کا کہہ دیا تھا۔

خوبصورت سلمیٰ  کے دو چار رشتے آئے مگر کسی نہ کسی وجہ سے بات نہ بن سکی ،اماں ہر بار بات یہیں  ختم کرتیں کہ  چلو جی اللہ‎ کی مرضی ،جہاں اس کا حکم ہوا وہا ں ہو جاۓ گا رشتہ میری بیٹی کا۔ ابو کئی سال پہلے وفات پا چکے تھے بس دو ہی بیٹیاں تھیں، تین سال پہلے وہ رافیہ کی شادی کر چکی تھیں اب رات دن  سلمیٰ  کی فکر کھائے جا رہی تھی۔ ادھر اُدھر کافی  ملنےجلنے والوں کو کہا مگر اب جیسے کسی کے پاس وقت ہی نہیں کہ کوئی کسی کے کام آئے، آخررشتے والی کو کہا جو آج  کچھ لوگ  لے کے آنے والی تھی ،مقر ر وقت پہ مہمان آ گئے، ایک لڑکے کی والدہ اور تین لڑکیاں جو لڑکے کی بہنیں تھیں ان کو سلمیٰ  بہت پسند آئی، لڑکا ملک سے باہر تھا ،وہ بھائی کی تصویریں بھی ساتھ لائی تھیں۔

اما ں نے ان کے محلے سے ان کے متعلق معلومات لیں۔ جو رشتے والی نے بتا یا ویسا ہی تھا سب، اماں خوش تھیں۔ چلو اچھا رشتہ ،اچھے لوگ مل گئے ،اللہ‎ کا شکر ادا کرتے نہیں تھکتی تھیں۔

سلمیٰ  بھرے پُرے سسرال میں گئی تھی، جہاں چھ  نند یں اور دو دیور تھے، بلال سب سے بڑا تھا اور باپ کا ہاتھ بٹانے کی خاطر کئی سال سے ملک  سے باہر تھا، بلال شادی پہ  آیا تو دو ماہ کی چھٹی پہ  ۔ اسے جانے کی تیاری کرتا دیکھ کے سلمیٰ  بولی میں کب جاؤں گی آپ کے ساتھ ؟ بلال بڑے سکون سے بولا یار تم کو بھی لے جاؤں گا مگر کچھ وقت تو لگے گا ۔۔ یوں بلال پردیس روانہ ہوا اور سلمیٰ  گھر کی ذمہ داریوں میں مصروف ہوگئی۔۔ جب بھی بلال کا فون آتا اس سے بھی بات ہوتی مگر اس کے جانے کا ذکر کبهی نہیں  ہوا ،ساس نے پورے گھر کی ذمہ داری اسے سونپی ہوئی تھی ۔ نند یں  بھی بہت پیا ر کرتیں۔ گھر میں سکون اور پیسے کی کمی نہیں تھی جب کبهی دل اداس ہوتا تو اما ں سے ملنے چلی آتی ،ایک سال کے بعد ایک ديور کا رشتہ ہوا، دھوم دھام سے شادی ہوئی۔ چھٹی  نہ  ملنے کی وجہ سے بلال  نہیں آ پایا، سلمیٰ  کا انتظار ،انتظار ہی رہا ۔۔کچھ عرصے کے بعد بلال کی دو بہنو ں کا رشتہ طے ہوا ایک ہی گھر میں۔ اس بار بلال آیا، سلمیٰ  کو الگ سے شاپنگ کروائی اور بہنوں کی شادی کے بعد سلمیٰ  کا بہت شکریہ ادا کیا۔ اس بار پھر سلمیٰ نے کہا، بلال ہماری شادی کو پانچ سال ہو گئے اب۔ مجھے اپنے ساتھ لے جائیں نا ،میں آپ کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں۔ ماں بننا چاہتی ہو ں۔

میری جان!ذرا سوچو۔۔ تم اگر میرے ساتھ چلی جا ؤ گی تو۔ میری  ذمہ داریاں  کون پوری کرے گا ؟میری بہنوں کی شادیاں کون کرے گا ؟۔یار ایک بھائی اور تین بہنوں کی شادی ہو جائے تو میں تمہیں  ضرور لے جا ؤں گا ۔میں تو خود تم سے اداس ہو جاتا ہوں۔ اور پھر دیکھو نا آتا ہی تو رہتا ہوں۔ یو ں  اس نے سلمیٰ کو بہلا لیا۔ دو سال اور گزر گئے، بلال نہیں آ سکا۔ ان ہی دنوں بلال کے چھوٹے بھائی کو اپنی  کو لیگ پسند آ گئی اور جلدہی یہ شادی بھی ہو گئی۔ ساس سسر اب زیادہ تر بیمار رہنے لگے تھے ، ڈاکٹر کے پاس لے جانا بھی اسی کی  ذمہ داری تھی ۔دیو ر وں  کے پاس وقت ہی نہیں ہوتا تھا اور پھر جلال تو شادی کے بعد الگ گھر میں رہ رہا تھا۔ اس کی بیوی کو اتنے سارے لوگوں میں رہنا پسند نہیں تھا۔ سلمیٰ  کی شادی کو آٹھ سال ہو گئے ،جب عابدہ کا رشتہ آیا ۔۔یہاں بھی سلمیٰ  نے بھا گ دوڑ کے شادی کی تیاری کی اور تیسری نند بھی پیا دس سدھا ری۔ اسی دوران سسر اچانک دل کے دورے سے جاں بحق ہو گے ۔تب پھر بلال کا آنا ہوا ۔اس بار اس نے کہا ہی نہیں، سوچتی رہی یہ موقع نہیں ساتھ لے جانے والی  بات کرنے کا ، دو ہفتے بعد پھر بلال واپس چلا گیا۔ صدمے سے   نڈھال ساس کو سنبھالنا آسان نہیں تھا، لیکن اس نے ہمت نہ ہاری۔

وقت گزرتا رہا کیونکہ وقت کا تو کام ہی گزرنا ہے گزرتا وقت غم کی شدت کم کر دیتا ہے دنیا کے سارے کام ہوتے رہتے ہیں، رُکتے نہیں۔ اب بلال کی دو بہنیں جن کی شاد ی ہونی تھی سلمیٰ  ان کے جہیز بنانے میں مصروف ہو گئی کبهی بازار جانے میں طلال کی بیوی بھی ساتھ دے دیتی وہ اوپر والے پورشن میں رہتی تھی اور الگ سے کھانا بناتے تھے ،اس کا بھی یہ ہی خیال تھا کہ بھابھی آپ بہت ہمت والی ہیں، اتنی  ذمہ داری لے رکھی ہے میں تو یہ سب نہیں کر سکتی۔ یہ سن کر سلمیٰ  چپ ہو  رہتی ۔۔کیا کہتی قدرت نے جب اس پہ  اتنی پہاڑ جتنی ذمہ دار ی ڈالی تو کیا کر سکتی تھی ،اچھے دنوں کی آس میں وہ مشکل وقت گزا ر رہی تھی کتنی ہی راتیں وہ جاگ کے گزارتی ،کبهی اسے محسوس ہوتا بلال اس کے آ س پاس ہے۔ اس کی پیار بھر ی سرگوشیاں سنائی دیتیں، کتنی ہی بار وہ چونک جاتی ،جیسے اسے بلال نے آواز دی ہو ،جدائی کے یہ سال جیسے صد یوں پہ  محیط تھے ۔وہ سوچتی اس بار تو میں روٹھ جاؤں گی اپنی  بیقرار یوں کی سا ری داستان  سنا دوں گی۔ وہ خود سے ہمکلا م رہتی پھر لبنیٰ کا رشتہ ہوا منگنی ہوئی ایک سال بعد شادی طے پائی اسی دوران نشر ح کا رشتہ بھی ہو گیا ،اس بار جب بلال آیا تو بہت خوش ہوا۔۔
سلمیٰ  تم بہت اچھی ہو، تم نے میری ذمہ  داریوں  کو خوب نبھایا ،بہت شکریہ۔۔۔

اب تو  میں آپ  کے ساتھ جا سکتی ہوں نا  بلال ۔۔؟سلمیٰ  خوشی سے بولی، سب اپنے اپنے گھروں میں خوش ہیں۔ کچھ اولاد والے بھی  ہو گئے ہیں، اب تو آپ مجھے ساتھ لے جانے کا انتظام کریں نا، وہ التجائیہ لہجے میں بولی اور سوالیہ نظر وں سے بلال کی طرف دیکھنے لگی۔

سلمیٰ کیسی بات کر رہی ہو، تم میرے ساتھ چلی آئیں تو ما ں کو کون دیکھے گا ؟ امی کو طلال یا جلال رکھ لیں گے بس مجھے آپ کے ساتھ جانا ہے آپ کے پاس رہنا ہے وہ رونے لگی ، سلمیٰ  اس عمر میں امی کیسے کہیں اور جا سکتی ہیں۔ وہ ہمیشہ سے اس گھر میں رہتی آ ئی ہیں۔ کیسے نئی جگہ پہ  ایڈجسٹ کریں گی۔ امی نے بھی کہا بیٹا کوئی بات نہیں میں رہ لوں گی اب کے اس کو لے جانے کا خیال کرو۔ بہت وقت گزارا ہے اس نے تمہارے بغیر امی بھی اسی کی حمایت کر رہی تھیں۔

اسی رات امی جوسوئیں  توایسا کہ ان کو بیٹیوں کے آنسو بھی نہ  جگا سکے ۔جیسے وہ اپنے بچوں کے گھر بسنے کے انتظار میں جی رہی تھیں۔ چَہلم کے بعد بلال کی واپسی  ہوئی۔ جاتے وقت کہہ گیا فون کر کے بتا دوں گا۔۔۔
کیا ؟؟

لیکن کچھ دن بعد طلاق نامہ اور ایک  خط موصول ہوا!

سلمیٰ ،میں شادی شدہ تھا ،گھر والے اس بات سے بے خبر تھے بس جب تم سے شادی کی بات چلی تو میں خود غرض بن گیا ،سوچا تم میری ذمہ داریاں اٹھا لو گی اور تم نے سب کیا ،میں تمہارا شکر گزار ہوں۔ یہاں  میری بیوی اور بچے ہیں میں تمہیں یہاں نہیں بلا سکتا ،یہ گھر جس میں تم رہ رہی ہو  تمھارے نام کر دیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس سے آگے سلمیٰ  سے کچھ نہیں  پڑھا گیا ۔بس وہ خالی آنکھوں سے وہ ویران گھر جو اب اس کی ہستی کی طرح ویران اور غیر آ باد تھا ،اسے حسرت سے تک رہا تھا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply